غزل
سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں
یکے از شہرِ یارانِ سبا ہوں
وہ جب کہتے ہیں، فردا ہے خوش آئند
عجب حسرت سے مُڑ کر دیکھتا ہوں
فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ
کلی ہوں، گل ہوں، خوشبو ہوں، صبا ہوں
سحر اور دوپہر اور شام اور شب
میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں
کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
ترقی پر مبارک باد مت دو
رفیقو! میں اکیلا رہ گیا ہوں
کبھی روتا تھا اُس کو یاد کرکے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں
سُنے وہ اور پھر کرلے یقیں بھی
بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں
انور شعورؔ
جواب دیںحذف کریںکہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں
کیا ہی کوچیانہ شعر ہے۔۔۔ زبردست
ہاہاہاہاہا!
جواب دیںحذف کریںاب تو کوچہ میں سستی کا عالم یہ ہے کہ سستی کے کچوکے لکانے والا بھی اب کوئی نہیں رہا۔
آج صبح ایک صاحب نے اپنا نام "سلیمان" بتایا تو یہ شعر یاد آگیا اور پھر یہ غزل۔
جواب دیںحذف کریںکیا اعلیٰ غزل ہے انور شعور کی۔
مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ غزل ہم نے محفل پر تو لگائی ہے لیکن بلاگ پر نہیں سو آج اسے بلاگ پر بھی لگا دیا۔
محفل پر یہ غزل جہاں موجود ہے وہاں بھی اچھی خاصی گفتگو بمعہ تفریح ہوئی ہے۔ اور تین چار صفحات بھر دیے گئے ہیں۔ :)
لاجواب کام کیا۔۔۔ اور کوچہ۔۔۔ ہائے اسم بامسمی ہوگیا۔۔۔
جواب دیںحذف کریں