دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے



دستِ عصائے معجزہ گر بھی اُسی کا ہے
گہرے سمندروں کا سفر بھی اُسی کا ہے

میرے جہاز اسی کی ہواؤں سے ہیں رواں
میری شناوری کا ہنر بھی اسی کا ہے

لشکر زمیں پہ جس نے اتارے ہیں رات کے
کھلتا ہوا نشانِ قمر بھی اسی کا ہے

آب رواں اسی کے اشارے سے ہے سراب
بادل کے پاس گنجِ گہر بھی اسی کا ہے

جو خشک ٹہنیوں سے اگاتا ہے برگ و بار
موسم تمام اس کے شجر بھی اسی کا ہے

منظر میں جتنے رنگ ہیں نیرنگ اسی کے ہیں
حیرانیوں میں ذوقِ نظر بھی اسی کا ہے

بس اپنا اپنا فرض ادا کر رہے ہیں لوگ
ورنہ سناں بھی اس کی ہے سر بھی اسی کا ہے

تیغِ ستم کو جس نے عطا کی ہیں مہلتیں
فریادِ کشتگاں میں اثر بھی اسی کا ہے

تیرا یقین سچ ہے مری چشمِ اعتبار
سب کچھ فصیلِ شب کے ادھر بھی اسی کا ہے

مجرم ہوں اور خرابہء جاں میں اماں نہیں
اب میں کہاں چھپوں کہ یہ گھر بھی اسی کا ہے

خود کو چراغ راہ گزر جانتا ہوں میں
لیکن چراغِ راہ گزر بھی اسی کا ہے

عرفان صدیقی

جب نمازِ محبت ادا کیجیے

غزل

جب نمازِ محبت ادا کیجیے
غیر کو بھی شریکِ دعا کیجیے

آنکھ والے نگاہیں چُراتے نہیں
آئینہ کیوں نہ ہو سامنا کیجیے

آپ کا گھر سدا جگمگاتا رہے
راہ میں بھی دیا رکھ دیا کیجیے

آنکھ میں اشکِ غم آ بھی جائیں تو کیا
چند قطرے تو ہیں پی لیا کیجے

شانتی صباؔ

وقت کی رفتار



پتہ نہیں کیوں آج کل مجھے لگ رہا ہے جیسے پچھلے کچھ دنوں سے وقت کا پہیہ بہت تیزی سے گھومنے لگا ہے۔ واقعات اتنی تیزی سے ایک کے بعد ایک رونما ہورہے ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آتا۔ اس تیز رفتاری کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو ہم کسی کا غم کر پاتے ہیں نہ کوئی خوشی منا پاتے ہیں ۔ واقعات کی یلغار میں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ یوں لگتا ہے جیسے وقت کے تیز رفتار دریا میں ہم بے یار و مدد گار بہہ رہے ہیں، کبھی کنارہ نظر آتا ہے تو مسکرانا ہی چاہتے ہیں کہ پھر سے کوئی لہر ہمیں پستیوں اور اندھیروں میں دھکیل دیتی ہے۔ 


سعداللہ شاہ نے کیا خوب کہا ہے:

وقت صحرا ہے کہاں اس میں نشاں ملتے ہیں
اک بگولہ ہی سبھی نقش مٹا جاتا ہے


معلوم نہیں ایسا مجھے ہی لگ رہا ہے یا سب کا یہی حال ہے۔


ایک غزل اقبال عظیم کی



اقبال عظیم کی ایک خوبصورت غزل جو مجھے بہت پسند ہے۔

غزل

ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے
لیکن اس ماحول میں افسردگی بھی جرم ہے

دشمنی تو خیر ہر صورت میں ہوتی ہے گناہ
اک معین حد سے آگے دوستی بھی جرم ہے

ہم وفائیں کر کے رکھتے ہیں وفاوُں کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری بھی جرم ہے

اس سے پہلے زندگی میں ایسی پابندی نہ تھی
اب تو جیسے خود وجودِ زندگی بھی جرم ہے

آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
مے کشی بھی جرم ہے اور خودکشی بھی جرم ہے

سادگی میں جان دے بیٹھے ہزاروں کوہ کن
آدمی سوچے تو اتنی سادگی بھی جرم ہے

کتنی دیواریں کھڑی ہیں ہر قدم ہر راہ پر
اور ستم یہ ہے کہ شوریدہ سری بھی جرم ہے

ایک ساغر کے لئے جو بیچ دے اپنا ضمیر
ایسے رندوں کے لئے تشنہ لبی بھی جرم ہے

اپنی بے نوری کا ہم اقبال ماتم کیوں کریں
آج کے حالات میں دیدہ وری بھی جرم ہے

اقبال عظیم

وجے کمار مسلمان ہو گیا


سر !  یہ چھٹی کا فارم تو بھر دیں۔"  وجے کمار نے 'لیو فارم' میری ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
وجے کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے میں نے اپنی زیرِ تکمیل  دستاویز محفوظ کی  اور  'لیو فارم' کے مندرجات پُر کرنے لگا۔  وجے میرے دفتر میں خاکروب کا کام کرتا ہے اور اپنے لکھت پڑھت کے کام مجھ سے ہی کرواتا ہے۔  اسی لئے مجھے اس کا نام، ایمپلائی کوڈ  اور دیگر تفصیلات ازبر سی ہوگئی ہیں ۔

کیوں چُھٹی چاہیے؟"۔ فارم میں چھٹی کی وجہ  کے خانے تک پہنچ کر میں نے وجے سے پوچھا۔
سر ! وہ  رشتہ داروں کے ہاں جانا ہے ،  سوئم میں۔ کسی کا انتقال ہو گیا تھا"۔  وجے نے  سوچتے ہوئے بتایا۔
اچھا! تمھارے ہاں بھی سوئم ہوتا ہے؟" مجھے بڑی حیرت ہوئی۔
"ہاں سر! سوئم تو ہوتا ہے، کوئی مر جائے تو اس کے تیسرے دن۔" 
ہمم! اچھا کیا چالیسواں بھی ہوتا ہے؟" میں نے پُر خیال انداز میں پوچھا۔
جی سر! چالیسواں بھی ہوتا ہے اور سال مکمل ہونے پر برسی بھی ہوتی ہے"۔  اُس نے تفصیل سے بتایا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ خوشگوار حیرت۔

بھائی! آپ کو پتہ ہے وجے کمار مسلمان ہوگیا ہے۔" میں سب کو خوشی خوشی  بتا رہا تھا۔ "وجے کمار  مسلمان ہو گیا ہے" میں نے جمال صاحب کو بھی نوید سُنائی ۔ سب میری بات پر خوش بھی ہو رہے تھے اور حیران بھی۔
اچانک کسی نے مجھے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑ دیا۔ دیکھا تو خالد صاحب تھے۔
یہ تم سب سے کیا کہتے پھر رہے ہو، وجے مسلمان ہوگیا ہے" خالد صاحب نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔
جی! خالد صاحب، میں صحیح کہہ رہا ہوں۔ وجے کمار سے آج ہی میری بات ہوئی ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ وہ اور اُس کا خاندان ہماری ہی طرح ، مرنے والوں کا سوئم بھی کرتے ہیں، چالیسواں  بھی اور برسی بھی۔ اور کیسے ہوتے ہیں مسلمان؟
خالد صاحب نے مجھے عجیب سی نظر سے دیکھا اور کہا۔" ارے بے وقوف! وجے کمار مسلمان نہیں ہوا ۔ مسلمان ہندو ہوگئے ہیں"  اُن کے  لہجے کا غصّہ  اب تاسُف کا روپ دھار چکا تھا اور اُن کی آنکھیں اپنے پیروں کے پاس فرش پرگڑھی ہوئی تھیں۔

میں اب تک ششدر کھڑا اُن کا منہ تک رہا تھا۔


لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں

غزل

لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں
گو کہانی سی کہانی بھی نہیں

چاندنی ٹھہری تھی اِس آنگن میں کل
اب کوئی اس کی نشانی بھی نہیں

رابطہ ہے پر زماں سے ماورا
فاصلہ ہے اور مکانی بھی نہیں

حالِ دل کہنا بھی چاہتا ہے یہ دل
اور یہ خفّت اُٹھانی بھی نہیں

غم ہے لیکن روح پر طاری نہیں
شادمانی، شادمانی بھی نہیں

جس میں آخر ہنستے بستے ہیں سبھی
یہ کہانی، وہ کہانی بھی نہیں

کچھ کچھ اندازہ تھا اس دل کا مجھے
عشق ایسا ناگہانی بھی نہیں

یاد رہ جائے گی بس اک آدھ بات
داستاں یہ جاویدانی بھی نہیں

کل مری بستی میں اک سیلاب تھا
آج دریاؤں میں پانی بھی نہیں

گو ہماری ترجماں ہے یہ غزل
یہ ہماری ترجمانی بھی نہیں

محمد احمدؔ

جو سنتا ہوں کہوں گا میں ۔ انور شعورؔ کی دو غزلیں


انور شعور ؔ عہدِ حاضر کے اُن  شعراء میں سے ہیں جن کا کلام اُن کو بہت سے دوسرے ہم عصر شعراء  سے ممتاز کرتا ہے۔ انور شعور کے ہاں جو  بے ساختگی اور  بے باکی ہمیں ملتی ہے وہ دیگر  شعراء میں شاذ ہی نظر آتی ہے ۔ بے باکی کو  اشعار  میں برتنا ، وہ بھی ایسے کہ شعر کا فطری حسن  ، نزاکتِ خیال اور  نغمگی  متاثر نہ ہو، آسان ہرگز نہیں ہے لیکن انور شعور کے ہاں ایسے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں اور اُن کی قادر الکلامی پر دلالت کرتے ہیں۔   اُن کی دو خوبصورت غزلیں اہلِ  ذوق کی نذر کی جا رہی ہیں  جو  اپنی مثال آپ ہیں اور انور شعور کی  دل پزیر  شاعری کی  تمثیل بھی ہیں۔


غزل

توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے
حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے

جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں
اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے

دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں
لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے

خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے

تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا
ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے

درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر
ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے

لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے
جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے

کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب
زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ

چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے
اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے

انور شعورؔ

*******

جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں
ہمیشہ مجلسِ نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ ء سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے، اگر ویران بھی ہوگا
تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں
مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے
اندھیری رات! تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں، کسی سے پوچھ لوں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی
کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

اُداسی کی ہوائیں آج پھر چلنے لگیں؟ اچھا
تو بس آج اور پی لوں، کل سے قطعا` چھوڑ دوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آجائے
بساطِ وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

نہ لکھ پایا ترے دل میں اگر تحریرِ غم اپنی
تری ماتھے پہ اک گہری شکن ہی کھینچ دوں گا میں

کیا ہے گردشوں سے تنگ آ کر فیصلہ میں نے
کہ محنت کے علاوہ چاپلوسی بھی کروں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی
تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا، کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں
تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں

انور شعورؔ