الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے

غزل


الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے

چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے

سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے


محمد احمدؔ​

نظم ۔۔۔ میں اور تو ۔۔۔ احمد فرازؔ


روز جب دھوپ پہاڑوں سے اترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہوا بڑھتا ہوا بے کل سایہ
ایک دیوار سے کہتا کہ میرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گریزاں دیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا ایستادہ
خواہشِ ہمدمِ دیرینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دیوار ہمیشہ مگر ایستادہ رہی
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گل و خشت کے ملبے کے تلے
اسی دیوار کا پندار ہے ریزہ ریزہ
دھوپ نکلی ہے مگر جانے کہاں ہے سایہ

احمد فرازؔ

دوکان رمضان ۔ تضمین از محمد احمدؔ

دوکان رمضان
(تضمین)

تحائف شو میں رمضاں کے، بلا تمہید ہی برسے
بڑھا کر ہاتھ جھپٹو، مانگ لو کچھ التجا کرکے

لیاقت کا تو کوئی کام ہی کیا شو میں عامر کے
کوئز شو ہے مگر تحفہ ملے گا رقص بھی کرکے

یہ دل میں ٹھان لو کہ لے مریں گے اک نہ اک بائک
فہد کے شو سے مل جائے، بھلے جمشید کے در سے

تلوکا ایک ڈبہ کار تک لے جا بھی سکتا ہے
اگر مکھن نہیں تو گھی لگاؤ خوب بھر بھر کے

اگر بائک نہیں تو ایک دو کُرتے ہی مل جائیں
ذرا دستِ سوال اونچا اُٹھاؤ ، دستِ بر تر سے

تقاضہ وقت کا سمجھو کہ عزت آنی جانی ہے
بچا کر عزتِ نفس اب کوئی کیوں ہر گھڑی ترسے

تجارت کی زکواۃ اب دے رہے ہیں تاجر و زرگر
رکھو پاؤں میں اینکر کے ،اُتارو پگڑیاں سر سے

میں کُڑھتا ہوں کہ میرے لوگ ایسے ہو گئے کیونکر
"حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے"

محمد احمدؔ

تضمین بر کلامِ حضرتِ ولی دکنی - ظریفانہ کلام

حضرتِ ولی دکنی کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

خاکسار کی جانب سے اس کے دونوں مصرعوں پر (ظریفانہ) تضمین پیش ہے۔
اُمید ہے احباب کو پسند آئے گی۔ 

وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا 
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"


کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا​
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن​
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا​
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"​

محمد احمدؔ

نظم : منظر سے پس منظر تک


کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا 
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے کیسے رنگ رنگیلے تھے
پیلے پیلے پھول تھے، آنچل نیلے نیلے تھے
کیا چمکیلی آنکھیں ، کیسے خواب سجیلے تھے
لیکن آنکھیں نم تھیں، منظر سِیلے سیلے تھے
اک چہرہ تھا روشن جیسے چاند گھٹاؤں میں
اک مسکان تھی جیسے بکھریں رنگ فضاؤں میں
منظر منظر تکتا جاتا ، چلتا جاتا میں
اِ س منظر سے اُس منظر تک بڑھتا جاتا میں
اک تصویر کو رُک کر دیکھا ، رُک نہیں پایا میں
اِس کھڑکی سے اُس آنگن تک جھُک نہیں پایا میں
جیسے اُس شب چلتے رہنا قسمت ٹھیری تھی
میرے تعاقب میں 
یادوں کی پچھل پیری تھی

محمد احمدؔ

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​ ۔ جمال احسانی

غزل

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں​
جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں​
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں​
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو​
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں​
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے​
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں​
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم​
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں​
سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول​
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں​
نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو ​
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں​
مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ​
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں​
جمالؔ احسانی

ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم


غزل
خاکسار کی ایک طرحی غزل

ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں، ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم

اب غم کوئی، نہ سرشاری، بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں، اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم

ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہت
اب حدّتِ غم، نہ جوشِ جنوں، اے دشتِ طلب! برفاب ہیں ہم

یہ تنہائی، یہ خاموشی، تارا بھی نہیں اِس شام کوئی
کچھ داغ سمیٹے سینے میں، تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم

ہم جس میں ڈوب کے اُبھرے ہیں، وہ دریا کیسا دریا تھا؟
یہ کیسا اُفق ہے جس کی اتھاہ گہرائی میں غرقاب ہیں ہم

ہم مثلِ شرر ہیں ، جگنو ہیں، ہم تِیرہ شب کے آنسو ہیں
ہم نجمِ سحر، ہم رشکِ قمر، ہاں ہر صورت شب تاب ہیں ہم

اک حزن و ملال کا سیلِ بلا، سب خواب بہا کر لے بھی گیا
پھر پھول کھلے من آنگن میں، پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم

لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں،  نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔ
ہاں اُن کے لئے، جو دل سے ملے، وہ جانتے ہیں، کمیاب ہیں ہم

محمد احمدؔ