کوّوں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرا کرتے



"یہ کون ہیں ؟"
"یہ طوطے ہیں"
"ان میں کیا خوبی ہے؟ "
"یہ طوطا چشم ہوتے ہیں"
"تو ان میں ہاتھی کی آنکھ تو ہونے سے رہی؟ طوطے ہیں تو طوطا چشم ہی ہوں گے"
"میرا مطلب ہے کہ یہ بہت جلدی آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔"
"اچھا! لیکن ایسی بھی کیا بے وفائی کرتے ہیں یہ؟"
"بس یہ ہوتے ہی بے وفا ہیں۔ آپ انہیں خوب کھلائیں پلائیں، محبت کے ساتھ رکھیں لیکن جس دن پنجرہ کھلا رہ گیا اُسی دن اُڑ جائیں گے اور پھر مُڑ کر بھی نہیں دیکھیں گے"
"اچھا! تو یہ اس لئے بے وفا ہیں کہ انہیں غلامی کی زندگی پسند نہیں؟"

"اور یہ کون ہیں؟"
"یہ ! یہ کوّے ہیں"
"ان میں کیا خاص بات ہے "
"ان میں کوئی خاص بات نہیں ، سوائے اس کے کہ یہ ہنس کی چال چلتے ہیں اور اپنی چال بھی بھول جاتے ہیں"
"اچھا تو ان کی مثال اُن مغرب زدہ لوگوں کی سی ہے جو انگریزی بولنے کی چاہ میں اردو بھی بھول جاتے ہیں۔"
"بات کچھ ایسی ہی ہے"
"کوّوں کو کوئی پنجرے میں بند نہیں کرتا ؟"
"نہیں بھائی یہ شور بہت مچاتے ہیں اس لئے کوئی انہیں بند کرنے کی جرات نہیں کرپاتا۔ "
"تو گویا یہ بھی "گو امریکہ گو" کی رٹ لگاتے ہیں؟"
"ارے نہیں بھائی یہ تو بس اپنی "کائیں کائیں " کی ریاضت کرتے ہیں ۔"
"یعنی فکر کی کوئی بات نہیں؟"
"نہیں بھائی فکر کی ہرگز کوئی بات نہیں۔ یوں بھی کوّوں کے کوسنے سے ڈھور (جانور) نہیں مرا کرتے!"


"اور یہ کون ہیں ؟"
"یہ مرغے ہیں۔"
"یہ کس کام آتے ہیں؟"
"انہیں خوب کھلا پلا کر موٹا تازہ کیا جاتا ہے پھر یہ وقت پڑنے پر ذبح کردیئے جاتے ہیں اور اپنے آقاؤں کی ضیافت کا سبب بنتے ہیں۔"
"یہ یقیناً وفادار ہوتے ہوں گے جبھی یہ کہیں نہیں جاتے۔ "
"ان کی خوش خوراکی انہیں وفادار رکھتی ہے۔ "

"اچھا تو کیا یہ پارلیمنٹ ہاؤس ہے؟"
"نہیں بھائی! آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے

نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا



غزل


نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا


مرے چارہ گرکو نوید ہو، صفِ دشمناں کو خبر کرو
و ہ جو قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا


کرو کج جبیں پہ سرِ کفن ، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا


اُدھر ایک حرف کے کشتنی ، یہاں لاکھ عذر تھا گفتنی
جو کہا تو ہنس کے اُڑا دیا ، جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا


جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یاد گار بنا دیا


فیض احمد فیض

Not all SMS are "Waste of Time"

I asked myself how to handle life’s affairs?


My room gave me perfect answer:


Roof said: Aim high
Fan: Be Cool
Clock: Value time
Calendar: Be up to date
Wallet: Save now for future
Mirror: Observe yourself
Wall: Share other’s load
Window: Expand the vision
Floor: Always be down-to-earth.


Thanks to Mr. Khurram, Ahsan Library

تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر نہیں ہے؟ وزارتِ صحت؟

گذشتہ شام ہم ایک دوست کے ساتھ بیٹھے ‘انڈائریکٹ اسموکنگ’ کر رہے تھے کہ باتوں کے درمیان ہم سگریٹ کی ڈبیہ اُٹھا کے اُس کا (سگریٹ کی ڈبیہ کا )ازسرِ نو جائزہ لینے لگے ۔ بڑی عجیب سی (شاید بُری لکھنا چاہیے تھا )عادت ہو چلی ہے کہ جب تک کسی چیز کا چاروں اور سے اچھی طرح جائزہ نہیں لے لیتے ہمیں چین ہی نہیں آتا۔ خیر ڈبیہ کی پُشت پر باریک حروف میں اردو میں لکھا تھا ‘تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر ہے’ ۔ لیکن نہیں! اُس پر ایسا کچھ نہیں تھا بلکہ شاید ہم وہاں یہ عبارت دیکھنا چاہ رہے تھے جو ہمیں وہاں نہیں ملی۔ ہمارے ایک دوست نے کہا تھا کہ ‘ہم وہی دیکھتے ہیں جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں’ شاید میر صاحب نے بھی یہی سوچ کر کہا ہوگا کہ

؂ یہ توہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

لیکن ہمارا تجربہ تو ہمیشہ اس کے برعکس ہی رہا ۔پھر بھی جتنے منہ کم از کم اُتنی باتیں تو ہونی ہی چاہیے سو ‘ دُنیا کب چپ رہتی ہے کہنے دو جو کہتی ہے ’۔

بہر حال سگریٹ کی ڈبیہ پر موجود عبارت کچھ یوں تھی۔



















یہ پڑھ کر تو فوراً دل یہی چاہا کہ کاش ہم بھی بچے ہوتے اور اس ‘پروٹیکشن زون’ میں ہی کہیں پائے جاتے ۔

بہر کیف ہم نے اس کا مطلب یہی لیا کہ یا تو شاید‘ اب تمباکو نوشی صحت کے لئے مضر نہیں ہے’

یا آپڑی یہ شرم کے تکرار کیا کریں

(‘یاں’ کا نون غنہ ہم نے از خود حذف کردیا ہے اسے ٹائپو نہ سمجھا جائے)


وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

غزل

شکستہ پر ، شکستہ جان و تن ہوں
مگر پرواز میں اپنی مگن ہوں

خود اپنی دھوپ میں جلتا رہا ہوں
خود اپنی ذات پر سایہ فگن ہوں

میں دیواروں سے باتیں کر رہا ہوں
وہ کہتے ہیں میں کتنا کم سخن ہوں

وہ کب کا منزلوں کا ہو چکا ہے
میں جس کا منتظر ہوں خیمہ زن ہوں

بلا کی دھوپ نے چٹخا دیا ہے
میں جیسے کچی مٹی کا بدن ہوں

ستمگر ہو کہ بھی شکوہ کناں وہ
یہ میں ہوں کہ جبینِ بے شکن ہوں

یہ میں کیا ہو گیا ہوں تجھ سے مل کر
کہ خوشبو ہوں، ستارہ ہوں، پون ہوں

جنوں کی اک گرہ مجھ پر کھلی ہے
تو سرشاری کے خط پر گامزن ہوں

رہی ہجرت سدا منسوب مجھ سے
وطن میں ہو کے احمد بے وطن ہوں

محمد احمدؔ

اُسے فرصت نہیں ملتی ۔ برائے ہفتہ بلاگستان یومِ مزاح

ایسا مہینے میں ایک آدھ بار تو ضرور ہی ہوتا ہے کہ ہمیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اُن کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا ہے پھر بھی موصوف ہماری اس سعادت مندی کو ہرگز خاطر میں نہیں لاتے بلکہ خاطر میں لانا تو ایک طرف جناب تو ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ اس سے پہلے کے آپ کے ذہن میں ہمارے اور اُن کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے سر اُٹھائیں ہم آپ کو بتا ہی دیں کہ آج ہم اپنے زلف تراش کا رونا رو رہے ہیں۔ زلف تراش کی ترکیب شاید آپ کو اچھی نہ لگے یا پھر آپ کو اس میں تصنّعُ کا پہلو نظر آئے۔ لیکن کیا کیجے کہ اس مقام پر ہم بھی بے حد مجبور ہیں کہ یا تو ’ ہئیر ڈریسر ‘ لکھ کرزبانِ غیر میں شرح ِ آرزو کے مجرم ٹھہریں یا ’حجام‘ جیسا کریہہ لفظ استعمال کرکے اپنے ہی ہاتھوں ، مطلب اُن کے ہاتھوں اپنی حجامت کا بندوبست کریں۔ گو کہ ہم یہاں اسی واسطے آتے ہیں لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کس قسم کی حجامت کے ذکر ِ شر سے خوفزدہ ہیں۔

یہاں آپ کو شاید اتنی ہی اہمیت ملے جتنی زرداری صاحب کو چائنہ میں ملی، یا شاید اس سے تھوڑی سی زیادہ مل جائے ، لیکن اس سے زیادہ کی توقع مت رکھیے گا کہ نام تو موصوف کا ’ویلہ ہیئر ڈریسر‘ ہے لیکن مجال ہے جو کبھی آپ کو ویلے(فارغ) نظر آئیں۔ آپ جب بھی پہنچیں کوئی نہ کوئی اُن کے زیرِ عتاب نظر آئے گا ۔ اول تو آپ اُنہیں نظر ہی نہیں آئیں گے لیکن اگر انہوں نے آپ کو دیکھ لیا تو پھر آپ کی خیر نہیں فوراً اُسترا ہاتھ میں لئے بیٹھنے کا اشارہ کریں گے ۔ اُن کے جان لیوا تیور اور اُسترے کی چمک دمک دیکھ کر آپ چاہیں بھی تو یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو کب تک اُن کے تختہٗ مشق تک رسائی ہوسکے گی ۔ چار و نا چار انتظار گاہ یعنی سہ افرادی نشست پر براجمان ہونے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ، بشرط کہ وہاں آپ کے لئے جگہ بھی ہو۔

کہتے ہیں زبان بند رہے تو دماغ اچھی طرح کام کرتا ہے ، یہاں آپ کو بھی اسی کلیہ کا استعمال کرنا ہوگا۔ پہلے سے موجود انتظار کنندگان کی تعداد اور اُن کے تاثُرات سے آپ بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ آپ کو کب تک انتظار کی راہ دیکھنی ہوگی۔ لیکن بے فکر رہیے انتظار کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو یہاں آپ بیزار ہرگز نہیں ہوں گے۔ چائے کا کپ مکھیوں سمیت اُٹھا کے اُس کے نیچے سے آج کا تازہ اخبار نکال لیجیے ۔ ارے رے رے ! ذرا دھیان سے ۔کہیں چائے کی باقیات آپ کو بھی ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں ‘ کا راگ الاپنے پر مجبور نہ کردے۔ بس یوں کیجیے ، اخبار کو اس کے دائیں بائیں کونوں سے تھامیئے اور چائے کو کششِ ثقل کے حوالے کردیجیے۔ لیجیے جناب اب آپ آرام سے بیٹھ کر اپنا فشارِ خون اپنی خودی سے بھی بلند کرسکتے ہیں۔بس پڑھتے جائیں ، کوئی بات نہیں اگر آپ کی تیوریاں چڑھ جائیں یا کانوں سےدھواں نکلنا شروع ہو جائے۔ کوئی بات نہیں! جو دل میں آرہا ہے کہہ دیجیے ، پر دل میں ہی کہئے گا کہ آپ کے اخلاق کو آپ سے بہتر کوئی اور نہ سمجھ سکے۔

اگر آپ پہلے سے بلند فشارِ خون جیسے مرض میں مبتلا ہیں تو پھرتا زہ اخبار آپ کے لئے ہرگز موزوں نہیں ۔ فکر نہ کیجیے، یہ لیجے ’اخبارِ جہاں‘ پڑھیئے، بالکل نیا ہے ابھی دو سال پہلے ہی ردی والے سے خریدا گیا ہے۔ کیا! بیچ کا صفحہ غائب ہے، ارے نہیں ! ایسا نہیں ہے، بس ذرا سامنے دیکھیے ۔ جی آئینہ کے اُوپر ! جی بالکل! دوکان میں آتے ہی آپ بیچ کے صفحے کی زیارت بلکہ تفصیلی معائنہ کر چکے ہیں ۔ کوئی بات نہیں اس میں اور بھی بہت کچھ ہے ’تین عورتیں،تین۔۔۔۔‘ اچھا اچھا! آپ ’کٹ پیس‘ تک پہنچ گئے ہیں۔ اچھا ہے ، ’کٹ پیس‘ اپنے گرد وپیش سے بےخبر رہنے کے لئے اچھی چیز ہے۔ لیکن بہت زیادہ بے خبر بھی مت رہیے ۔ کم از کم اتنا ضرور یاد رکھیے گا کہ آپ کے بعد کون کون آیا ہے ورنہ اقربا پروری تو کہیں بھی راہ نکال لیتی ہے۔

