حاضر جوابی ، بذلہ سنجی اور خوش ذوقی جیسی اعلیٰ صفات بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں ۔ ایسے اوصاف کے حامل افراد بہت جلد لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں۔ آج ہم آپ کو دو حکایتیں سنا رہے ہیں جو حاضر جوابی اور خوش ذوقی کی مثال ہیں۔
پہلی حکایت
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
یہ خوبصورت اور سدا بہار شعر خاطر غزنوی کا ہے ۔ کہتے ہیں کہ شاعر صاحب کسی محفل میں اپنا یہ سدا بہار شعر سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے کہ اچانک محفل میں موجود کسی شخص نے اُن کے مصرع پر گرہ لگائی اور یہ شعر کچھ اس طرح پڑھا:
یہ تو خیر اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
وہ ذرا سی بات کیا تھی جس پہ یارانے گئے؟
اب نہ جانے اس شعر کو سُن کر محفل کشتِ زعفران بنی یا نہیں ۔ بلکہ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اِس جواب کو سُن کر خاطر غزنوی نے خاطر جمع رکھی یا غزنوی بن کر گرہ لگانے والے حضرت پر لگاتار سترہ حملے کرنے کا قصد کیا۔
دوسری حکایت
اَز قضا آئینہ ٴ چینی شکست
خُوب شُد، سامانِ خُود بِینی شکست
زیب النساء ایک ملکہ گزری ہے۔ وہ بہت خوبصورت تھی، اس کو ایک نہایت قیمتی چینی آئینہ تحفے میں ملا تھا۔ زیب النساء نے اپنی لونڈی سے کہا کہ ذرا وہ آئینہ لے کر آؤ، میں بھی تو دیکھوں کہ میرا حسن کس قدر ہے، اور اس قیمتی آئینے میں میرا حسن کتنا نکھر کر سامنے آتا ہے۔ لونڈی آئینہ لے کر آرہی تھی کہ رستے میں اُسے ٹھوکر لگی اور وہ گر گئی اور ساتھ ہی وہ آئینہ بھی ٹوٹ گیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں واپس آتی ہے ۔ ملکہ زیب النسا پوچھتی ہے کہ آیئنہ کدھر ہے؟۔تو اس موقع پر بھی وہ لونڈی مصرع کہتی ہے۔
اَز قضا آئینہ ٴ چینی شکست
اس کی یہ بات سن کر ملکہ کو تو یہ چاہیئے تھا کہ اس کو سزا دیتی اور غصہ کرتی کہ تم نے اس قدر قیمتی آیئنہ ٹوڑ دیا۔ لیکن اُس کے فن زبان و بیان کو دیکھتے ہوئے ملکہ نے بھی مصرع کہا اور اسی وزن میں اس قدر خوبصورتی سے کہا کہ شعر نہ صرف مکمل ہوا بلکہ ایک شہرہ آفاق شعر بنا۔ ملکہ نے جواب میں کہا۔
خُوب شُد، سامانِ خُود بِینی شکست
ملکہ نے کہاکہ اچھا ہوا کہ وہ ٹوٹ گیا، ورنہ اگر میں اس کو دیکھتی تو اپنے حسن و جمال کو دیکھ کر غرور میں مبتلا ہو جاتی۔
ہم سوچتے ہیں کہ مذکورہ ملازمہ ایسی خوش ذوق خاتون بھی ہزاروں میں ایک ہی ہوتی ہوگی۔ ورنہ ہمارے ہاں اگر اس قسم کا واقعہ پیش آ جاتا تو فوراً جواب ملتا کہ بی بی جی چائنہ کی چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں ان کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ یا اگر ملازمہ کی جگہ کوئی شاعر ہوتا تو وہ کہتا کہ اتنا دل پر نہ لیجے
اِک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں
سہرا:
پہلی حکایت ہمیں ہمارے پیارے بھائی ریاض الحبیب کے دوست اختر علی مغل صاحب سے سُننے کو ملی ۔ اختر بھائی خوش ذوق واقع ہوئے ہیں اور شعر و ادب سے شغف رکھتے ہیں۔ اختر بھائی نے ایک دن گفتگو کے دوران یہ حکایت ہمیں سنائی تھی۔ تاہم اس بات کو اب کئی برس گزر چکے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ یہ بات اُن کی یادداشت سے محو ہو چکی ہو۔
دوسری حکایت ہمیں وٹس ایپ پر ایک خوش ذوق رُکن سعید احمد صاحب کے توسط سے ملی۔ تاہم جناب نے اسے کتابوں سے متعلق ایک ایسے گروپ میں ارسال کیا تھا جہاں کتابوں کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہے سو گروپ قوانین کے باعث ہم اُنہیں اس انتخاب کی قرار واقعی داد نہیں دے سکے، لیکن دل سے اُن کے ذوق کے قدر دان ہیں۔
*****
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں