[ہفتہ ٴ غزل] ۔ شکریہ

شکریہ

ہفتہٴ غزل کے اختتام پر ہم اپنے احباب کے شکر گزار ہیں کہ جن سے ہمیں بہت حوصلہ افزائی ملی۔

بالخصوص ہم راحیل فاروق بھائی کے شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے ناصرف ہفتہٴ غزل کے انعقاد پر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی بلکہ اپنے گہر بار قلم سے ایک عدد مضمون بھی اس سلسلے میں رقم کیا۔ اس کے بعد ہم محمد تابش صدیقی بھائی کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ اُنہوں نے پورے ہفتہ کم و بیش ہر پوسٹ پر ہماری حوصلہ افزائی فرمائی اور انتخاب پر اپنے رائے سے بھی نوازا۔



ہمارے عزیز برادران ذوالقرنین سرور المعروف نیرنگِ خیال بھائی اور بلال اعظم بھیا نے بھی ہفتہٴ غزل کے آغاز پرا پنے تبصروں سے اس موقع پر ہماری ہمت بندھائی۔ عزیزی فلک شیر بھائی سے بھی ہمیں گاہے گاہے کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی ہمت ملتی رہتی ہے اور اس سلسلے میں بھی اُنہوں نے اپنے احباب کی توجہ ہفتہٴ غزل کی طرف مبذول فرما کر ہمیں حوصلہ بخشا۔

ہمیں اعتراف ہے کہ ہمارے مذکورہ اور غیر مذکورہ احباب کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی تو ہمارا ہفتہٴ غزل بُری طرح فلاپ ہو جاتا جو اب اللہ کا شکر ہے کہ اچھی طرح فلاپ ہوا ہے۔ ☺☺☺

ہم اپنے بلاگ کے قارئین کے بھی شکر گزار ہیں کہ جو گاہے گاہے بلاگ پر آتے رہتے ہیں اور اُن کے تبصروں اور کبھی محض نقشِ قدم سے اُن کی آمد کے نشاں ملتے رہتے ہیں۔

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے ۔ خواجہ حیدر علی آتش

آج کی معروف غزل

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرُو کرتے
ہم اور بلبل ِبے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مئے نقرئی سبُو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

بیاضِ گردنِ جاناں کو صبح کہتے جو ہم
ستارہء سحری تکمہء گلُو کرتے

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

سکھاتے نالہء شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

خواجہ حیدر علی آتش

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ گردِ سفر میں بُھول کے منزل کی راہ تک ۔ امجد اسلام امجدؔ

غزل

گردِ سفر میں بُھول کے منزل کی راہ تک
پھر آ گئے ہیں لوگ نئی قتل گاہ تک

اِک بے کسی کا جال ہے پھیلا چہار سُو
اِک بے بسی کی دُھند ہے دل سے نگاہ تک

بالائے سطحِ آب تھے جتنے، تھے بے خبر
اُبھرے نہیں ہیں وہ کہ جو پہنچے ہیں تھاہ تک

اِک دُوسرے پہ جان کا دینا تھا جس میں کھیل
اب رہ گیا ہے صرف وہ رشتہ نباہ تک

اہلِ نظر ہی جانے ہیں کیسے اُفق مثال!
حدِّ ثواب جاتی ہے حدِّ گناہ تک

زنجیرِ عدل اب نہیں کھینچے گا کوئی ہاتھ
رُلنے ہیں اب تو پاؤں میں تاج و کُلاہ تک

پُھولوں سے اِک بھری ہوئی بستی یہاں پہ تھی
اب دل پہ اُس کا ہوتا نہیں اشتباہ تک

آتی ہے جب بہار تو آتی ہے ایک ساتھ
باغوں سے لے کے دشت میں اُگتی گیاہ تک

جانا ہے ہم کو خواب کی کشتی میں بیٹھ کر
کاجل سے اِک بھری ہُوئی چشمِ سیاہ تک

جذبات بجھ گئے ہوں تو کیسے جلے یہ دل
میرِ سپہ کا نام  ہے اُس کی سپاہ تک

امجدؔ اب اس زمین پہ آنے کو ہے وہ دن
عالم کے ہاتھ پہنچیں گے عالم پناہ تک

امجد اسلام امجدؔ


[ہفتہ ٴ غزل] ۔ عشّاق کو وہ کوھکنی یاد نہیں کیا ۔ مرتضیٰ برلاس

غزل

عشّاق کو وہ کوھکنی یاد نہیں کیا
اس شہر میں اب کوئی بھی فرہاد نہیں کیا

ملبوس جدا کیوں ہیں ، زبانیں ہیں جدا کیوں
ہم ایک قبیلے کے سب افراد نہیں کیا

ناداں، تُو ہمیں دیکھ کے گرداب میں خوش ہے
سیلاب کی زد پر تری بنیاد نہیں کیا

آنکھیں مری صدیوں سے کرن ڈھونڈ رہی ہیں
اِس ظلمتِ شب کی کوئی معیاد نہیں کیا

اُڑنے کے لئے کر دیا سمتوں کا تعیّن
زنجیر کٹی، پھر بھی ہم آزاد نہیں کیا

پھر جادہ ء پُر پیچ پہ لغزیدہ خرامی
ٹھوکر جو ابھی کھائی تھی وہ یاد نہیں کیا

مرتضیٰ برلاس

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ یہ پنگھٹوں کو کیا ہوا۔ جو چُپ سی لگ گئی انہیں ۔ اعجاز عبیدؔ


دوغزلہ
(قحط زدہ گاؤں میں غزل)

وہ ہولیاں منانے والے کس طرف چلے گئے
وہ تعزئے اٹھانے والے کس طرف چلے گئے

سویرے گاؤں کی فضا کا وہ دھواں کہاں گیا
وہ بیل دھول اڑانے والے کس طرف چلے گئے

یہ پنگھٹوں کو کیا ہوا۔ جو چُپ سی لگ گئی انہیں
وہ رنگ دل لبھانے والے کس طرف چلے گئے

پہاڑیوں پہ چرنے والی بکریاں کدھر گئیں
وہ بانسری بجانے والے کس طرف چلے گئے

وہ ’’پیاس پیاس‘‘ چیختی ٹٹہرباں کہاں گئیں
وہ ہنس موتی کھانے والے کس طرف چلے گئے

الاؤ جل رہا ہے اور لوگ سب خموش ہیں
وہ ماہیا سنانے والے کس طرف چلے گئے

تڑخ رہی ہے گرم دھرتی پیر کس طرف رکھیں
وہ میگھ راگ گانے والے کس طرف چلے گئے

----

وہ ہاتھ گدگدانے والے کس طرف چلے گئے
وہ بچے چہچہانے والے کس طرف چلے گئے

وہ چار دن کی چاندنی تھی یہ اندھیری رات ہے
وہ جگنو جگمگانے والے کس طرف چلے گئے

جو ہاتھ خشک بالوں کو سنوارتے تھے کیا ہوئے
سکوں کی نیند لانے والے کس طرف چلے گئے

کتابوں میں لکھا تھا، ایسے ہی یُگوں میں آئیں گے
وہ جو نبی تھے آنے والے ، کس طرف چلے گئے

ادھر تو شہرِ گریہ ہے ، فصیل کے اُدھر مگر
وہ ہونٹ مسکرانے والے کس طرف چلے گئے

ہر اک طرف پکار دیکھا کوئی بھی نہیں یہاں
وہ بستیاں بسانے والے کس طرف چلے گئے

اعجاز عبیدؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آئینہ اندھیروں کو دکھا کیوں نہیں دیتے ۔ مقبول نقشؔ

غزل

آئینہ اندھیروں کو دکھا کیوں نہیں دیتے
اک شمع سرِ دار جَلا کیوں نہیں دیتے 

پتھر بھی چٹختے ہیں تو دے جاتے ہیں آواز
دل ٹوٹ رہے ہیں تو صَدا کیوں نہیں دیتے

کب تک پسِ دیوار سِسکتے رہے انساں
شہروں کی فصیلوں کو گرا کیوں نہیں دیتے

پابندیء اظہار سے بات اور بڑھے گی
احساس کو سولی پہ چڑھا کیوں نہیں دیتے 

کیا میری طرح خانماں برباد ہو تم بھی 
کیا بات ہے، تُم گھر کا پتا کیوں نہیں دیتے

ہم کو تو نہیں یاد کبھی دل بھی دُکھا تھا
رنجش کا سبب تم بھی بُھلا کیوں نہیں دیتے 

ساحل پہ کھڑے ہیں جو غمِ دل کے سفینے 
یادوں کے سمندر میں بَہا کیوں نہیں دیتے

معلوم تو ہو شہر ہے یا شہرِ خموشاں
تم نقشؔ کسی در پہ صدا کیوں نہیں دیتے

مقبول نقشؔ

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں ۔ انور شعورؔ

غزل

ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرور  و کیف میں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں

گنا کرو نہ پیالے ہمیں پلاتے وقت
ظروف ظرف کے پیمانے تھوڑی ہوتے ہیں

براہِ راست اثر ڈالتے ہیں سچے لوگ
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں

جو لوگ آتے ہیں ملنے ترے حوالے سے
نئے تو ہوتے ہیں، انجانے تھوڑی ہوتے ہیں

ہمیشہ ہاتھ میں رہتے ہیں پھول اُن کے لئے
کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں

کسی غریب کو زخمی کرے کہ قتل کرے
نگاہِ ناز کو جُرمانے تھوڑی ہوتے ہیں

شعورؔ تم نے خدا جانے کیا کیا ہوگا
ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں

انور شعورؔ