سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد

رنگ ہے دل کا مرے

رنگ ہے دل کا مرے

تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر،  راہگزر راہگزر،  شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ، خون جگر ہونے تک
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو تھی
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے

فیض احمد فیض

نور بجنوری کی دو خوبصورت غزلیں



روح چٹخی ہوئی، جسم دُرکا ہوا
دستِ سائل بھی، کاسہ بھی ٹوٹا  ہُوا

میرے باہر زمان و مکاں نوحہ گر
میرے اندر کوئی مجھ پہ ہنستا  ہُوا

ہر نظر نیم جاں عقل کے زہر سے
ہر صحیفے میں اک سانپ بیٹھا  ہُوا

وحشیوں کو بگولے اُڑا لے گئے
شہر کی طرح صحرا بھی سُونا  ہُوا

ایک اندھی کرن بین کرنے لگی
قریہ ٴ دل میں شاید سویرا  ہُوا

کوہکن، تیشہ و سنگ سے بے نیاز
قیس، پھولوں کے بستر پہ سویا  ہُوا

اس جنم میں بھی جسموں کی منڈی لگی
اس جنم میں بھی چاہت کا سودا ہُوا

تیر بن کر لگا آج احساس پر
ایک پتّہ ہواؤں میں اُڑتا ہوا


******

سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی
ہم وہی، لوگ وہی، کوچہء دلدار وہی

اک جہنّم سے دھکتا ہُوا، تاحدِّ نظر
وقت کی آگ وہی شعلہء رفتار وہی

شیشہ ٴ  چشم  پہ چھایا ہُوا اک زلف کا عکس
قریہ ٴ دار وہی، سایہ ٴ دیوار وہی

عرصہ ٴ  حشر کبھی ختم بھی ہوگا کہ نہیں
وہی انصاف کی میزان، گناہگار وہی

تم سلامت رہو ، یوسف کی ضرورت کیسی
اہلِ فن! آج بھی ہے رونقِ بازار وہی

میں بھی زندہ ہوں ، ترا حُسن بھی تابندہ ہے
چاند سے زخم  وہی، پھول سی مہکار وہی

نورؔ میں اب بھی محبّت کو عبادت جانوں
ہے مرے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار وہی

نور بجنوری

رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں



رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں


ایک ہی  آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ 
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ

وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ

خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ

تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ

زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ

پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ


******


اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے 

جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنہ ٴ رسوائی دے

بارِ دنیا نہ سہی، بارِ صداقت اُٹھ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے

مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

رضی اختر شوق

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو

غزل

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو

ساعتِ چند کے مسافر سے
کوئی دم اور گفتگو لوگو

تھے تمہاری طرح کبھی ہم لوگ
گھر ہمارے بھی تھے کبھو لوگو

ایک منزل سے ہو کے آئے ہیں
ایک منزل ہے رُوبُرو لوگو

وقت ہوتا تو آرزو کرتے
جانے کس شے کی آرزو لوگو

تاب ہوتی تو جتسجُو کرتے
اب تو مایوس جستجُو لوگو

ابنِ انشا

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

غزل

تری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

اب گلہ کیا کہ ہوا ہوگئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب تیرے نہیں

ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

افتخار عارف

دلِ سوختہ کبھی بول بھی

کبھی بول بھی (نظم)

دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تیر ی چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھی کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی

دلِ نا خدا
کبھی بول بھی
جو تیرے سفینۂ دار و غم کے سوار تھے
جو تیرے وظیفہء چشمِ نم پہ نثار تھے
وہ جو ساحلوں پہ اُ تر گئے تو پھر اُس کے بعد پلٹ کے آئے کبھی نہیں
تیری لہر لہر پہ جن کے نقش و نگار تھے
کسی دن ترازوئے وقت پر
اُنہیں تول بھی
کبھی بول بھی

وہ جو تیرے نغمۂ زیرو بم کے امین تھے
جو ترے طفیل بلندیوں کے مکین تھے
و ہ جو معترف تھے تری نگاہِ نیاز کے
تمھیں جن پہ سو سو یقین تھے
وہ چکا گئے ترا مول بھی
کبھی بول بھی
کبھی بول بھی، دلِ سوختہ، دلِ نا خدا، دلِ بے نوا، کبھی بول بھی

فرحت عباس شاہ