رنگ ہے دل کا مرے
تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ، خون جگر ہونے تک
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو تھی
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے
فیض احمد فیض
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں