فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے ۔ مصطفیٰ زیدی

غزل 

فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے
کہیں تو مِل مجھے، اے گمشدہ خدا میرے

میں شمع کُشتہ بھی تھا، صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے

وہ دردِ دل میں ملا، سوزِجسم و جا ں میں ملا
کہاں کہاں اسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے

ہر ایک شعر میں، میں اُس کا عکس دیکھتا ہوں
مری زباں سے جو اشعار لے گیا میرے

سفر بھی میں تھا، مسا فر بھی تھا، راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا کئی کوس ما سوا میرے

وفا کا نام بھی زندہ ہے، میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا ،مجھ کو بے وفا میرے

وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک سمجھ نہ سکا
جگر کا زخم تھا، نغموں میں ڈھل گیا میرے

مصطفٰی زیدی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں