روز جب دھوپ پہاڑوں سے اترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہوا بڑھتا ہوا بے کل سایہ
ایک دیوار سے کہتا کہ میرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گریزاں دیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا ایستادہ
خواہشِ ہمدمِ دیرینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دیوار ہمیشہ مگر ایستادہ رہی
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گل و خشت کے ملبے کے تلے
اسی دیوار کا پندار ہے ریزہ ریزہ
دھوپ نکلی ہے مگر جانے کہاں ہے سایہ
احمد فرازؔ
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
جواب دیںحذف کریں@sarwataj
جواب دیںحذف کریںبلاشبہ۔۔۔!
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
جواب دیںحذف کریںبہت خوب،
ماشاءاللہ، آپکا بلاگ بہت خوبصورت ہے اور شاعری کا انتخاب بھی لاجواب۔۔۔
بہت شکریہ @کائنات بشیر
جواب دیںحذف کریںبلاگ کی پسند آوری کے لئے ممنون ہوں۔