غزل
لب لرزتے ہیں روانی بھی نہیں
گو کہانی سی کہانی بھی نہیں
چاندنی ٹھہری تھی اِس آنگن میں کل
اب کوئی اس کی نشانی بھی نہیں
رابطہ ہے پر زماں سے ماورا
فاصلہ ہے اور مکانی بھی نہیں
حالِ دل کہنا بھی چاہتا ہے یہ دل
اور یہ خفّت اُٹھانی بھی نہیں
غم ہے لیکن روح پر طاری نہیں
شادمانی، شادمانی بھی نہیں
جس میں آخر ہنستے بستے ہیں سبھی
یہ کہانی، وہ کہانی بھی نہیں
کچھ کچھ اندازہ تھا اس دل کا مجھے
عشق ایسا ناگہانی بھی نہیں
یاد رہ جائے گی بس اک آدھ بات
داستاں یہ جاویدانی بھی نہیں
کل مری بستی میں اک سیلاب تھا
آج دریاؤں میں پانی بھی نہیں
گو ہماری ترجماں ہے یہ غزل
یہ ہماری ترجمانی بھی نہیں
محمد احمدؔ
بهت خوب
جواب دیںحذف کریںابراہیم صاحب، رعنائیِ خیال پر خوش آمدید۔
جواب دیںحذف کریںاور غزل کی پسندیدگی کا شکریہ۔
خوش رہیے۔
خوب غزل ہے احمد صاحب، کیا کہنے۔
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ وارث بھائی۔
جواب دیںحذف کریں