کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی کا منظوم تعارف

کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی کا منظوم تعارف
(بچپن کی ایک یاد)​
از محمد احمد
بچپن میں جب ہماری اشعار سے کچھ مُڈ بھیڑ ہوئی تو اُن میں زیادہ تر ظریفانہ کلام ہی تھا اور چونکہ انسان ، حیوانِ ظریف واقع ہوا ہے سو ہم نے بھی خوب خوب اپنی حیوانی ظرافت سے حظ اُٹھایا۔ خیال رہے کہ ظریفانہ کلام سے آپ کا دھیان انور مسعود اور عنایت علی خان ٹونکی وغیرہ پر نہ جائے کہ بچپن میں پڑھا اور سُنا جانے والا یہ کلام بچوں کی ظرافت کے لئے تھا جو عمومی تک بندیء حیوانِ ظریف میرا مطلب ہے کہ عام مزاحیہ شاعر ی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ چونکہ مذکورہ ظریفانہ کلام کی نشر و اشاعت کے لئے میسر واحد میڈیا 'سینہ گزٹ' ہی تھا سو ہم یہ کلام ہم عمر دوستوں سے سُنا کرتے اور وہ یہ شاعری خود سے دو چار سال بڑے کسی شرارتی رشتے دار یا محلے والے سے سُن کر آتے جو خود تو بڑے ہو جاتے مگر اُن کی حرکتیں نہیں جاتیں۔ یہ اشعار کچھ اس قسم کے ہوتے:

دور سے دیکھا تو سکینہ بال سُکھا رہی تھی
پاس جا کے دیکھا تو بھینس دُم ہلا رہی تھی​
یا
دور سے دیکھا تو انڈے اُبل رہے تھے
قریب جا کے دیکھا تو گنجے اُچھل رہے تھے
کہتے ہیں کہ بڑا شاعر اپنی شاعری کو سب سے زیادہ جانتا ہے (اکثر معقول ناقد ایسے بڑے شعراء کو معنی فی بطن الشاعر کا نامعقول طعنہ بھی دیتے ہیں لیکن ناقدوں کو سُننے بیٹھیں تو پھر شاعری تو بس ہو ہی گئی۔) سو مذکورہ شعراء بھی اپنی شاعری کو بخوبی جانتے تھے سو اُنہوں نے فساد خلق سے بچنے کے لئے کبھی بھی شعر کے ساتھ اپنا نام روانہ نہیں کیا ورنہ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ شعراء بھی غالب کے ہم پایہ نہیں تو ہم سایہ ضرور ہوں گے۔

اسی ضمن میں ایک شعر یا اشعاری سلسلہ کہ جو تذکرہ ء ہٰذا کا وجہء نزول ثابت ہوا کچھ یوں تھا :

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں پراٹھے
نکال اپنے باپ کو لڑتا ہوں کراٹے​

باوجود اس کے کہ یہ شعر بدتمیزی کو ہوا دیتا تھا اور بات اسلاف تک جا پہنچتی تھی ، اِسے حلقہء اربابِ اطفال میں بہت پذیرائی ملی اور اُن دنوں اس شعر کے باعث سینہ گزٹ کے روزانہ کے چھ آٹھ ایڈیشن نکلنے لگے۔ ہم نے اس شعر کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے اس پر تھوڑی بہت تحقیق کا بیڑا بھی اُٹھایا لیکن جلد ہی باز بھی آ گئے ، باز کے ساتھ چیل کوئے بھی آگئے ہوں تو ہمیں یاد نہیں۔

بہرکیف ، یہ شعر ایک ایسے شخص کا تعارف ہے جو میلوں کی مسافت طے کرکے پہنچا ہے اور راستے کی کٹھنائیوں اور طعام و قیام کے نامناسب بندوبست کے باعث اب کچھ کھانے پینے کو بے چین ہے اور اتنا عرصہ لذتِ کام و دہن سے محرومی کے باعث ایک ضد سی ہو گئی ہے کہ اب کچھ کھائیں تو بس پراٹھے ہی کھائے جائیں۔ دوسرا مصرعہ گو بظاہر بدتمیزی پر مبنی ہے تاہم یہ بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ اس سوال کا جواب کہ کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی نے براہِ راست باپ سے ہی دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ، یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر چاہے کتنا ہی بھوکا کیوں نہ ہو اُسے اپنے سامع بہت عزیز ہوتے ہیں کہ فی زمانہ اور اُس زمانے میں بھی شاعروں کے لئے سامعین کا میسر آ جانا کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتا تھا۔ سو براہِ راست سامع کو دعوتِ مبارزت دینا ایک نایاب سامع کو کھودینے کے مترادف تھا کہ سامع اگر شعر سنتے سنتے دعوتِ مبارزت کو قبول کرلیتا تو قحط زدہ شاعر کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اگر سامع کے اسلاف تک یہ بات پہنچ ہی جاتی اور وہ وفورِ جذبات و اشتعال میں کھانا آدھا چھوڑ کر یا ہاتھ میں پراٹھا لیے ہی باہر آجا تے تو کیا ہی بات ہوتی کہ بدتمیز پردیسی کیا چاہے، ایک پراٹھا۔  :)

