بولتے کیوں نہیں مرے حق میں



ہمارے وزیرِ اعظم صاحب کہتے ہیں کہ وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ہیں اور وہ کسی چور دروازے سے نہیں آئے ہیں ۔ وہ عوام کے ووٹ سے آئے ہیں اور عوام کے حقیقی نمائندے ہیں۔

کچھ اسی قسم کے راگ ہمارے دوسرے ممبرانِ اسمبلی الاپتے نظر آتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ آخر عوامی نمائندے کیا ہوتے ہیں اور اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے یہ لوگ کس طرح سے عوامی نمائندگی کر رہے ہیں کہ عوام کی مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔

ہمارے ہاں کرپشن اپنے عروج پر ہے، امداد کے نام پر بھیک لی جا رہی ہے، معیشت قرض کے ستونوں پر استوار ہے۔ لاقانونیت نے پورے ملک کو جکڑا ہواہے۔ کسی شہر میں آٹھ دس لوگوں کا مرنا کسی گنتی شمار میں نہیں ہے۔ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری اپنی انتہا پر پہنچی ہوئی۔ تعلیم کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے کہ تعلیمی ادارے بھی سیاسی جماعتوں کے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں۔ بجلی اور گیس کی شدید قلت ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی صرف سوئس بنک اکاونٹ بھرنے تک محدود ہے۔

قصہ کوتاہ ، پاکستان اور پاکستانی اس وقت انتہائی ابتر حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔ جبکہ ہمارے نام نہاد عوامی نمائندے، اعلیٰ سے اعلیٰ گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹلز میں کھاتے ہیں، منرل واٹر پیتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں روپے اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں۔ بجلی ،ایندھن اور بے شمار مراعات سرکار کی طرف سے ۔ عیش کیجے جناب ۔ آ پ تو عوامی نمائندے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کا ہی تو ہے۔

عوامی نمائندے خوش ہوتے ہیں تو ذاتی مفاد کے حصول پر ۔ اور ناراض ہوتے ہیں تو بھی اپنے ہی نقصان پر۔ ہماری سیاسی جماعتیں حکومت میں شامل ہوتی ہیں تو سیٹس اور وزرارتیں ملنے پر ۔ الگ ہوتی ہیں تب بھی سیٹیں اور وزراتیں ہی ان کے پیشِ نظر ہوتی ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو کرپشن ، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ یا کسی اور عوامی مسئلے کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ ہو یا ان مسائل کے حل کی شرط پر حکومت میں شامل ہو۔

شاید جون ایلیا نے ایسے ہی کسی ہمدرد سے کہا ہوگا:

بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

افسوس کہ یہ ہمارے عوامی نمائندے ہیں ۔ کاش یہ نہ ہوتے تو شاید عوامی مسائل بھی نہ ہوتے کہ یہ مسائل حل کرنے والے ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہر مسئلے کی جڑ یہی لوگ ہیں۔ ہر وہ شخص جو آ ج اسمبلی میں بیٹھا ہے چاہے وہ کسی بھی سیاسی، علاقائی یا لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والا ہو وہ اس قوم کا مجرم ہے۔ یہ بات واقعی ٹھیک ہے کہ ہمارے وزیرِ اعظم کسی چور دروازے سے نہیں آئے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ جاتے ہوئے وہ اور اُن کے حواری اسی دروازے کا انتخاب کریں گے۔

سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے

غزل

سنگ ہوا کے کھیل رچانا بھول گئے
شام ڈھلی تو دیپ جلانا بھول گئے

دل آنگن میں دھوپ غموں کی کیا پھیلی
جگنو آنکھوں میں مسکانا بھول گئے

تعبیروں کی تعزیروں کا خوف رہا
وہ سمجھے ہم خواب سنانا بھول گئے

صدیاں جیسے لمحوں میں آ ٹھہری ہوں
لمحے جیسے آنا جانا بھول گئے

جب قحطِ اجناس ٹلا احساس ہوا
بستی والے پھول اُگانا بھول گئے

سِسکی سِسکی ہونٹوں کو مسکان کیا
پلکوں پلکوں باڑ لگانا بھول گئے

تیز ہوا کو خاک اُڑانا یاد رہا
بادل کیوں بارش برسانا بھول گئے

بے صبری یادیں رستے میں آن ملیں
ہم دیوانے گھر بھی جانا بھول گئے

بادِ صبا نے اور دریچے دیکھ لئے
ہم بھی احمدؔ گیت سہانا بھول گئے

محمد احمدؔ


ایمان کا شیشہ


رمضان کے دن تھے ہمارے ایک دوست دن کے وقت سرِ عام کھاتے پیتے نظر آئے۔ ہم نے عرض کیا محترم کیا آج روزہ نہیں رکھا ۔ کہنے لگے۔ "بھائی! آ پ نے کیا سمجھا ہوا ہے۔ کیا ہمارا روزہ اتنا کچا ہے کہ چھوٹی موٹی چیزیں کھانے سے ٹوٹ جائے گا"۔ اسی طرح ایک دن وضو کرکے آئے ہی تھے کہ کچھ "ان ۔ فیشن " الفاظ کی جگالی کرنے لگے۔ ہم نے پھر وضو کی پختگی کی بابت پوچھ لیا۔ جواب وہی تھا یعنی ہمارا وضو اتنا بھی گیا گزرا نہیں کہ ان معمولی باتوں سے متاثر ہو جائے۔

ہماری جگہ کوئی اور ناعاقبت اندیش ہوتا تو کہتا کہ "بھائی ! ایمان شیشے کی طرح ہوتا ہے اور شیشے پر مذاق میں بھی اگر کوئی خراش ڈالی جائے تو بال پڑجاتاہے۔اور شیشے پر بال پڑ جائے تو مشکل سے ہی جاتا ہے "

لیکن ہم اتنے تنگ نظر تھوڑی ہیں ہم مسکرا دیئے اور کہنے لگے "ا ٓپ سے اللہ ہی پوچھے گا "۔ اس بات کا مطلب بھی کم و بیش یہی نکلتا ہے جو نا عاقبت اندیش بھائی نے کہی۔

ہم نے اب تک کی زندگی میں ایک ہی کام کی چیز سیکھی ہے اور وہ ہے اعتدال۔ یہ اعتدال کوئی آسان چیز ہر گز نہیں ہے لیکن اگر اعتدال سے کام لیا جائے تو ہر مسئلہ کی شدت از خود آدھی ہو سکتی ہے۔ سو ہم اور ہمارے دوست اگر اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں تو بہت سے مسائل اور تلخیاں پیدا ہی نہ ہوں۔

محاصرہ ۔ ایک لازوال نظم

آج سے دس بارہ سال پہلے اکیڈمی ادبیات نے مزاحمتی ادب کے نام سے ایک انتخاب شائع کیا تھا۔ اس انتخاب میں ایسا کلام شائع کیا گیا تھا جو مختلف ادوار میں ظلم و استبداد کے خلاف لکھا گیا۔ اس میں زیادہ تر کلام وہ ہے جو اُن ادوار میں لکھا گیا جب فوجی آمریت نے ملک پر شب خون مارا۔ اس موضوعاتی انتخاب میں بہت عمدہ کلام پیش کیا گیا ہے۔ اس اعلیٰ ترین انتخاب میں بھی جو نظم مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ کوئی اور نہیں بلکہ احمد فرازؔ کی محاصرہ ہی تھی۔ محاصرہ ایسی نظم ہے جو ظلم و جبر کے خلاف واضح اور واشگاف انکار ہے جو تمام تر جبر، خوف اورسمجھوتے کی شکل میں ملنے والی مراعات ، مفادات اور دیگر ترغیبات کے باوجود حق و باطل کا ادارک نہیں کھونے دیتی۔ یہاں فراز صاحب نے اُن لوگوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو یوں تو حق کی بات کرتے ہیں لیکن مفادات کے حصول کے لئے کسی بھی بے ضمیر سے سمجھوتے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں ۔ میرے نزدیک محاصرہ اپنے موضوع کے اعتبار سے اب تک کی بہترین تخلیق ہے۔ اور اس پر احمد فراز کو جتنا بھی سراہا جائے کم ہے لیکن بقول فراز صاحب کے:
تیرے ہوتے ہوئے محفل میں جلاتے ہیں چراغ ہم بھی کیا سادہ ہیں سورج کو دکھاتے ہیں چراغ
سو فراز صاحب جیسی قد آور شخصیت کو سراہنا بھی سورج کو چراغ دکھانے والی ہی بات ہے لیکن کیا کریں کہ ۔ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ یوں تو گوگل پر تلاش کی کل دباتے ہی محاصرہ کے بے شمار ربط نظر آئیں گے لیکن یہ وہ نظم ہے کہ میری خواہش ہے کہ جب لوگ ویب پر اس نظم کو تلاش کریں تو سینکڑوں روابط میں سے ایک ربط میرے بلاگ کا بھی ہو۔ مزید کچھ کہے بغیر ایک بار پھر اس خوبصورت تخلیق سے فیضیاب ہوتے ہیں۔ محاصرہ میرے غنیم نے مجھکو پیام بھیجا ہے کہ حلقہ زن ہیں میرے گرد لشکری اُسکے فصیل شہر کے ہر برج، ہر مینارے پر کماں بدست ستادہ ہیں عسکری اُس کے وہ برقِ لہر بجھا دی گئی ہے جسکی تپش وجودِ خاک میں آتش فشاں جگاتی تھی بچھا دیا گیا بارود اسکے پانی میں وہ جوئے آب جو میری گلی کو آتی تھی سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے سپرد ِدار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے تمام صوفی و سالک، سبھی شیوخ و امام امید ِلطف پہ ایوان ِکجکلاہ میں ہیں معززین ِعدالت حلف اٹھانے کو مثال سائلِ مبرم نشستہ راہ میں ہیں تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے وہ آسمان ِہنر کے نجوم سامنے ہیں بس اس قدر تھا کہ دربار سے بلاوا تھا گداگران ِسخن کے ہجوم سامنے ہیں قلندرانِ وفا کی اساس تو دیکھو تمھارے ساتھ ہے کون؟‌آس پاس تو دیکھو تو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو وگرنہ اب کہ نشانہ کمان داروں کا بس ایک تم ہو، سو غیرت کو راہ میں رکھ دو یہ شرط نامہ جو دیکھا، تو ایلچی سے کہا اسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے تو یہ جواب ہے میرا میرے عدو کے لیے کہ مجھکو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ اسے ہے سطوتِ شمشیر پہ گھمنڈ بہت اسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ میرا قلم نہیں کردار اس محافظ کا جو اپنے شہر کو محصور کر کے ناز کرے میرا قلم نہیں کاسہ کسی سبک سر کا جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے میرا قلم نہیں اوزار اس نقب زن کا جو اپنے گھر کی ہی چھت میں شگاف ڈالتا ہے میرا قلم نہیں اس دزدِنیم شب کا رفیق جو بے چراغ گھروں پر کمند اچھالتا ہے میرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے میرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی جو اپنے چہرے پہ دوہرا نقاب رکھتا ہے میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے اسی لیے تو جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا جبھی تو لوچ کماں کا، زبان تیر کی ہے میں کٹ گروں یا سلامت رہوں، یقیں ہے مجھے کہ یہ حصارِ ستم کوئی تو گرائے گا تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
احمد فرازؔ

