یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو ۔ اقبال عظیم

غزل

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آلگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو

میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو

جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
یہ تمھارے خط ہیں سنبھال لو، جو مرے خطوط ہوں پھاڑ دو

جو کوئی کسی کو ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اُصول کی بات ہے جو خفا ہو مجھ سے تو کوئی ہو

اقبال عظیم

6 تبصرے:

  1. یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
    کوئی تیر تم کو نہ آلگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو
    =================================
    اپنی کم علمی کے باعث اقبال عظیم سے ناواقف ہوں، اگر ان کا مختصر سا تعارف بھی شامل تحریر ہوتا تو ساڑھے چار چاند لگ جاتے...
    درج بالا شعر میری رائے میں حاصل غزل ہے..

    جواب دیںحذف کریں
  2. جعفر بھائی،

    آپ کی توجہ اور محبت کا بہت شکریہ!

    اقبال عظیم کے حوالے سے وکیپیڈیا پر درج ذیل معلومات موجود ہے:

    1931ء میں یہ شاعر اور ادیب میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ لکھنو یونیورسٹی سے بی اے اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ ہندی اور بنگلہ کے اعلیٰ امتحانات پاس کیے۔ ساڑھے گیارہ سال یوپی کے سرکاری مدارس میں معلمی کی۔ جولائی 1950ء میں مشرقی پاکستان آئے اور تقریباً بیس سال سرکاری ڈگری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کیا۔ اپریل 1970ء میں بینائی زائل ہونے کے سبب اپنے اعزہ کے پاس کراچی آگئے۔ مضراب اور لبَ کشا غزلوں کے مجموعے اور قاب قوسین نعتوں کا مجموعہ ہے۔ مشرقی بنگال میں اردو کی نثری تصنیف ہے۔ جس میں بنگال کی دو سو سالہ لسانی اور ادبی تاریخ کا جائزہ لیاگیا ہے۔مرتب کردہ دیوان حکیم ناطق بھی شائع ہو چکا ہے۔

    نمونۂ کلام

    روشنی مجھ سےگُریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
    میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
    پرسشِ حال کی فرصت تمہیں ممکن ہے نہ ہو
    پرسشِ حال طبیعت کو گوارا بھی نہیں

    جواب دیںحذف کریں
  3. واہ !

    بہت اچھی غزل ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. اقبال عظیم صاحب کی شاعری میں ایک کمال بے نیازی اور خودداری ہے۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں