غزل
غبارِ طبع میں تھوڑی بہت کمی ہو جائے
تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے
ذرا خیال کرو، وقت کس قدر کم ہے
میں جو قدم بھی اُٹھا لوں ، وہ آخری ہو جائے
قیامتیں تو ہمیشہ گزرتی رہتی ہیں
عذاب اُس کے لئے جس کو آگہی ہو جائے
گزر رہے ہیں مرے رات دن لڑائی میں
میں سوچتا ہوں کہ مجھ کو شکست ہی ہو جائے
عجیب شخص ہے تبدیل ہی نہیں ہوتا
جو اُس کے ساتھ رہے چند دن وہی ہو جائے
مرا نصیب کنارہ ہو یا سمندر ہو
جو ہو گئی ہے، تو لہروں سے دشمنی ہو جائے
تمام عمر تو دوری میں کٹ گئی میری
نہ جانے کیا ہو؟ اگر اس سے دوستی ہو جائے
بس ایک وقت میں ساری بلائیں ٹوٹ پڑیں
اگر سفر یہ کٹھن ہے تو رات بھی ہو جائے
میں سو نہ جاؤں جو آسانیاں میسر ہوں
میں مر نہ جاؤں اگر ختم تشنگی ہو جائے
نہیں ضرور کہ اونچی ہو آسمانوں سے
یہی بہت ہے زمیں پاؤں پر کھڑی ہو جائے
تمام عمر سمٹ آئے ایک لمحے میں
میں چاہتا ہوں کہ ہونا ہے جو ابھی ہو جائے
وہی ہوں میں وہی امکاں کے کھیل ہیں شہزادؔ
کبھی فرار بھی ممکن نہ ہو، کبھی ہو جائے
شہزادؔ احمد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں