مختصر افسانہ:اتفاق

اتفاق

مختصر افسانہ از محمد احمد

وُہ مسکرا رہی تھی اور میں بھی مسکرا رہا تھا۔ وہ اپنے کسی خیال میں اور میں اپنے کسی خیال میں۔ دونوں ایک دوسرے سے بے خبر۔

اچانک دونوں کی نظریں ملیں۔ دونوں کی مسکراہٹیں فزوں تر ہو گئیں۔

"کیا ہوا؟" دونوں نے ایک ساتھ کہا۔

"کچھ نہیں!" ایک سے سوال کا ایک سا جواب تھا۔


یہ محض اتفاق تھا لیکن حسنِ اتفاق کی مکمل تعریف لیے ہوئے تھا۔

*****


 

دنیا کو ریشہ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں - راجیش ریڈی

راجیش ریڈی صاحب پڑوسی ملک ہندوستان کے معروف شاعر ہیں۔ اُن کی زیرِ نظر غزل اچھی لگی، سو خیال آیا کہ بلاگ کے قارئین کے ساتھ شریک کی جائے۔ اس غزل کا مطلع مجھے خاص طور پر پسند آیا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

غزل

دنیا کو ریشہ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں
آ بیٹھ تھوڑی دیر ذرا گفتگو کریں

جس کا وجود ہی نہ ہو دونوں جہان میں
اُس شے کی آرزو ہی نہیں جستجو کریں

دنیا میں اِک زمانے سے ہوتا رہا ہے جو
دنیا یہ چاہتی ہے وہی ہُو بہ ہُو کریں

ان کی یہ ضد کہ ایک تکلف بنا رہے
اپنی تڑپ کہ آپ کو تم، تم کو تو کریں

ان کی نظر میں آئے گا کس دن ہمارا غم
آخر ہم اپنے اشکوں کو کب تک لہو کریں

دل تھا کسی نے توڑ دیا کھیل کھیل میں
اتنی ذرا سی بات پہ کیا ہاؤ ہُو کریں

دل پھر بضد ہے پھر اسی کوچے میں جائیں ہم
پھر ایک بار وہ ہمیں بے آبرو کریں

راجیش ریڈی


راجیش ریڈی
راجیش ریڈی ۔ دنیا کو ریشہ۔ ریشہ اُدھیڑیں ، رفو کریں

افسانہ : روپ بہروپ

روپ بہروپ

از محمد احمد


"یہ عامر وسیم پاگل واگل تو نہیں ہے؟ "صدیقی صاحب کافی غصے میں نظر آ رہے تھے
لیکن میں اس لڑکے کی بات سن کر ایک خوشگوار حیرت میں مبتلا تھا۔ میرا ذاتی خیال یہی تھا کہ کرکٹر وغیرہ کافی لا ابالی ہوتے ہیں۔ پھر یہ تو ابھی بالکل نوجوان ہی تھا۔ اکیس بائیس سال کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ ایسے میں اُس کی طرف سے اِس قسم کی بات کافی حیران کن تھی۔

"مجھے ایڈورٹزمنٹ کے شعبے میں 30 سال ہو گئے ہیں۔ لیکن آج تک ایسی بات کسی نے نہیں کی۔"
"اتنے بڑے بڑے ماڈلز، ایکٹرز، ایکٹریسز، حتیٰ کہ بڑے سے بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ میں نے اشتہار کیے ہیں۔ لیکن آج تک کسی نے ایسی بات نہیں کی۔" صدیقی صاحب اپنی دراز میں کچھ تلاش کر رہے تھے۔

"اس کا دماغ کچھ زیادہ ہی خراب ہو گیا ہے۔" انہوں نے دراز زور سے بند کرتے ہوئے کہا۔ شاید اُن کی مطلوبہ شے وہا ں نہیں تھی۔
"خیر ! میں کلائنٹ سے بات کرتا ہوں اور اُن سے کہتا ہوں کہ وہ اس کے بجائے شاہد کمال کو لے لیں۔ شاہد کمال کی ریٹنگ بہت اچھی ہے اوراس کے مقابلے میں یہ تو بالکل ہی نیا ہے۔ چار چھ میچز کی پرفارمنس کوئی پرفارمنس ہوتی ہے۔" صدیقی صاحب اپنی رو میں کہے جا رہے تھے۔

*****

میں اور صدیقی صاحب ایک ایڈورٹِزمنٹ ایجنسی میں ساتھ کام کرتے ہیں۔ ہماری فرم ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے لئے اشتہارات بناتی ہے۔ ہم دونوں کا کام ایک طرح سے مارکیٹنگ اور کلائینٹ ہینڈلنگ ہے۔

ہمارے ایک کلائینٹ کی فرمائش ہے کہ وہ اپنے فوڈ سپلیمنٹ کے اشتہار میں نئے ابھرتے ہوئے کرکٹر عامر وسیم کو لیں ۔ عامر وسیم نے کچھ ہی ماہ قبل ایک مقامی لیگ میں ڈیبیو کیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کی آنکھ کا تارا بن گیا۔ اُس کے فوراً بعد ہی اُسے قومی ٹیم میں شامل کر لیا گیا اور اپنی پہلی ہی سیریز میں اس نے کئی نئے ریکارڈ بنا دیے۔

جب میں اور صدیقی صاحب اشتہار کے سلسلے میں عامر وسیم سے ملے تو وہ کافی خندہ پیشانی سے ملا لیکن اُس نے ایک عجیب بات کی۔

اُس کا کہنا ہے کہ وہ اشتہار میں کام کرنے سے پہلے اُن کی یہ پروڈکٹ استعمال کرکے دیکھنا چاہتا ہے۔ اگر اسے سمجھ آئی تو اشتہار میں کام کرے گا، ورنہ معذرت کر لے گا۔ اُس نے فوڈ سپلیمنٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ اُس نے کہا کہ میں کسی غلط پروڈکٹ کا اشتہار نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے اللہ کو جواب دینا ہے۔

یہ بات واقعی عجیب ہے۔ آج تک کسی ماڈل نے ایسا نہیں کہا کہ وہ پروڈکٹ کو استعمال کیے بغیر اشتہار میں کام نہیں کرے گا۔ بلکہ ماڈلز کو تو اس بات سے غرض ہی نہیں ہوتی کہ وہ پروڈکٹ کیسی ہے، اچھی ہے یا بری ہے۔ اُن کو اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے اور بس!

دیکھا جائے تو یہ لڑکا اشتہاروں سے اچھا خاصا کما سکتا ہے لیکن اس قسم کا رویّہ تو اپنے پیروں پر کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے۔ یقیناً وہ کسی اچھی تربیت کے زیرِ اثر پلا بڑھا ہے ورنہ آج کل تو لوگ مالی منفعت کے آگے کچھ بھی نہیں دیکھتے۔

*****

 
صدیقی صاحب جب کلائینٹ سے ملے تو خلافِ توقع کلائینٹ نے اُنہیں کہا کہ وہ ہر حال میں اپنا اشتہار عامر وسیم سے ہی کروانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پرانے چاولوں کے مقابلے میں نئے ٹیلینٹ اور نئے چہرے کے ساتھ اپنا اشتہار کروائیں۔ کلائینٹ نے کہا کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے کچھ فریش سیمپل بھیج دے گا تاکہ وہ عامر وسیم کو بھیج دیے جائیں ۔ کلائینٹ نے صدیقی صاحب کی ذمہ داری لگائی کہ وہ کسی طرح عامر وسیم کو اس اشتہار کے لئے راضی کریں۔

صدیقی صاحب جتنا عامر وسیم سے چِڑ رہے تھے اُتنا ہی اُنہیں اُس سے واسطہ پڑ رہا تھا۔

*****

عامر وسیم سے ہماری اگلی ملاقات کم و بیش دو ہفتے بعد ہوئی۔

صدیقی صاحب نے کافی کوشش کے بعد اپنے موڈ کو خوشگوار بنایا اور عامر وسیم کو فوڈ سپلیمنٹ کے تازہ سیمپل دئیے جو کلائینٹ نے خاص طور پر عامر وسیم کے لئے بھیجے تھے۔

عامر وسیم حسبِ سابق بہت اچھی طرح ملا ۔ بظاہر یہ ایک کھلندڑا اور ہنس مکھ نوجوان تھا۔ عامر وسیم نے بتایا کہ ان سیمپلز کی اب ضرورت نہیں ہے۔ وہ مارکیٹ سے لے کر اس پروڈکٹ کو استعمال کرتا رہا ہے اور اس دوران اُس نے پروڈکٹ کا لیبارٹری ٹیسٹ بھی کرو ا لیا ہے۔ اب وہ پروڈکٹ سے مطمئن تھا ۔

