غزل : جا کے پچھتائیں گے، نہ جا کے بھی پچھتائیے گا

غزل

جا کے پچھتائیں گے، نہ جا کے بھی پچھتائیے گا
آپ جاتے ہیں وہاں، اچھا! چلے جائیے گا

میں کئی دن ہوئے خود سے ہی جھگڑ بیٹھا ہوں
آپ فرصت سے کسی دن مجھے سمجھائیے گا

میں خیالوں میں بھٹک جاتا ہوں بیٹھے بیٹھے
بھیج آہٹ کا سندیسہ مجھے بلوائیے گا

میں نے ظلمت میں گزارے ہیں کئی قرن سو آپ
روشنی سے جو میں ڈر جاؤں، نہ گھبرائیے گا

میں سمجھتا ہوں مجھے لوگ سمجھتے ہی نہیں
میں کسی روز نہ سمجھوں تو سمجھ جائیے گا

گاہ ہو جاتا ہوں میں اپنی انا کا قیدی
میں نہ آؤں تو پھر آ کر مجھے چُھڑوائیے گا

خیر مقدم کو ہے تیار جہاں، جائیے آپ
ہاں پلٹنا ہو تو پھر میرے ہی ہو جائیے گا

مجھ سے ضد ہے تو پھر اس ضد کو نبھانے کے لئے 
میں جو مر جاؤں تو پھر آپ بھی مر جائیے گا

جامِ جم فکر کا رکھتا ہے نرالے منظر
آپ جو دیکھتے ہیں دنیا کو دکھلائیے گا​

سوچ جب یکساں نہ ہو قافلہ کس کام کا ہے
آپ احمدؔ کہیں رستے میں ہی رہ جائیے گا

محمد احمدؔ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں