تارڑ صاحب کا ناول جپسی مجھے اچھا لگا، شاید اس لئے کہ مجھے کافی دن بعد فکشن پڑھنے کا اتفاق ہوا۔
ناول کا شروع کا حصہ پڑھ کر مجھ جیسے کولہو کے بیل کو اپنے شب و روز میں مقید ہونے کا کافی قلق ہوا۔ اور یہ خیال جاگا کہ کچھ نہ کچھ سیاحتی سرگرمیاں زندگی میں ہونی چاہیے۔ تاہم بہت جلد ہی ہم سنبھل گئے اور قفس کو پھر سے آشیاں سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔
اصلی ناول کافی دیر بعد شروع ہوا۔ یعنی ناول بھی اپنے مرکزی کردار کی طرح کچھ آوارہ گرد ثابت ہوا۔ جپسی کی محبت خانہ بدوشوں کی سی تھی۔ سادہ اور الہڑ ۔ اور کچھ اکھڑ بھی۔ جیسے خانہ بدوشوں کے ہاں سفر اور قیام کچھ بھی مستقل نہیں ہوتا۔ بعینہ و ہی حال یہاں بھی تھا۔
یوں تو ناول میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ انسان عش عش کر اُٹھے لیکن وقت گزاری کے لئے اور اپنے شب و روز سے کٹنے کے لئے یہ ایک اچھا ناول ہے۔
پسِ نوشت: ویسے جپسی سے مجھے طارق عزیز یاد آتے ہیں جو اپنے مشہورِ زمانہ پروگرام میں جپسی امیزنگ کریم کی تشہیر اپنے مخصوص انداز میں کیا کرتے تھے۔
آپ نے تو کوزے میں دریا بند کر دیا ہے۔اتنا بھرپور اور مکمل تبصرہ بہت دنوں بعد نظر سے گزرا ہے۔ واہ!
جواب دیںحذف کریںبرسبیلِ تذکرہ: مجھے ابھی ابھی علم ہوا کہ میں روبوٹ نہیں ہوں۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ فرحت کہ آپ بلاگ پر آئیں اور اپنے تبصرے سے بھی نوازا۔ :)
جواب دیںحذف کریںہاہاہاہا! اتنی تیزی سے تبصرہ کرتے دیکھ کر شاید کسی کو شک ہو گیا ہو۔ :) :)
جواب دیںحذف کریں