دلِ سوختہ کبھی بول بھی

کبھی بول بھی (نظم)

دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تیر ی چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھی کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی

دلِ نا خدا
کبھی بول بھی
جو تیرے سفینۂ دار و غم کے سوار تھے
جو تیرے وظیفہء چشمِ نم پہ نثار تھے
وہ جو ساحلوں پہ اُ تر گئے تو پھر اُس کے بعد پلٹ کے آئے کبھی نہیں
تیری لہر لہر پہ جن کے نقش و نگار تھے
کسی دن ترازوئے وقت پر
اُنہیں تول بھی
کبھی بول بھی

وہ جو تیرے نغمۂ زیرو بم کے امین تھے
جو ترے طفیل بلندیوں کے مکین تھے
و ہ جو معترف تھے تری نگاہِ نیاز کے
تمھیں جن پہ سو سو یقین تھے
وہ چکا گئے ترا مول بھی
کبھی بول بھی
کبھی بول بھی، دلِ سوختہ، دلِ نا خدا، دلِ بے نوا، کبھی بول بھی

فرحت عباس شاہ

1 تبصرہ: