خاکسار کی ایک پرانی غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:
غزل
سُراغِ جادہ و منزل اگر نہیں ملتا
ہمیں کہیں سے جوازِ سفر نہیں ملتا
لکھیں بھی دشت نوردی کا کچھ سبب تو کیا
بجُز کہ قیس کو لیلیٰ کا گھر نہیں ملتا
یہاں فصیلِ انا حائلِ مسیحائی
وہاں وہ لوگ جنہیں چارہ گر نہیں ملتا
ہزار کو چہء نکہت میں ڈالیے ڈیرے
مگر وہ پھول سرِ رہگزر نہیں ملتا
پھر آبیاریِ نخلِ سخن نہیں ہوتی
دلِ حزیں جو پسِ چشمِ تر نہیں ملتا
پیامِ شوق کو گیتوں میں ڈھالیے کیوں کر
مزاجِ بادِ سُبک بھی اگر نہیں ملتا
چلو کہ پھر سے رفیقوں کی بزم سونی ہے
چلو کہ سنگِ ملامت کو سر نہیں ملتا
بشر بنامِ بشر تو بہت ہیں دنیا میں
بشر کی خوبیوں والا مگر نہیں ملتا
چلو پھر اُس کے جھروکے میں پھول رکھ آئیں
سخن کوئی جو اگر معتبر نہیں ملتا
جہاں میں ایک تمہی منفرد نہیں احمدؔ
یہاں تو کوئی بھی مثلِ دگر نہیں ملتا
محمد احمدؔ