غزل
ذہن و دل کو رُوح سے کچھ دیر وابستہ کرو
تیز رَو ہے زندگی ، رفتار آہستہ کرو
سامنے ہوگی جواباً خود گلابوں کی ہنسی
غم کے لہجے کو ذرا کچھ اور شائستہ کرو
مانگتی ہے زندگی باہوش رہنے کا ثبوت
گاہ چونکو، گاہ لغزش کوئی دانستہ کرو
قول و اقرارِ محبت کا کہاں اب وقت ہے
کتنے ہنگامے کھڑے ہیں بات آہستہ کرو
رقص و عکس و رنگ ہو، کوئی تماشا تو بنے
آئینے کو پھر کسی اِک رُخ سے وابستہ کرو