نظم ۔۔۔ میں اور تو ۔۔۔ احمد فرازؔ


روز جب دھوپ پہاڑوں سے اترنے لگتی
کوئی گھٹتا ہوا بڑھتا ہوا بے کل سایہ
ایک دیوار سے کہتا کہ میرے ساتھ چلو
اور زنجیرِ رفاقت سے گریزاں دیوار
اپنے پندار کے نشے میں سدا ایستادہ
خواہشِ ہمدمِ دیرینہ پہ ہنس دیتی تھی
کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی
کون دیوار ہمیشہ مگر ایستادہ رہی
وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق
اور اب سنگ و گل و خشت کے ملبے کے تلے
اسی دیوار کا پندار ہے ریزہ ریزہ
دھوپ نکلی ہے مگر جانے کہاں ہے سایہ

احمد فرازؔ

4 تبصرے:

  1. وقت دیوار کا ساتھی ہے نہ سائے کا رفیق

    جواب دیںحذف کریں
  2. کون دیوار کسی سائے کے ہمراہ چلی

    بہت خوب،
    ماشاءاللہ، آپکا بلاگ بہت خوبصورت ہے اور شاعری کا انتخاب بھی لاجواب۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  3. بہت شکریہ @کائنات بشیر

    بلاگ کی پسند آوری کے لئے ممنون ہوں۔

    جواب دیںحذف کریں