غزل ۔ اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں ۔ ندا فاضلی

غزل

اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رُخ ہواؤں کا جِدھر کا ہے اُدھر کے ہم ہیں

پہلے ہر چیز تھی اَپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کِسی دُوسرے گھر کے ہم ہیں

وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے
کِس کو معلوم کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں

چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مُسافر کا نصیب
سوچتے رہتے ہیں کِس راہ گزر کے ہم ہیں

ہم وہاں ہیں جہاں کچھ بھی نہیں رستہ نہ دیار
اپنے ہی کھوئے ہوئے شام و سحر کے ہم ہیں

گنتیوں میں ہی گنے جاتے ہیں ہر دور میں ہم
ہر قلم کار کی بے نام خبر کے ہم ہیں

ندا فاضلی


تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے۔ ندا فاضلی

ندا فاضلی ہندوستان کے مشہور معروف شاعرگزرے ہیں۔ اُنہوں نے عمومی غزلیات کے علاوہ فلمی گیت بھی بہت خوب لکھے اور سننے والوں سے خوب خوب داد پائی۔ اُن کی تصنیفات میں "لفظوں کے پھول"، "مور ناچ"، "آنکھ اور خواب کے درمیان میں"، " سفر میں دھوپ تو ہوگی" اور "کھویا ہوا سا کچھ" شامل ہیں۔آج ندا فاضلی کا ایک انتہائی خوبصورت گیت بلاگ پر شامل کر رہا ہوں۔ یہ گیت اپنے بطورِ گیت تو ہر طرح سے لاجواب ہے ہی لیکن اس کی شاعری اس کا اصل گوہر ہے۔

گیت

تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے

یہ آسمان، یہ بادل، یہ راستے، یہ ہوا
ہر ایک چیز ہے اپنی جگہ ٹھکانے سے
کئی دنوں سے شکایت نہیں زمانے سے
یہ زندگی ہے سفر، تُو سفر کی منزل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

تیرے بغیر جہاں میں کوئی کمی سی تھی
بھٹک رہی تھی جوانی اندھیری راہوں میں
سکون دل کو ملا آ کے تیری بانہوں میں
میں ایک کھوئی ہوئی موج ہوں تُو ساحل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

تیرے جمال سے روشن ہے کائنات مِری
میری تلاش تیری دل کشی رہے باقی
خدا کرے کہ یہ دیوانگی رہے باقی
تیری وفا ہی میری ہر خوشی کا حاصل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تُو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہے

ہر ایک شے ہے محبت کے نور سے روشن
یہ روشنی جو نہ ہو زندگی ادھوری ہے
رہِ وفا میں کوئی ہمسفر ضروری ہے
یہ راستہ کہیں تنہا کٹے تو مشکل ہے
جہاں بھی جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے
تو اس طرح سے مِری زندگی میں شامل ہیں

ندا فاضلی

nida Fazli
Nida Fazli


پُرانی موٹر ۔۔۔ از ۔۔۔ سید ضمیر جعفری

سید ضمیر جعفری  ظریفانہ شاعری میں ایک ایسی تابندہ مثال ہیں کہ جس کی نظیر اردو شاعری میں نہیں ملتی۔ اُن کا بیشتر مزاحیہ کلام ایسا ہے کہ اسے جب بھی پڑھا جائے اپنا الگ ہی لطف دیتا ہے۔ اُن کی ایک مشہورِ زمانہ نظم پرانی موٹر قارئینِ بلاگ کی نذر!

پرانی موٹر

عجب اک بار سا مردار پہیوں نے اٹھایا ہے
اسے انساں کی بد بختی نے جانے کب بنایا ہے
نہ ماڈل ہے نہ باڈی ہے نہ پایہ ہے نہ سایہ ہے
پرندہ ہے جسے کوئی شکاری مار لایا ہے

کوئی شے ہے کہ بینِ جسم و جاں معلوم ہوتی ہے
کسی مرحوم موٹر کا دھواں معلوم ہوتی ہے

طبعیت مستقل رہتی ہے ناساز و علیل اس کی
اٹی رہتی ہے نہر اس کی ٬ پھٹی رہتی ہے جھیل اس کی
توانائی قلیل اس کی تو بینائی بخیل اس کی
کہ اس کو مدتوں سے کھا چکی عمر طویل اس کی

گریباں چاک انجن یوں پڑا ہے اپنے چھپر میں
کہ جیسے کوئی کالا مرغ ہو گھی کے کنستر میں

ولایت سے کسی سرجارج ایلن بی کے ساتھ آئی
جوانی لٹ گئی تو سندھ میں یہ خوش صفات آئی
وہاں جب عین اس کے سر پہ تاریخِ وفات آئی
نہ جانے کیسے ہاتھ آئی مگر پھر اپنے ہات آئی

ہمارے ملک میں انگریز کے اقبال کی موٹر
سن اڑتالیس میں پورے اٹھتر سال کی موٹر


یہ چلتی ہے تو دوطرفہ ندامت ساتھ چلتی ہے
بھرے بازار کی پوری ملامت ساتھ چلتی ہے
بہن کی التجا٬ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے
وفائے دوستاں بہرِ مشقت ساتھ چلتی ہے

بہت کم اس خرابے کو خراب انجن چلاتا ہے
عموما زورِ دستِ دوستاں ہی کام آتا ہے

کبھی بیلوں کے پیچھے جوت کر چلوائی جاتی ہے
کبھی خالی خدا کے نام پر کھچوائی جاتی ہے
پکڑ کر بھیجی جاتی ہے٬ جکڑ کر لائی جاتی ہے
وہ کہتے ہیں کہ اس میں پھر بھی موٹر پائی جاتی ہے

اذیت کو بھی اک نعمت سمجھ کر شادماں ہونا
تعالی ﷲ یوں انساں کا مغلوبِ گماں ہونا
بہ طرزِ عاشقانہ دوڑ کر٬ بے ہوش ہو جانا
بہ رنگِ دلبرانہ جھانک کر٬ روپوش ہوجانا

بزرگوں کی طرح کچھ کھانس کر خاموش ہوجانا
مسلمانوں کی صورت دفعتا پر جوش ہوجانا

قدم رکھنے سے پہلے لغزشِ مستانہ رکھتی ہے
کہ ہر فرلانگ پر اپنا مسافر خانہ رکھتی ہے
دمِ رفتار دنیا کا عجب نقشا دکھائی دے
سڑک بیٹھی ہوئی اور آدمی اڑتا دکھائی دے

نظام زندگی یکسر تہہ و بالا دکھائی دے
یہ عالم ہو تو اس عالم میں آخر کیا دکھائی دے

روانی اس کی اک طوفانِ وجد و حال ہے گویا
کہ جو پرزہ ہے اک بپھرا ہوا قوّال ہے گویا

شکستہ ساز میں بھی ٬ محشر نغمات رکھتی ہے
توانائی نہیں رکھتی مگر جذبات رکھتی ہے
پرانے ماڈلوں میں کوئی اونچی ذات رکھتی ہے
ابھی پچھلی صدی کے بعض پرزہ جات رکھتی ہے

غمِ دوراں سے اب تو یہ بھی نوبت آگئی٬ اکثر
کسی مرغی سے ٹکرائی تو خود چکرا گئی، اکثر

ہزاروں حادثے دیکھے٬ زمانی بھی مکانی بھی
بہت سے روگ پالے ہیں زراہِ قدر دانی بھی
خجل اس سخت جانی پر ہے مرگِ ناگہانی بھی
خداوندا نہ کوئی چیز ہو٬ اتنی پرانی بھی

کبھی وقتِ خرام آیا تو ٹائر کا سلام آیا
تھم اے رہرو کہ شاید پھر کوئی مشکل مقام آیا