ایک خیال کی رو میں ۔۔۔

ایک خیال کی رو میں ۔۔۔

کہیں سنا ہے
گئے زمانوں میں
لوگ جب قافلوں کی صورت
مسافتوں کو عبور کرتے
تو قافلے میں اک ایسا ہمراہ ساتھ ہوتا
کہ جو سفر میں
تمام لوگوں کے پیچھے چلتا
اور اُس کے ذمّے یہ کام ہوتا
کہ آگے جاتے مسافروں سے
اگر کوئی چیز گر گئی ہو
جو کوئی شے پیچھے رہ گئی ہو
تو وہ مسافر
تمام چیزوں کو چُنتا جائے
اور آنے والے کسی پڑاؤ میں ساری چیزیں
تما م ایسے مُسافروں کے حوالے کردے
کہ جو منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
اپنے رستے تو پاٹ آئے
پر اپنی عجلت میں کتنی چیزیں
گرا بھی آئے ، گنوا بھی آئے

میں سوچتا ہوں
کہ زندگانی کے اس سفر میں
مجھے بھی ایسا ہی کوئی کردار مل گیا ہے
کہ میرے ہمراہ جو بھی احباب تھے
منازل کی چاہ دل میں لئے شتابی سے
راستوں پر بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
میں سب سے پیچھے ہوں اس سفر میں
سو دیکھتا ہوں کہ راستے میں
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں
جگہ جگہ پر پڑی ہوئی ہیں
میں اپنے خود ساختہ اُصولوں کی
زرد گٹھری میں ساری چیزیں سمیٹتا ہوں
اور اپنے احساس کے جلو میں
ہر اک پڑاؤ پہ جانے والوں کو ڈھونڈتا ہوں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے میرے تمام احباب منزلوں کو گلے لگانے
بہت ہی آگے نکل گئے ہیں
یا میں ہی شاید
وفا، مروت، خلوص و ایثار، مہر و الفت
اور اس طرح کی بہت سی چیزیں سمیٹنے میں کئی زمانے بتا چکا ہوں۔


محمد احمدؔ

کھڑکی ۔ اسد محمد خان

کھڑکی
اسد محمد خان

دوسروں کو بہادری کا سبق دینے والوں پر بھی کبھی ایسا وقت آ جاتا ہے ۔ ایک کھڑکی کی کہانی جس کے پار بحران کے ایک لمحے کا حل تھا۔ افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، شاعر اور کہانی کار اسد محمد خان کی کہانی ۔جسے صرف وہی لکھ سکتے تھے۔ آپ کے اعلٰی ذوق کی نذر:

میں نے پہلی بار اسے اپنے محلے کے ایک کلینک میں دیکھا تھا مجھے ڈاکٹر سے کسی قسم کا سرٹیفیکیٹ لینا تھا اور وہ انجکشن لگوانے آئی تھی۔ آئی کیا بلکہ لائی گئی تھی۔ ایک نوجوان جو شاید چچا یا ماموں ہوگا اسے گود میں اُٹھائے سمجھا رہا تھا کہ سوئی لگوانے میں زیادہ تکلیف تو نہیں ہوتی البتہ ٹافی کھانے کو ملتی ہے اور امی پر اور دوسرے لوگوں پر رعب الگ پڑتا ہے۔ بات یقینا اس کی سمجھ میں آ رہی تھی۔ رعب شاید سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا لیکن ٹافی کا سن کر ذرا حوصلہ مند دکھائی دی تھی پھر تھوڑی دیر بعد وہ فکر مند اور خوف زدہ ہو کر ادھر اُدھر دیکھنے لگتی تھی جدھر سے کمپاؤنڈر کو سوئی لے کر آنا تھا۔

چچا ماموں کی نشست ایسی تھی کہ وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھا تھا اس کے پہلو اور بانہوں سے جیسے کھڑکی سی بن گئی تھی اور اس کھڑکی میں سے اس کا پورا چہرہ، اس کا ایک ایک تاثر مجھے صاف نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی سے دیکھتے ہوئے ایک بار میری نظریں اس سے ملیں۔ اس وقت چچا ماموں اُسے سمجھا رہا تھا کہ تیرا بھائی جان تو انجکشن لگواتے ہوئے روتا ہے۔ ڈرتا ہے نا! اس لئے روتا ہے۔ تو بالکل نہیں ڈرتی، بڑی بہادر ہے۔

جس وقت چچے ماموں نے یہ بات کہی ٹھیک اس وقت منی بانہوں کی کھڑکی سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں نے آہستہ سے سر ہلا دیا۔ اس بات سے اتفاق کیا۔ منی نے جب دیکھا کہ چچا ماموں کے علاوہ دوسرا کوئی اسے بہادر سمجھ رہا ہے تو وہ ہولے سے مسکرادی۔ میں نے دیکھا کہ وہ اترا کر مسکرائی تھی۔ جیسے مجھے اپنی بہادری کے رعب میں لے رہی ہو۔ جتنی دیر میں کمپاؤنڈر آیا اتنی دیر میں منی اشاروں میں مجھے سمجھا چکی تھی کہ اصل میں وہ بڑی بہادر ہے۔ انجکشن ونجکشن سے بالکل نہیں ڈرتی۔

میں نے بھی بانہوں کی کھڑکی سے رازدارانہ دیکھتے ہوئے سر ہلا ہلا کر اس بات سے اتفاق کیا اور بتا دیا کہ میں پوری طرح اس کی بہادری کے رعب میں آگیا ہوں۔ منی نے اپنی نو دریافت دلیری کے غرور میں ذرا سر اٹھایا تھا کہ سامنے سوئی اُٹھائے کمپاؤنڈر آن کھڑا ہوا۔ بہادری اور خوف کی کسی درمیانی کیفیت میں اس نے ہلکی سی آواز نکالی اور گھبرا کر بانہوں کی کی کھڑکی کے پار شاید مدد کے کے لئے میری طرح دیکھا۔ اس وقت کمپاؤنڈر نے اس کے بازو پر اسپرٹ میں بھیگی روئی ملنا شروع کردی تھی۔ منی متوقع تکلیف کے خیال سے منہ بسورنے لگی ٹھیک اس وقت جب کہ وہ آواز سے رو سکتی تھی میری نظریں اسکی نظریں پھر ملیں۔ میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرا کر شاید آنکھوں کے کسی اشارے سے اسے یاد دلایا کہ وہ تو بڑی بہادر ہے۔

بحران کے اس لمحے میں بھی منی نے میری بات سمجھ لی۔ اس نے منہ بسورنا بند کردیا اور آواز نکالے بغیر انجکشن لگوالیا۔ میں نے اپنی شہادت کی انگلی اور انگوٹھا ملا کر تعریف کا اشارہ دیا۔ اور منی اپنے اس چچا یا ماموں کی گود میں چڑھی ہوئی کلینک سے چلی گئی۔

کمپاؤنڈر اور منی کا چچا یا ماموں حیران تھے مگر مجھ کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی منی واقعی بہادر تھی۔

اس بات کو بہت دن ہوگئے ۔ میں یہ واقعہ اور منی کا چہرہ کچھ کچھ بھول چلا تھا۔ باہر کڑواہٹ اور دکھ ہو تو میٹھے چہرے اور بھولی باتیں کب تک یاد رہ سکتی ہیں۔ میں خود ایک بحران سے گزر رہا تھا میرے والد دماغ کی رگ پھٹ جانے پر طویل بے ہوشی میں تھے۔ وہ ملک سے باہر تھے میں اپنے سفری کاغذات کی تیاری میں مصروف تھا۔ ساتھ ہی دن میں کئی کئی بار ان کے تیمارداروں سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کرنا چاہتا تھا تھا مگر مجھے ناکامی ہورہی تھی۔ کاغذات بننے میں دیر تھی۔ نہ وہاں جا سکتا تھا نہ کسی سے بات کر سکتا تھا۔ عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ تیسرے چوتھے دن عزیزوں کی طرف سے ایک تار آجاتا تھا۔ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی دعا کیجے۔ پھر آخری تار آیا کہ خدا مغفرت کرے وہ گزر گئے۔

میں بچپن کے ایک دوست کے ہمراہ تار گھر پہنچا اور جیسے ہوش و حواس سے عاری کوئی شخص ہوتا ہے بالکل اسی طرح بلند آواز میں لوگوں کو اپنے ذاتی نقصان کے بارے میں بتانے لگا پھر وہیں بیٹھے بیٹھے میں نے اپنے چھوٹوں کے نام ایک تار لکھا جس میں انہیں تسلّی دینے کے بجائے یہ لکھا کہ سفر کا ارادہ میں نے ترک کردیا ہے کیونکہ اب کوئی فائدہ نہیں۔ جس کے لئے سفر کرتا وہی نہ رہے۔

میں یہ سب کچھ کر رہا تھا اور اس بات سے بے خبر تھا کہ تار گھر کی بنچ پر بیٹھے ہوئے ایک نوجوان کے شانے سے لگی کوئی بچی اچک اچک کر مجھے دیکھنے یا متوجہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لوگ سامنے سے ہٹے تو دیکھنے کے لئے ایک کھڑکی سی بن گئی۔ میں نے اس کھڑکی میں سے پہچان لیا۔ یہ منی تھی۔ منی مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ اس کے چھوٹے سے ذہن نے اسے بتا دیا تھا کہ مجھے ضرور کوئی پریشانی ہے یا شاید میں ڈرا ہوا ہوں۔ اس لئے وہ مسکرائی اور اس نے ننھی ہتھیلیاں اپنی آنکھوں پر ملیں جیسے مجھے آنسو پونچھ لینے کی ترغیب دے رہی ہو پھر اس نے دونوں ہاتھوں کی مٹّھیاں بنا کر ہمت والوں کی سی شکل بنائی اور مسکرانے لگی۔ بالکل اسی طرح جیسے مہینوں پہلے میں اسے ہمت دلا کر مسکرایا تھا۔

میں نے دکھ بڑھانے والا وہ تار پھاڑ کر پھینک دیا اور نئے تار میں اپنے چھوٹوں کو لکھا کہ حوصلہ رکھو، میں آ رہا ہوں۔


بشکریہ ۔ روزنامہ اُمت



زبیر رضوی کی چار نظمیں

زبیر رضوی کی چار نظمیں

صفا اور صدق کے بیٹے

پرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
سوادِ شرق کا اک شہر
تاریکی میں ڈوبا تھا
اچانک شور سا اُٹھا
زمیں جیسے تڑخ جائے
ندی میں باڑھ آجائے
کوئی کوہِ گراں جیسے
جگہ سے اپنی ہٹ جائے
بڑا کہرام تھا
خلقت
متاع و مال سے محروم، ننگے سر
گھروں سے چیخ کر نکلی
مگر آلِ صفا و صدق کے خیمے نہیں اُکھڑے
وہ اپنی خواب گاہوں سے نہیں نکلے
روایت ہے
صفا و صدق کے بیٹے
ہمیشہ رات آتے ہی
حصارِ حمد
اپنے چار جانب کھینچ لیتے تھے
مقدس آیتوں کو اپنے پہ
دم کرکے سوتے تھے
روایت ہے
بلائیں اُن کے دروازوں سے
واپس لوٹ جاتی تھیں
سوادِ شرق کا وہ شہر
اُس شب ڈھیر تھا لیکن
صفا و صدق کی اولاد کے خیمے نہیں اُکھڑے!