ویسے کراٹے کے کھیل سے ہمیں اور بھی بہت کچھ یاد آ رہا ہے ابھی حال ہی میں ہمیں اس حوالے سے ایک پیشکش بھی ہوئی ہے جس کی بابت ہم ابھی غور فرما رہے ہیں ۔ بلکہ زیادہ غور اس بات پر ہے کہ اگر ہم یہ ہنر سیکھ گئے تو سب سے پہلے کس پر اُسے آزمائیں گے۔ اصولاً تو یہ ہمارے ایک بھائی کا ہی حق ہے کہ اُن کی کرم نوازی کے جواب میں ہمیں بھی تو کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن چونکہ ابھی یہ پیشکش اور دیگر معاملات ابتدائی درجے میں ہیں سو اس موضوع پر زیادہ موشگافیاں ہمارے اور کراٹے کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں سو اس موضوع کو فی الحال ملتوی کرتے ہیں ۔

بہر کیف یہ شعر اس قدر زبانِ زدِ اطفالِ سادہ و رنگیں ہوا کہ مت پوچھیے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شہرہ آفاق نمونے کی بنیاد پر اس کے وہ وہ نسخے سامنے آنے لگے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ کچھ مثالیں دیکھیے:

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں ملائی
نکال اپنے باپ کو کرتا ہوں پٹائی

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں ٹماٹر
نکال اپنے باپ کو لگاتا ہوں جھانپڑ

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں سموسے 
نکال اپنے باپ کو لگاتا ہوں گھونسے
بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ اُن کا واسطہ کسی عروض دان یا ناقد سے نہیں پڑتا ورنہ بچوں کی شاعری میں بھی وہ گھمسان کا رن پڑے کہ خدا کی پناہ ۔ سو یہاں بے بحرے اور بے وزن شعر بھی کمالِ محبت سے سماعت کیے جاتے ہیں اورخوب خوب دادِ شجاعت (اس طرح کے اشعار کے لئے دادِ شجاعت ہی بنتی ہے) کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ اسی ضمن میں ڈھیروں اشعار شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن دوسرا مصرعہ لکھتے ہوئے ہماری طبع ِ نازک و لطیف پراگندہ ہوتی ہے ، تہذیب و تمیز کے پرانے اسباق ہمیں ملامت کرتے ہیں اور دل میں گرہ سی پڑ کر رہ جاتی ہے سو تین اشعار پر ہی بس کرتے ہیں۔

اسی شعر سے ملتا جلتا ایک شعر معروف سیاح ابنِ بطوطہ سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ 

آیا ہوں بڑی دور سے گِھستا ہوا جوتا
میں ابنِ بطوطہ ارے میں ابنِ بطوطہ​

یہ بات البتہ ابھی تک تحقیق طلب ہے کہ آیا ابنِ بطوطہ نے یہ شعر بذریعہ سرقہ اپنا بنایا یا دیگر متقدمین و معاصرین نے ابنِ بطوطہ کے تھیلے سے پار کر لیا۔ سو:

ع ۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے​

بچوں کے ہاں اِس قبیل اور اُس قبیل کے اور بھی کئی اشعار پائے جاتے تھے جن کا تذکرہ اس تحریر میں ہوسکتا ہے لیکن اُنہیں کسی اور نشست کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں کہ بچپن کی یادیں تو آتی ہی رہتی ہیں اور جب بچپن کی کوئی یاد آ جائے تو انسان بیٹھے بٹھائے دنیا بھر کے جھمیلوں سے نکل کر یادوں کے میلوں میں کھو جاتا ہے، ایسے ہی کسی میلے سے واپسی پر ممکن ہوا تو ایک تحریر اور لکھ ماریں گے۔

٭٭٭٭٭٭٭

غزل ۔ نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے ۔ حسرت موہانی

غزل

نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے

غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

حسرت موہانی

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں ۔ انور شعور

غزل

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں
یکے از شہرِ یارانِ سبا ہوں

وہ جب کہتے ہیں، فردا ہے خوش آئند
عجب حسرت سے مُڑ کر دیکھتا ہوں

فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ
کلی ہوں، گل ہوں، خوشبو ہوں، صبا ہوں

سحر اور دوپہر اور شام اور شب
میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں

کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں

ترقی پر مبارک باد مت دو
رفیقو! میں اکیلا رہ گیا ہوں

کبھی روتا تھا اُس کو یاد کرکے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

سُنے وہ اور پھر کرلے یقیں بھی
بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں

انور شعورؔ​

حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی

غزل

کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہيں جاتی

صداقت ہو تو دل سينے سے کھنچنے لگتے ہيں واعظ
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے مانی نہيں جاتی

جلے جاتے ہيں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہيں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی

وہ يوں دل سے گزرتے ہيں کہ آہٹ تک نہيں ہوتی
وہ يوں آواز ديتے ہيں کہ پہچانی نہيں جاتی

محبت ميں اک ايسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہيں طغيانی نہيں جاتی

جگر وہ بھی از سر تا پا محبت ہی محبت ہيں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہيں جاتی

جگر مراد آبادی

نظم ۔ آندھی ۔۔۔ از ۔۔۔ نذیر احمد شیخ


نذیر احمد شیخ کی ایک خوبصورت نظم "آندھی" بشکریہ محترم نصیر احمد صاحب یہاں پیش کی جا رہی ہے ۔ نصیر صاحب کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ نذیر احمد شیخ مزاحیہ شاعر تھے اور "حرفِ بشاش" کے نام سے اُن کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔

نذیر احمد شیخ صاحب کی کہ یہ نظم اپنی سلاست اور روانی کے اعتبار سے لاجواب ہے۔ آندھی کا جو نقشہ شاعرِ موصوف نے کھینچا ہے اور جس بے ساختگی سے یہ خوش آہنگ نظم بُنی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نظم آج کے دور سے کچھ پرے اُس زمانے کی ہے جب زندگی کی بیشتر سہولیات تک اکثریت کی رسائی نہیں تھی لیکن زندگی تب زیادہ خوبصورت تھی۔

آندھی
نظم

کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے سب گھر ریگستان

جھاڑو جھاڑن موج منائیں اُن کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج

درہم برہم سب تصویریں، طُرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکے، سجدے میں اقبال

ایک بگولہ سب سے اولیٰ، بھوتوں کا سردار
لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار

سُنتے سُنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال
بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے ڈال

اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چُھڑائیں رخصت ہو دستار

چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ

پیڑوں کے جب ٹہنے ٹوٹے سب کی ٹوٹی آس
اُپلے چھت سے فوراً کودے سیدھے چولہے پاس

نذیر احمد شیخ


حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے

بھلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تری تمکین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنج ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

مرے پاس وفا کی بدگمانی ہے بجا تم سے
کہیں بے وجہ اظہار کرم ایسا بھی ہوتا ہے

تری دل داریوں سے صورت بیگانگی نکلی
خوشی ایسی بھی ہوتی ہے الم ایسا بھی ہوتا ہے

وقار صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے
کہیں اے اعتبار چشم نم ایسا بھی ہوتا ہے

بدعوائے وفا کیوں شکوہ سنج جور ہے حسرتؔ
دیار شوق میں اے محو غم ایسا بھی ہوتا ہے

*******

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے

ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے

کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے

کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے

بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے

اس بے نشاں کے ملنے کی حسرتؔ ہوئی امید
آبِ بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے

مولانا حسرت موہانی

مولانا حسرت موہانی اور سودیشی تحریک



انگریز برِ صغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے ۔ یہ کپاس انگلستان جاتی ۔ وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے ۔ پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

ایک کپاس ہی کیا، برصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی ۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برصغیر میں کارخانے بھی کم تھے ۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

برِ صغیر کے رہنماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کےلئے سودیشی تحریک شروع کی۔ سود یشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی ۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

سودیشی تحریک کو لوگوں نے کامیاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہیے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا ۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی ۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔" مولانا سید صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سید صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا ، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے ہیں ۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے ۔ ہوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا ۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