پیرزادہ قاسم کی دو خوبصورت غزلیں



سفر نصیب ہیں ہم کو سفر میں رہنے دو
سفالِ جاں کو کفِ کوزہ گر میں رہنے دو

ہمیں خبر ہے کسے اعتبار کہتے ہیں
سخن گروں کو صفِ معتبر میں رہنے دو

تمھاری خیرہ سری بھی جواز ڈھونڈے گی
بلا سے کوئی بھی سودا ہو سر میں رہنے دو

یہ برگ و بار بھی لے جاؤ چُوبِ جاں بھی مگر
نمو کی ایک رمق تو شجر میں رہنے دو

اسیر کب یہ قفس ساتھ لے کے اُڑتے ہیں
رہے جو حسرتِ پرواز پر میں رہنے دو

----

میں سمجھا مری گھٹن مٹانے آیا تھا
وہ جھونکا تو دیا بجھانے آیا تھا

موسمِ گل اُس بار بھی آیا تھا لیکن
کیا آیا بس خاک اُڑانے آیا تھا

چشم زدن میں ساری بستی ڈوب گئی
دریا کس کی پیاس بجھانے آیا تھا

مہر نشاں، زرکار قبا، وہ یار مرا
مجھ کو سنہرے خواب دکھانے آیا تھا

خالی چھتری دیکھ فسردہ لوٹ گیا
بچھڑا پنچھی اپنے ٹھکانے آیا تھا


پیرزادہ قاسم

غزل ۔ سُراغِ جادہ و منزل اگر نہیں ملتا ۔ محمد احمدؔ


خاکسار کی ایک پرانی غزل قارئینِ بلاگ کی نذر:

غزل

سُراغِ جادہ و منزل اگر نہیں ملتا
ہمیں کہیں سے جوازِ سفر نہیں ملتا

لکھیں بھی دشت نوردی کا کچھ سبب تو کیا
بجُز کہ قیس کو لیلیٰ کا گھر نہیں ملتا

یہاں فصیلِ انا حائلِ مسیحائی
وہاں وہ لوگ جنہیں چارہ گر نہیں ملتا

ہزار کو چہء نکہت میں ڈالیے ڈیرے 
مگر وہ پھول سرِ رہگزر نہیں ملتا

پھر آبیاریِ نخلِ سخن نہیں ہوتی
دلِ حزیں جو پسِ چشمِ تر نہیں ملتا

پیامِ شوق کو گیتوں میں ڈھالیے کیوں کر
مزاجِ بادِ سُبک بھی اگر نہیں ملتا

چلو کہ پھر سے رفیقوں کی بزم سونی ہے 
چلو کہ سنگِ ملامت کو سر نہیں ملتا

بشر بنامِ بشر تو بہت ہیں دنیا میں 
بشر کی خوبیوں والا مگر نہیں ملتا

چلو پھر اُس کے جھروکے میں پھول رکھ آئیں 
سخن کوئی جو اگر معتبر نہیں ملتا

جہاں میں ایک تمہی منفرد نہیں احمدؔ
یہاں تو کوئی بھی مثلِ دگر نہیں ملتا​

محمد احمدؔ

شاعری (ایک نظم)

شاعری

رات خوشبو کا ترجمہ کرکے
میں نے قرطاسِ ساز پر رکھا
صبح دم
چہچہاتی چڑیا نے 
مجھ سے آکر کہا
یہ نغمہ ہے
میں نے دیکھا 
کہ میرے کمرے میں
چارسو تتلیاں پریشاں ہیں
اور دریچے سے جھانکتا اندر
لہلاتا گلاب تنہا ہے

محمد احمدؔ


فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے ۔ مصطفیٰ زیدی

غزل 

فِگار پاؤں مرے، اشک نارسا میرے
کہیں تو مِل مجھے، اے گمشدہ خدا میرے

میں شمع کُشتہ بھی تھا، صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے

وہ دردِ دل میں ملا، سوزِجسم و جا ں میں ملا
کہاں کہاں اسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے

ہر ایک شعر میں، میں اُس کا عکس دیکھتا ہوں
مری زباں سے جو اشعار لے گیا میرے

سفر بھی میں تھا، مسا فر بھی تھا، راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا کئی کوس ما سوا میرے

وفا کا نام بھی زندہ ہے، میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا ،مجھ کو بے وفا میرے

وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک سمجھ نہ سکا
جگر کا زخم تھا، نغموں میں ڈھل گیا میرے

مصطفٰی زیدی

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا ۔ اسلم کولسری

اسلم کولسری صاحب کی خوبصورت غزل، قارئینِ بلاگ کے اعلیٰ زوق کی نذر

غزل

جب بھی ہنسی کی گرد میں چہرہ چھپا لیا
بے لوث دوستی کا بڑا ہی مزہ لیا

اک لمحہء سکوں تو ملا تھا نصیب سے
لیکن  کسی شریر صدی نے چرا لیا

کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گُل 
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا لیا

اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اُس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

اسلم کولسری


دو شاعر ایک ترنگ ۔ ۲

ایک ہی زمین میں دو معروف شعراء، جاں نثآر اخترؔ اور احمد فرازؔ کی غزلیات پیشِ خدمت ہیں۔ دونوں ہی خوب ہیں اور اپنی مثال آپ ہیں۔

غزلیات

زمیں ہوگی کسی قاتل کا داماں، ہم نہ کہتے تھے
اکارت جائے گا خونِ شہیداں ہم نہ کہتے تھے

علاجِ چاکِ پیراہن ہوا تو اِس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے

ترانے، کچھ دبے لفظوں میں خود کو قید کرلیں گے
عجب انداز سے پھیلے گا زنداں ہم نہ کہتے تھے

کوئی اتنا نہ ہوگا لاش بھی لے جا کے دفنا دے
اِنھیں سڑکوں پر مرجائے گا انساں ہم نہ کہتے تھے

نظر لپٹی ہے شعلوں میں، لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اُٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے

چھلکتے جام میں بھیگی ہوئی آنکھیں اُتر آئیں
ستائے گی کسی دن یادِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

نئی تہذیب کیسے لکھنؤ کو راس آئے گی
اُجڑ جائے گا یہ شہرِ غزالاں ہم نہ کہتے تھے

جاں نثار اخترؔ

******

اماں مانگو نہ اُن سے جاں فگاراں ہم نہ کہتے تھے
غنیمِ شہر ہیں چابک سواراں ہم نہ کہتے تھے

خزاں نے تو فقط ملبوس چھینے تھے درختوں سے
صلیبیں بھی تراشے گی بہاراں ہم نہ کہتے تھے

ترس جائیں گی ہم سے بے نواؤں کو تری گلیاں
ہمارے بعد اے شہرِ نگاراں ہم نہ کہتے تھے

جہاں میلہ لگا ہے ناصحوں کا، غمگساروں کا
وہی ہے کوچۂ بے اعتباراں ہم نہ کہتے تھے

کوئی دہلیزِ زنداں پر کوئی دہلیزِ مقتل پر
بنے گی اس طرح تصویرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

فرازؔ اہلِ ریا نے شہر دشمن ہم کو ٹھہرایا
بس اس کارن کہ مدحِ شہرِ یاراں ہم نہ کہتے تھے

احمد فرازؔ

تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے ۔ شہزاد احمد

غزل 

غبارِ طبع میں تھوڑی بہت کمی ہو جائے
تمھارا نام بھی سُن لوں تو روشنی ہو جائے

ذرا خیال کرو، وقت کس قدر کم ہے
میں جو قدم بھی اُٹھا لوں ، وہ آخری ہو جائے

قیامتیں تو ہمیشہ گزرتی رہتی ہیں
عذاب اُس کے لئے جس کو آگہی ہو جائے

گزر رہے ہیں مرے رات دن لڑائی میں
میں سوچتا ہوں کہ مجھ کو شکست  ہی ہو جائے

عجیب شخص ہے تبدیل ہی نہیں ہوتا
جو اُس کے ساتھ رہے چند دن وہی ہو جائے

مرا نصیب کنارہ ہو یا سمندر ہو
جو ہو گئی ہے، تو لہروں سے دشمنی ہو جائے

تمام عمر تو دوری میں کٹ گئی میری
نہ جانے کیا ہو؟ اگر اس سے دوستی ہو جائے

بس ایک وقت میں ساری بلائیں ٹوٹ پڑیں
اگر سفر یہ کٹھن ہے تو رات بھی ہو جائے

میں سو نہ جاؤں جو آسانیاں میسر ہوں
میں مر نہ جاؤں اگر ختم تشنگی ہو جائے

نہیں ضرور کہ اونچی ہو آسمانوں سے
یہی بہت ہے زمیں پاؤں پر کھڑی ہو جائے

تمام عمر سمٹ آئے ایک لمحے  میں
میں چاہتا ہوں کہ ہونا ہے جو ابھی  ہو جائے

وہی ہوں میں وہی امکاں کے کھیل ہیں شہزادؔ 
کبھی فرار بھی ممکن نہ ہو، کبھی ہو جائے

شہزادؔ احمد