تمھیں کیا؟
تمھیں کیا۔۔۔
زندگی جیسی بھی ہے
تم نے تو اِس کی ہر ادا سے رنگ کی موجیں نچوڑی ہیں
تمھیں تو ٹوٹ کر چاہا گیا۔۔۔ چہروں کے میلے میں
محبت کی شفق برسی تمھارے خال و خد پر
آئنے چمکے تمھاری دید سے
خوشبو تمھارے پیرہن کی ہر شکن سے
اِذن لے کر ہر طرف وحشت لُٹاتی تھی
تمھارے چاہنے والوں کے جھرمٹ میں۔۔۔
سبھی آنکھیں تمھارے عارض و لب کی کنیزیں تھیں!
تمھیں کیا۔۔۔
تم نے ہر موسم کی شہ رگ میں اُنڈیلے ذائقے اپنے
تمھیں کیا۔۔۔
تم نے کب سوچا؟
کہ چیزوں سے اٹی دنیا میں، تنہا سانس لیتی
ہانپتی راتوں کے بے گھر ہم سفر
کتنی مشقت سےگریبانِ سحر کے چاک سیتے ہیں؟
تمھیں کیا۔۔۔!
تم نے کب سوچا؟
کہ تنہائی کے جنگل میں۔۔۔
سیہ لمحوں کی چبھتی کرچیوں سے کون کھیلا ہے؟
تمھیں کیا؟
تم نے کب سوچا۔۔۔۔
کہ چیزوں سے اٹی دُنیا میں
کس کا دل اکیلا ہے؟
محسن نقوی
خوبصورت نظم ہے جناب۔ شیئر کرنے کیلے شکریہ
جواب دیںحذف کریںسعد صاحب "رعنائیِ خیال" پر خوش آمدید!
جواب دیںحذف کریںانتخاب آپ کو پسند آیا میری محنت وصول ہوگئی۔