رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں
ایک ہی آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ
وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ
خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ
تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ
زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ
پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ
******
اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے
خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے
جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے
تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنہ ٴ رسوائی دے
بارِ دنیا نہ سہی، بارِ صداقت اُٹھ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے
مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے
رضی اختر شوق
برادر! میں نے بھی اردو بلاگ بنایا ہے لیکن اس پہ تستعلیق خط میں کیسے لکھتے ہیں، یہ معلوم نہیں ہو رہا۔ آپ کچھ رائے دیں گے؟
جواب دیںحذف کریںاسد محمود صآحب، بلاگ پر نستعلیق خط شامل کرنے کے لئے بلاگ ٹیمپلیٹ میں کچھ تبدیلیاں کرنا ہوتی ہیں۔ آپ بلال بھائی کا بلاگ دیکھیے یہاں سے آپ کو مدد مل جائے گی۔
جواب دیںحذف کریںhttp://www.mbilalm.com/
چاہیں تو اردو محفل میں شمولیت اختیار کر کے یہاں کا بلاگنگ کا ذمریہ دیکھیے وہاں بھی رہنمائی مل سکتی ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/
بہت شکریہ!
جواب دیںحذف کریں