یوں صدیقی صاحب کی مشکل توقع سے کہیں پہلے آسان ہو گئی اور پھر وہ بھی خوش دلی سے باقی کے مراحل میں جُت گئے۔ 

*****


عامر وسیم ایک اچھا کرکٹر تو تھا ہی ساتھ ساتھ خوش شکل اور جاذبِ ِ نظر بھی تھا۔ پھر ہماری فرم کا برسوں کا تجربہ بھی اشتہار سازی میں شامل رہا ۔ یوں یہ اشتہار کافی اچھا بنا ۔ اور لوگوں میں مقبول بھی بہت ہوا۔

کمپنی کے مالک نے ایک کام اوربھی کیا۔ اُس نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک کمپین چلائی ، جس میں ایمانداری اور سچی گواہی کے ہیش ٹیگز شامل کیے گئے اور اس میں بتایا گیا کہ کرکٹر نے اشتہار میں کام کرنے کی کیا شرط رکھی۔ یہ کمپین بظاہر کرکٹر کو سراہنے کے لئے تھی ۔ لیکن ضمنی طور پر یہ اس پروڈکٹ کی شہرت کا سبب بنی کہ ہر پوسٹ ہر ٹوٹئٹ میں اشتہار کی ویڈیو بھی شامل کی گئی۔

یوں عامر وسیم کی شہرت اور نیک نامی کو بھی چار چاند لگے ،لیکن اصل فائدہ کلائینٹ کو ہی ہوا۔

*****

آج اتوار کا دن تھا ۔ سہ پہر کے وقت میں اپنے بچوں کے ساتھ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ ٹی وی پر حالات حاضرہ کا کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ ہم ادھر اُدھر کی باتیں بھی کر رہے تھے۔

اچانک ٹی وی اسکرین پر ایک اشتہار میں شاہد کمال نظر آیا۔
"میں کبھی کسی ایسے پروڈکٹ کے لئے کام نہیں کرتا جس کو میں نے خود نہ آزمایا ہو۔اور جب تک میں خود اس پروڈکٹ کی تحقیق نہ کر لوں۔ " شاہد کمال بڑے پر یقین لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
اُس کے ہاتھ میں ایک انرجی ڈرنک تھا اور وہ اُس کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہا تھا۔

میں اس پروڈکٹ کو دیکھ کر چونکا۔ میں نے فوراً اس کا نام سرچ انجن پر ڈالا۔
میرا خدشہ بالکل درست نکلا۔ یہ تو اُن پروڈکٹس میں سے تھی جن کے استعمال پر وزارتِ صحت نے تنبیہ کی تھی اور مضرِ صحت مصنوعات کی فہرست میں اس کا نام شامل کیا تھا۔

غالب کا ایک شعر نہ جانے کہاں سے میرے حافظے میں نمودار ہوا۔

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی

اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔

***-***-***

افسانہ - روپ بہروپ

غزل: اول اول کی دوستی ہے ابھی - احمد فراز


اول اول کی دوستی ہے ابھی
اک غزل ہے کہ ہو رہی ہے ابھی

میں بھی شہر وفا میں نو وارد
وہ بھی رک رک کے چل رہی ہے ابھی

میں بھی ایسا کہاں کا زود شناس
وہ بھی لگتا ہے سوچتی ہے ابھی

دل کی وارفتگی ہے اپنی جگہ
پھر بھی کچھ احتیاط سی ہے ابھی

گرچہ پہلا سا اجتناب نہیں
پھر بھی کم کم سپردگی ہے ابھی

کیسا موسم ہے کچھ نہیں کھلتا
بوندا باندی بھی دھوپ بھی ہے ابھی

خود کلامی میں کب یہ نشہ تھا
جس طرح روبرو کوئی ہے ابھی

قربتیں لاکھ خوبصورت ہوں
دوریوں میں بھی دل کشی ہے ابھی

فصل گل میں بہار پہلا گلاب
کس کی زلفوں میں ٹانکتی ہے ابھی

مدتیں ہو گئیں فرازؔ مگر
وہ جو دیوانگی کہ تھی ہے ابھی


فراز

تبصرہ ٴکُتب | عکسِ فریادی - نصیر ترابی

نصیر ترابی شہرِ کراچی کے منفرد، طرح دار اور قادر الکلام شاعر ہیں۔ محبت، تعلق، سماجی مسائل اور انسانی روئیے آپ کی شاعری کے بنیادی موضوعات ہیں۔

عکس فریادی نصیر ترابی کی غزلیات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی غزلیات شعری روایات کی علمبردار ہیں تاہم آپ کے موضوعات بہ یک وقت جدید بھی ہیں اور دورِ حاضر سے علاقہ رکھتے ہیں۔

نصیر ترابی کی معروف غزل "وہ ہمسفر تھا مگر اُس سے ہمنوائی نہ تھی" بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب کے آخر میں شاعر کے فارسی اشعار بھی موجود ہیں تاہم راقم الحروف اپنی علمی بے بضاعتی کے باعث ان پر رائے دینے سے قاصر ہے۔

بحیثیتِ مجموعی یہ ایک اچھی کتاب ہے اور شعر و ادب کے قارئین کا اسے پڑھنا باعثِ زحمت نہیں ہوگا۔

نصیر ترابی کے کچھ اشعار آپ کے ذوق کی نذر

 

ملنے کی طرح مجھ سے وہ پل بھر نہیں ملتا
دل اس سے ملا جس سے مقدر نہیں ملتا
یہ راہ تمنا ہے یہاں دیکھ کے چلنا
اس راہ میں سر ملتے ہیں پتھر نہیں ملتا
ہم رنگیٔ موسم کے طلب گار نہ ہوتے
سایہ بھی تو قامت کے برابر نہیں ملتا
کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے
پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا
کچھ روز نصیرؔ آؤ چلو گھر میں رہا جائے
لوگوں کو یہ شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا

*****

دیکھ لیتے ہیں اب اس بام کو آتے جاتے
یہ بھی آزار چلا جائے گا جاتے جاتے
دل کے سب نقش تھے ہاتھوں کی لکیروں جیسے
نقش پا ہوتے تو ممکن تھا مٹاتے جاتے
شہر بے مہر! کبھی ہم کو بھی مہلت دیتا
اک دیا ہم بھی کسی رخ سے جلاتے جاتے
ہر گھڑی ایک جدا غم ہے جدائی اس کی
غم کی میعاد بھی وہ لے گیا جاتے جاتے
اس کے کوچے میں بھی ہو، راہ سے بے راہ نصیرؔ
اتنے آئے تھے تو آواز لگاتے جاتے

*****

مثل صحرا ہے رفاقت کا چمن بھی اب کے
جل بجھا اپنے ہی شعلوں میں بدن بھی اب کے
ہم تو وہ پھول جو شاخوں پہ یہ سوچیں پہروں
کیوں صبا بھول گئی اپنا چلن بھی اب کے
منزلوں تک نظر آتا ہے شکستوں کا غبار
ساتھ دیتی نہیں ایسے میں تھکن بھی اب کے

*****




تبصرہ ٴکُتب | روشن دان - جاوید صدیقی

روشن دان جاوید صدیقی کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ہے۔ جاوید صدیقی ہندوستان کے ادیب ہیں اور اُن کا سابقہ بہ یک وقت صحافت اور فلمی دنیا سے رہا ہے۔ یہ خاکے زیادہ تر اُن لوگوں کے ہیں جن سے کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی صورت میں جاوید صدیقی صاحب کا واسطہ رہا۔ ان میں کچھ معروف لوگوں کے خاکے بھی ہیں اور کچھ مصنف کے قریبی لوگوں کے بھی ۔

جاوید صدیقی زبان و بیان پر گرفت رکھتے ہیں۔ اچھا لکھتے ہیں بلکہ یوں کہیے کہ لکھنے کا ہنر جانتے ہیں۔ قاری کو اپنے جذبات میں شریک کر لینا جاوید صدیقی کے لئے مشکل نہیں ہے۔ ان کے بعض خاکوں میں تو افسانوں کا سا رنگ ہے کہ پڑھنے والا اُس کے سحر میں کھو جاتا ہے آخر تک مصنف کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔

کہیں کہیں البتہ منظر نگاری کو کچھ ضرورت سے زیادہ طول دے دیتے ہیں۔ یا اپنے ممدوح (یا شاذ معاملات میں مذموم) کے بارے میں غیر دلچسپ تفصیلات بھی شامل کر دیتے ہیں۔

بہرکیف، یہ ایک اچھی کتاب ہے اور اسے وقت گزاری کے لئے پڑھا جا سکتا ہے۔ 

 


 

غزل : وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا - حنیف اسعدی

آج بہت دنوں بعد کوئی غزل ایسی سنی کے طبیعت باغ باغ ہو گئی۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ساتھ ساتھ کلامِ شاعر بزبانِ شاعر سے بھی حظ اُٹھائیے۔

غزل

وفا کے خوگر وفا کریں گے یہ طے ہو ا تھا
وطن کی خاطر جیے مریں گے یہ طے ہو ا تھا

بوقتِ ہجرت قدم اُٹھیں گے جو سوئے منزل
تو بیچ رستے میں دَم نہ لیں گے یہ طے ہوا تھا

چہار جانب بہار آئی ہوئی تھی لیکن
بہار کو اعتبار دیں گے یہ طے ہوا تھا

تمام دیرینہ نسبتوں سے گریز کرکے
نئے وطن کو وطن کہیں گے ، یہ طے ہوا تھا

خدا کے بندے خدا کی بستی بسانے والے
خدا کے احکام پر چلیں گے یہ طے ہوا تھا

بغیرِ تخصیص پست و بالا ہر اک مکاں میں
دیئے مساوات کے جلیں گے، یہ طے ہوا تھا

کسی بھی اُلجھن میں رہبروں کی رضا سے پہلے
عوام سے اذنِ عام لیں گے، یہ طے ہوا تھا

تمام تر حل طلب مسائل کو حل کریں گے
جو طے نہیں ہے، وہ طے کریں گے، یہ طے ہوا تھا

حنیف اسعدی

ویڈیو بشکریہ خورشید عبداللہ

غزل: اِس قدر اضطراب دیوانے؟

غزل

اِس قدر اضطراب دیوانے؟
تھا جُنوں ایک خواب دیوانے!

ہم ہیں آشفتہ سر ہمیشہ سے
ہم تو ہیں بے حساب دیوانے

فاتر العقل ہیں نہ مجنوں ہیں
ہم ہیں عزت مآب دیوانے

آئے نکہت فشاں چمن میں وہ
ہو رہے ہیں گلاب دیوانے

ہیں خرد مند فیس بک پر خوش
پڑھ رہے ہیں کتاب دیوانے

سب ہیں ہشیار اگر بکار خویش
نام کے ہیں جناب دیوانے

نام اللہ کا لے، بھٹکنا چھوڑ
تھام لے اِک طناب دیوانے

خاک مسجد بنے گی شب بھر میں
اب نہیں دستیاب دیوانے

روز مڈ بھیڑ اہلِ دانش سے
روز زیرِ عتاب دیوانے

سر کھپاتے ہو فکرِ دنیا میں
تم ہو احمدؔ خراب دیوانے

محمد احمدؔ

مختصر افسانہ: اردو ہے کس کا نام؟

اردو ہے کس کا نام؟
مختصر افسانہ از محمد احمدؔ

"بس! یہاں سائڈ پر گاڑی روک دیجے۔"۔۔۔ایک نشست سے نسوانی آواز بلند ہوئی۔
"کیا نمبر ہے آپ کا؟"۔۔۔ ڈرائیور نے گاڑی ایک طرف روکتے ہوئے بورڈنگ پاس نمبر پوچھا۔
"تھرٹی تھری"۔۔۔ دوشیزہ نے موبائل ایپ پر دیکھتے ہوئے بتایا۔
"اردو میں بتاؤ۔ "۔۔۔سرحدی علاقے کا ڈرائیور انگریزی گنتی سے نابلد تھا۔
"تین تین "۔۔۔ لڑکی نے مسئلے کا حل نکالتے ہوئے کہا۔ وہ لفظ تینتیس سے واقف نہیں تھی۔
ڈبل تین؟ ڈرائیور نے اپنے انداز میں تصدیق چاہی۔
جی۔
اور اس طرح دو پاکستانی شہری ایک دوسرے کی بات سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔
نئی نسل کی اردو سے بے رغبتی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ بلاوجہ "اِشو" بناتے ہیں۔ 

*****





ذہانت یا خیانت

ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں جگہ جگہ پر بھانت بھانت کی چورنگیاں ہوا کرتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ سڑکیں تنگ ہوتی گئیں اور چورنگیاں سُکڑتی گئیں۔ اب حال یہ ہے کہ کراچی میں بڑی بڑی چورنگیاں دو ایک ہی رہ گئی ہیں۔

مشہورِ زمانہ فور کے چورنگی کے چرچے تو آپ نے سنے ہی ہوں گے لیکن آج کا قصہ پاور ہاؤس چورنگی سے متعلق ہے۔ پاور ہاؤس چورنگی فور کے چورنگی سے کچھ فاصلے پر ہے اس کے قریب بجلی بنانے والی کمپنی کا پاور ہاؤس ہے اور اسی نسبت سے یہ پاور ہاوس چورنگی کہلاتی ہے۔ اس پر ایک سفید رنگ کا ماڈل جہاز لگا ہوا ہے اور اس کی دیواریں سُرخ رنگ کی جالی دار اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ چورنگی کی دیوار کا ایک بڑا حصہ کچھ عرصہ قبل ٹوٹ گیا تھا اور یہ کافی بدنما معلوم ہوتا تھا۔ کل پرسوں میں نے دیکھا کہ کسی نے اس دیوار کے ٹوٹے ہوئے حصے کو پینا فلیکس شیٹ سے بند کر دیا تھا۔ اور پینا فلیکس پر بعینہ چورنگی کی اینٹوں کی سی دیوار کا ڈیزائن پرنٹ کیا گیا تھا۔ پہلی نظر میں پتہ نہیں چلتا تھا کہ دیوار کا یہ حصہ اصلی نہیں بلکہ دیوار کی پینافلیکس نقل ہے۔ مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا کہ چورنگی کی بدنمائی اس سے چھپ گئی اور خرچہ بھی اس میں کم آیا ہوگا۔

تاہم اگلے دن جب میں نے اس کا تفصیلی جائزہ لیا تو دیکھا کہ ماڈل جہاز کے عین سامنے ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا تھا کہ جس میں ایک تعمیراتی ادارے جی ایف ایس بلڈر زکی طرف سے ضلع کی تزین و آرائش کا بلند و بانگ دعویٰ کیا گیا تھا۔

مجھے اس بات پر اچھی خاصی حیرت ہوئی، اور حیرت بھی اشتعال آمیز ۔ اگر پینافلیکس لگانے کا کام کسی چھوٹی موٹی این جی او نے کیا ہوتا تو یقیناً لائقِ ستائش ہوتا۔ لیکن ایک تعمیراتی ادارہ جو کہ اس مشہورِ زمانہ چورنگی کو اپنی تشہیر کے لئے بھی استعمال کر رہا ہے ، اس سے یہ اُمید نہیں کی جا سکتی کہ وہ چند سو اینٹیں لگانے کے بجائے پینافلیکس کی دیوار بنا کر اپنے تئیں ضلع مکینوں پر احسان جتائے۔

یقیناً اس مہم کو اُنہوں نے سرکاری محکمہ کی باقاعدہ اجازت کے بعد ہی شروع کیا ہوگا تو ایسے میں سرکاری عہدے دار بھی اس بات کے قصور وار ہیں کہ اُنہوں نے اتنی ارزاں قیمت پر اتنی بڑی چورنگی کو اشتہار ی مہم کے استعمال کے لئے دے دیا۔

چورنگی کی کنکریٹ کی دیوار میں پینا فلیکس کا پیوند لگانے کا خیال یقیناً تعمیراتی ادارے کے پیچھے کارفرما افراد کی ذہانت کا کمال ہے تاہم ایک تعمیراتی ادارے کو اس قسم کی حرکت ہرگز زیب نہیں دیتی۔ وہ بھی تب کہ جب وہ اس چورنگی کو اپنے کاروباری مقاصد کے لئے بھی استعمال کر رہے ہوں۔
پاور ہاؤس چورنگی