بنی عمران کے بیٹے

پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
بنی عمران کے بیٹوں کی
شادابی کا عالم تھا
امارت اور ثروت
ان کو ورثے میں ملی تھی
اُن کے تہہ خانے جواہر سے بھرے ہوتے
کنیزیں، داشتائیں
جسم کی انمول سوغاتیں لئے
کھل کھیلتی رہتیں
مصاحب رات بھر دیوان خانوں میں
بنی عمران کی عیّاشیوں کی
داستاں کہتے
رو پہلی صحبتوں کا تذکرہ کرتے
اچانک مخملیں پردے سرکتے
اک پری چہرہ
الف لیلیٰ کے سب سے خوبصورت
جسم کی صورت
تھرکتی ، دف بجاتی
خواہشوں کو دعوتیں دیتی
بنی عمران کے بیٹے
اشارہ کرتے اور سارے مصاحب
سر جھکائے ، تخلیہ کرتے
بنی عمران کے بیٹے
نشے میں چُور
اپنی خواب گاہوں سے نکلتے
صبح سے پہلے
سپیروں کو بُلاتے
اور الف لیلیٰ کے
سب سے خوبصورت جسم کو
سانپوں سے ڈسواتے
مصاحب داخلہ پاتے
بنی عمران کی بدکاریوں کو
نیچے تہ خانے میں جاکر دفن کر آتے!




قصہ گورکنوں کا

پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سے لگتی ہے
وہ ایسے گورکن تھے
چار، چھ قبریں
ہمیشہ مرنے والوں کے لئیے تیار رکھتے تھے
کوئی مرتا
تو وہ روتے
سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کی
بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کرتے
اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے
جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے
اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے
وہ ایسے گورکن
چالیسویں دن تک
سبھی تازہ بنی قبروں پہ
ہر شب روشنی کرتے
جمعہ کے دن
سپارے پڑھ کے
مرحومین کے حق میں
دعائے مغفرت کرتے
مگر اک دن کہ جب
قبریں پُرانی اور خستہ ہو چکی تھیں
اُن کی اولادوں نے
قبروں پر لگی لوحیں اُکھاڑیں
تازہ قبروں کے لئے ہر سو
زمیں ہموار کی
وہ بھی
بزرگوں کی طرح روتے
سیہ چادر لپیٹے مرنے والے کے
اعزّا، اقربا سے تعزیت کرتے
جنازہ اپنے کاندھوں پر اُٹھاتے
اور دفناتے ہوئے ہر رسم کی تکمیل کرواتے
مگر جب رات آتی تو
وہ قبریں کھودتے
اور تازہ دفنائی ہوئی لاشوں کو
لاوارث بنا کر
شہر کے مردہ گھروں کو بیچ آتے تھے۔





انجام قصّہ گو کا

پُرانی بات ہے
لیکن یہ انہونی سی لگتی ہے
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال
پوری بھر چکی تھی
تازہ حقّے ہر طرف رکھے ہوئے تھے
قصّہ گو نے
ایک شب پہلے کہا تھا
صاحبو!
تم اپنی نیندیں بستروں پر چھوڑ کر آنا
میں کل کی شب تمھیں
اپنے سلف کا
آخری قصّہ سناؤں گا
جگر کو تھام کر کل رات تم چوپال میں آنا
وہ شب وعدے کی شب تھی
گاؤں کی چوپال پوری بھر چکی تھی
رات گہری ہو چلی تھی
حقّے ٹھنڈے ہوگئے تھے
لالٹینیں بجھ گئی تھیں
گاؤں کے سب مرد و زن
اُس قصّہ گو کی راہ تکتے تھک گئے تھے
دُور تاریکی میں گیدڑ اور کتے
مل کے نوحہ کر رہے تھے
دفعتاً بجلی سی کوندی
روشنی میں سب نے دیکھا
قصّہ گو برگد تلے
بے حس پڑا تھا
اُس کی آنکھیں
آخری قصّہ سنانے کی تڑپ میں جاگتی تھی
پر زباں اُس کی کٹی تھی
قصّہ گو کا، ان کہا
اپنے سلف کا
آخری قصّہ لبوں پر کانپتا تھا!








بشکریہ:

مکالمہ ۶۔ کراچی
جون ۔۔۔ ستمبر ۲۰۰۰