غزل
کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہيں جاتی
صداقت ہو تو دل سينے سے کھنچنے لگتے ہيں واعظ
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے مانی نہيں جاتی
جلے جاتے ہيں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہيں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی
وہ يوں دل سے گزرتے ہيں کہ آہٹ تک نہيں ہوتی
وہ يوں آواز ديتے ہيں کہ پہچانی نہيں جاتی
محبت ميں اک ايسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہيں طغيانی نہيں جاتی
جگر وہ بھی از سر تا پا محبت ہی محبت ہيں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہيں جاتی
جگر مراد آبادی
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے مانی نہيں جاتی
جواب دیںحذف کریںواہ. عمدہ انتخاب.
بہت شکریہ @فرحت خیانی!
جواب دیںحذف کریںخوش رہیے۔