سید ضمیر جعفری

غزل ۔ تیرے جلوے اب مجھے ہر سو نظر آنے لگے ۔ صباؔ افغانی

غزل

تیرے جلوے اب مجھے ہر سو نظر آنے لگے
کاش یہ بھی ہو کہ مجھ میں تُو نظر آنے لگے

اِبتدا یہ تھی کہ دیکھی تھی خوشی کی اک جھلک
انتہا یہ ہے کہ غم ہر سُو نظر آنے لگے

بے قراری بڑھتے بڑھتے دل کی فطرت بن گئی
شاید اَب تَسٗکین کا پہلو نظر آنے لگے

ختم کردے اے صباؔ اب شامِ غم کی داستاں
دیکھ اُن آنکھوں میں بھی آنسو نظر آنے لگے

صباؔ افغانی

تصویر پر کلک کیجے۔

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

افتخار عارف کی دو خوبصورت غزلیں

قِصّہ ٴاہلِ جنُوں کوئی نہیں لِکّھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

وَحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سُوزِ دَرُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟؟
سَر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

کوئی لِکّھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

خلقتِ شہر سَر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں 
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لِکّھے گا

عرضیاں ساری نظر میں ہیں رَجَز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں، کیُوں کوئی نہیں لِکّھے گا

شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
مَیں ہی لِکُّھوں تو لکُھوں، کوئی نہیں لِکّھے گا! 

بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسِم میں 
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لِکّھے گا

✿✿✿✿✿✿✿

دل کو دِیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم
خاک ہو جائیں جو رُسوائی کو شُہرت کریں ہم

اِک قیامت کہ تُلی بیٹھی ہے پامالی پر
یہ گُزرلےتوبیانِ قد وقامت کریں ہم

حرف ِ تردید سے پڑ سکتے ہیں سَو طرح کے پیچ
ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عُمرکے دِن
شام آئی ہے تو کیا ترکِ محُبت کریں ہم

اک ہماری بھی امانت ہے تہ ِ خاک یہاں
کیسے ممکن ہے کہ اس شہر سے ہِجرت کریں ہم

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دُنیا
صُبح سے پہلے ہر اِک خواب کو رُخصت کریں

شوق ِآرائش ِ گل کایہ صلہ ہے کہ صبا
کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

عُمر بھر دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ
کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم


افتخار عارف

ٰImage Credit : Urdu Mehfil

منہ دھو رکھیے [فیس واش کی فسوں کاریاں]

منہ دھو رکھیے
فیس واش کی فسوں کاریاں​


از ۔۔۔ محمد احمدؔ​

منہ دھو رکھنے کا مشورہ زندگی میں کبھی نہ کبھی آپ کو بھی ضرور ملا ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ نے اسے مشورہ سمجھا ہی نہ ہو۔ اگر سمجھا ہوتا تو طبیعت کے ساتھ ساتھ چہرے کی جلد بھی صاف ہو جاتی۔ لگے ہاتھ چہرے کا نکھار ، طعنے کی پھٹکار کو کچھ مندمل بھی کر دیتا۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ سمجھ بڑی چیز ہے اور سمجھداری اُس سے بھی زیادہ ۔کم از کم تعداد ِ حروف کی بنیاد پر۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اکثر لوگ بغیر مشورے کےہی منہ دھو رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کے لئے بڑے جتن بھی کرتے ہیں۔ جتن کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ کاسمیٹکس والے یہ بات لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا چکے ہیں کہ خوبصورت لگنا آپ کا حق ہے۔ خوبصورت ہونے کو آپ کا حق کہنے سے اُنہوں نے بھی گریز کیا کہ یہ آسمان سے دشمنی مول لینے والی بات ہے۔

پہلے زمانے میں خوبصورتی کے معیار اور تھے۔ پہلے زیادہ تر وہی لوگ خوبصورت نظر آتے تھے جو خوبصورت ہوتے بھی تھے اور اُنہیں اس کے لئے بہت زیادہ جتن بھی نہیں کرنے پڑتے تھے۔ لیکن اب اور سے اور ہوئے 'حُسن' کے عنواں 'پیارے'!