تصویر بغیر رُکے لی گئی ہے معیار کے لئے معذرت

تبصرہ ٴکُتب | جپسی - مستنصر حسین تارڑ

 

تارڑ صاحب کا ناول جپسی مجھے اچھا لگا، شاید اس لئے کہ مجھے کافی دن بعد فکشن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

ناول کا شروع کا حصہ پڑھ کر مجھ جیسے کولہو کے بیل کو اپنے شب و روز میں مقید ہونے کا کافی قلق ہوا۔ اور یہ خیال جاگا کہ کچھ نہ کچھ سیاحتی سرگرمیاں زندگی میں ہونی چاہیے۔ تاہم بہت جلد ہی ہم سنبھل گئے اور قفس کو پھر سے آشیاں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

اصلی ناول کافی دیر بعد شروع ہوا۔ یعنی ناول بھی اپنے مرکزی کردار کی طرح کچھ آوارہ گرد ثابت ہوا۔ جپسی کی محبت خانہ بدوشوں کی سی تھی۔ سادہ اور الہڑ ۔ اور کچھ اکھڑ بھی۔ جیسے خانہ بدوشوں کے ہاں سفر اور قیام کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ بعینہ و ہی حال یہاں بھی تھا۔

یوں تو ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھے لیکن وقت گزاری کے لئے اور اپنے شب و روز سے کٹنے کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔

پسِ نوشت: ویسے جپسی سے مجھے طارق عزیز یاد آتے ہیں جو اپنے مشہورِ زمانہ پروگرام میں جپسی امیزنگ کریم کی تشہیر اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے۔



میر کی غزل کہوں تجھے میں؟

شعر اور رومان کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ انسان کو جب کسی شے کی تعریف کے لئے لفظ ناکافی معلوم ہوتے ہیں تو وہ اپنے لفظوں میں، لگاوٹ اور محبت کے ساتھ ساتھ نغمگی بھی شامل کر دیتا ہے۔ نغمگی اور آہنگ بھاری بھرکم تعریفی کلمات کو بھی ایسا ہلکا پھلکا کر دیتے ہیں کہ پڑھنے سننے والا مخمور سا ہو جاتا ہے۔ گو کہ فی نفسہ مجھے رومانوی شاعری سے کچھ خاص اُنسیت نہیں ہے لیکن کچھ گیت البتہ ایسے ہوتے ہیں کہ کوئی باذوق شخص، اگر انہیں سُنے تو داد دیے بغیر نہ رہے۔ ایسا ہی ایک گیت آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اسے مشہور نغمہ نگار آنند بخشی نے لکھا ہے اور معروف گلوکار محمد رفیع نے گایا ہے۔ اس سے آپ کو انداز ہو گیا ہوگا کہ یہ کوئی آج کے زمانے کا گیت نہیں ہے۔ سو آپ یہ سمجھ لیجے کہ یہ قدیم دوستوں کے لئے شرابِ کہنہ ہے! گیت ملاحظہ فرمائیے۔


میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے یہ حجاب تیرا ڈھونڈا
ہر جگہ شباب تیرا ڈھونڈا
کلیوں سے مثال تیری پوچھی
پھولوں میں جواب تیرا ڈھونڈا
میں نے پوچھا باغ سے ، فلک ہو یا زمیں
ایسا پھول ہے کہیں؟
باغ نے کہا، ہر کلی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

چال ہے کہ موج کی روانی
زُلف ہے کہ رات کی کہانی
ہونٹ ہیں کہ آئینے کنول کے
آنکھ ہے کہ مے کدوں کی رانی
میں نے پوچھا جام سے فلک ہو یازمیں
ایسی مے بھی ہے کہیں؟
جام نے کہا، مے کشی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

خوبصورتی جو تونے پائی
لُٹ گئی خدا کی بس خدائی
میر کی غزل کہوں تجھے میں
یا کہوں خیام کی رباعی
میں نے پوچھا شاعروں سے
ایسا دل نشیں
کوئی شعر ہے کہیں؟
شاعر کہیں، شاعری کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

میں نے پوچھا چاند سے
کہ دیکھا ہے کہیں، میرے یار سا حسیں
چاند نے کہا، چاندنی کی قسم
نہیں، نہیں، نہیں!
میں نے پوچھا چاند سے۔۔۔

 

نغمہ نگار: آنند بخشی