پہلے زمانے میں منہ دھونے کا کام زیادہ تر خواتین ہی کیا کرتی تھیں اور مرد حضرات یہ کہہ کر کہ 'شیروں کے بھی کبھی منہ دُھلتے ہیں'، اپنی کاہلی پر بہادری کا پردہ ڈال دیا کرتے تھے۔ خواتین بھی منہ دھونے کا کام کپڑے دھونے کے صابن سے ہی لے لیا کرتی تھیں ۔ یعنی کپڑے دھونے کے بعد اُسی صابن سے منہ بھی دھو لیا کرتیں۔ سیدھے سادھے صابن میل کو اُتار پھینکتے اور اُن کی رنگ کاٹنے کی صلاحیت خواتین کی فئیر نیس کو جلا بخشتی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

تاہم جیسے جیسے آسماں رنگ بدلتا ہے زمین والے بھی رنگ ڈھنگ بدلتے رہتے ہیں۔ صابن کی جگہ فیس واش نے لے لی اور رنگ کاٹ کی جگہ فئیرنیس کریم نے ۔ یعنی اب جس صابن سے ہاتھ دھوئے جائیں اُسی سے منہ بھی دھو لینا نری جہالت سمجھا جانے لگا۔ اب آپ سر پر شیمپو لگائیں گے منہ پر فیس واش، ہاتھوں پر ہینڈ واش اور یوں آپ کے اور سرمایہ داروں کے بیچ مالی عدم توازن کاتوازن برقرار رہنے کی سبیل ہو سکےگی۔

رواں سال جب ہماری عمر رواں کو دائمی اسیری سے روشناس کرانے کی تقریبات درپیش تھیں تو ہمیں بھی یہ مشورہ دیا گیا کہ اپنا خیال رکھیے اور خود کو تھوڑا خوش وضع بنانے کی کوشش کریں۔ اگر ہمارے ساتھ یہ مسئلہ درپیش نہ ہوتا تو شاید ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ لوگ ایک مدتِ طویل و بسیط سے ہمیں خوش وضع سمجھنے سے عاری ہیں اور اب بھی جس مَرے دل سے یہ مشورے دیے جا رہے ہیں تو اس سے گمان ہوتا کہ انہیں اپنی اُمیدوں کے بر آنے کی کوئی خاص اُمید بھی نہیں ہے۔

اُمید تو ہمیں بھی کوئی خاص نہیں تھی لیکن اس خیال سے کہ کہیں سیاہ و سفید کے مطلق تضاد سے لوگوں کی طبیعت ہی مکدر نہ ہو جائے، ہم نے خود کو کسی نہ کسی طرح راضی کیا کہ روز کے چار چھ دقیقے فروگزاشت ہونے سے بچا لیں اور اس سلسلے میں صرف کر دیے جائیں تاکہ اپنے چہرے کو چہرہ انور میں ڈھال کر سزاوارِ نمائش بنایا جا سکے۔ سزاوار کی سزا کو ہر دومعنی میں پڑھا جا سکتا ہے۔

سچ پوچھیں تو فیس واش سے یہ ہمارا پہلا تعارف نہیں تھا۔ اول اول جب ہم اس جہانِ حسن افروز سے روشناس ہوئے تو جو پہلا فیس واش ہم نے استعمال کیا وہ ایسا تھا کہ گویا ہم نے چہرے پر موبل آئل مل لیا ہو اور اُس کی چکنائی کو دھونے کے لئے نئے بونس کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ کافی دیر چہرہ رگڑنے کے بعد احساس ہوتا کہ یہ تو کولھو کے بیل کی طرح چلتے رہنے جیسا معاملہ ہے یعنی اگر ساری زندگی چہرہ رگڑتے رہیں تو بھی ضرورت تمام نہیں ہوگی۔ تاہم اُن دنوں چونکہ معاملہ اتنا گھمبیر نہیں تھا سو ہماری کاہلی اور غیر مستقل مزاجی نے آڑے آ کر فیس واش کے مذموم عزائم خاک میں ملا دیے اور یوں ہمارا چہرہ چکنا گھڑا بنتے بنتے رہ گیا۔

تاہم اس بار ہم نسبتاً سنجیدہ تھے سو بھول چوک کے عفریت کو ہردوسرے تیسرے روز قابو کر ہی لیتے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی سعی میں لگ جاتے۔

اس بار ہم نے کچھ دوسرے برانڈز آزمانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اندازہ ہوا کہ :


ع۔ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے

اور


ع۔ ملے نہیں ہیں جو 'برانڈ' اُن کی مہربانی ہے۔

خیر ! سیاہ کو سفید کرنے کی اس نئی مہم میں جو پہلا فیس واش ہم نے استعمال کیا وہ اپنی طبعیت میں بڑا سفاک ثابت ہوا۔ اسے لگا کر یوں گمان ہوتا کہ جیسے اس میں ریت کی کنکریاں سی ملائی ہوئیں ہیں جو جلد میں جا بجا چھوٹے چھوٹے گڑھوں کی تخلیق کا کام کرتی ہیں اور ہمارے چہرے کے سیاہ خلیوں کو میل سمجھ کر نسبتاً کم سیاہ خلیوں سے الگ کرنے کا کام کرتی ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر اس فیس واش کی خدمات میسر ہوں تو ریشمی کپڑے سے اسکاچ برائٹ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی سی کنکریوں سے چہرے کو چھلنی کر دینے والے اس فیس واش کا کام اتنا ہی تھا کہ بے تحاشہ روزن ہمارے چہرے کی جلد میں بنادے اور ہمارا باطنی نور اِن روزنوں سےجھانک جھانک کر چہرے کو تابناک بنا دے۔ اُن دنوں یہ خیال بھی آیا کہ جن کا اندروں تاریک تر ہوتا ہوگا اُن کے چہرے کے روشن ہونے کی کیا سبیل بنتی ہوگی۔ یقنیاً حلق میں چائنا کی چھوٹی والی ٹارچ رکھ کر گھومنے کے علاوہ تو کوئی حل نہیں ہوگا۔

اگلا فیس واش سفاک نہیں تھا بلکہ کافی حد تک عیب پوشی کرنے والا تھا ۔ یوں گماں ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے ٹالکم پاؤڈر کو پانی میں گھول کر پیش کر دیا ہو۔ یعنی چہرے کی جلد جیسی بھی ہو اُوپر اُوپر سفیدی کا لیپ کر دیا جائے۔ اِسے آپ طنزاً کاسمیٹک تبدیلی بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ فی الواقعہ کاسمیٹک تبدیلی ہی تھی۔

کافی بعد میں ہمیں یہ عقل آئی کہ یہ دونوں فیس واش ایک ساتھ بھی تو استعمال کیے جا سکتے ہیں۔یعنی اول الذکر چہرے میں گڑھے کھودنے کے لئے اور ثانی الذکر اُن گڑھوں کو سفیدےسےبھرنے کےلئے۔ لیکن ناتجربے کاری کے باعث شروع شروع میں ہم نے یوں کیا کہ دوسرا فیس واش دھونے میں کچھ زیادہ محنت کرلی ۔ جس سے ہوا یوں کہ اوپر اوپر سے سفیدی دُھل گئی اور صرف پہلے فیس واش کے تیار کردہ گڑھوں میں باقی رہ گئی۔ اب چہرہ کچھ ایسا ہوگیا کہ جیسے کسی جلے ہوئے بیکری والے بن پر جا بجا سفید تل چپکے نظر آ رہےہوں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پتہ نہیں اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی ہمارے منہ پر کچھ رونق آئی بھی یا نہیں ۔ تو ہم کہیں گے کہ ہم کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اتنے تجربات کرکے ہم تو کافی شش و پنج بلکہ کسی حد تک ہشت و ہفت کا شکار ہوگئے تھے۔ رہے وہ لوگ جن سے ہم نے اپنی اس مشقت اور اُس کے حاصل حصول کے بارے میں رائے لی تو اُن میں دو طرح کے لوگ ملے ایک وہ جو منہ دیکھے کی تعریف کرنے لگے اور دوسرے وہ جو محض ہمارا منہ دیکھ کر چپ ہو گئے۔بہرکیف ہمیں ہر دو طرح کے احباب سے ہمدردی ہے اور سوچتے ہیں کہ آئندہ کبھی انہیں ایسے کڑے امتحان میں نہ ڈالا جائے۔