’ویلہ ہئیر ڈریسر ‘ کی انتظار گاہ صرف دار المطالعہ ہی نہیں درس گاہ بھی ہے ۔ وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ ’سیانوں کے ساتھ ایک گھنٹے کی ملاقات دس مہینے کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے‘۔یہاں بھی آپ کو ایسی ایسی گفتگو سُننے کو ملے گی کہ آپ دس مہینے تو کیا دس سال بھی کتابیں پڑھتے رہیں تو وہ سب کچھ نہیں سیکھ سکیں گے۔ لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہ سب کچھ آپ سیکھ تو سکتے ہیں پر کسی کو سکھانے کی کوشش مت کیجیے گا کہ یہ کام سیانوں کا ہے اور وہ اپنا کام خوب جانتے ہیں ۔

اب ذرا سنبھل جائیں کہ آپ کی زلفِ دراز کی دست درازیوں کو لگام دینے کا وقت آگیا ہے۔ یعنی اب جگر تھام کے خود کو اُن کے حوالے کر دیجیے بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ اللہ کے حوالے کردیجیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ زلف تراش کا تیز اور چمکدار اُسترا بھی یہی کچھ کرنا چاہے۔ زلف تراش کسی سے بات کرے یا نہ کرے لیکن اپنے فتراک کے نخچیر (یہاں مراد تختہٗ مشق تک پہنچ جانے والے سورما سے ہے ) سے ضرور ہم کلام رہتا ہے۔ ہم سے بھی مکالمہ رہا اور کچھ یوں رہا۔

"ارے بھائی ! اس دفعہ بال کچھ زیاد ہی نہیں بڑھ گئے آپ کے" پانی کی بوچھار کے ساتھ پوچھا گیا۔
"جی کچھ مصروفیت زیادہ رہی، ویسے پچھلی دفعہ سے آپ کے ریٹس (نرخ) بھی تو بڑھ گئے ہیں" باقی ماندہ جملہ دل میں کہا گیا۔
’دل میں جو بات ہے ، کہہ دو‘ اچانک کسی نے کیسٹ پلئر کھول دیا اور ایسا لگا کہ شاید دل کا چور پکڑا گیا لیکن اگلا مصرع اطمینان بخش رہا کہ زبانِ افرنگ میں تھا اورسمجھ میں آگیا کہ نہیں سمجھ آئے گا۔
ابھی تک قینچی ہوا میں چل رہی ہے ، شاید ہمیں ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے ۔ چمچماتا ہو ا اُستر ا بھی آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہا ہے۔ اور ہم اپنے خطاہوتے ہوئے اوسان کی دھوپ چھاؤں میں آنکھیں پٹپٹارہے ہیں اور اس کار گزاری کی گاڑی کے جلدی سے گزر جانےکی دعامیں لگے ہیں کہ اچانک سامنے نگاہ پڑتی ہے۔
"یہ صاحب کون ہیں جو مجھے احمقوں کی طرح گھور رہے ہیں " ہم نے زلف تراش کو مخاطب کرکے سامنے اشارہ کیا۔
زلف تراش کے چہرے پرپہلے حیرانی اور پھر مسکراہٹ نے ڈیرہ جمالیا تاہم وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ اور ہم آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔

حصہ (ایک سادہ سی نظم ) ۔ برائے یومِ تعلیم ۔ ہفتہ بلاگستان

اظہارِ تاسف کے بہت سے مواقع ہماری زندگی میں آتے ہیں اوراکثر ہمیں اس بات کا ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ہمارا لمحاتی اظہارِ رنج کسی کی محرومی پر ہے یا اپنی نا اہلی پر۔ یہاں کہیں کہیں امید کے موہوم ستارے موجود ہوتے ہیں جنہیں اپنائیت کا عدسہ لگائے بغیر دیکھنا ممکن نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ جو بات کسی کے لئے نا ممکنات میں سے ہو ہمارے ذرائع اور وسائل کے لحاظ سے انتہائی معمولی ہو۔

اگر ہمارے ارد گرد پھیلے مناظرِ فطرت اور زندگی کی رنگا رنگی میں ہمارا بھرپور حصہ ہے تو پھر حسن و زندگی کے عدم توازن پر تشویش بھی ہمارا فرض ہے۔ اور یوں بھی خوابوں کے عکس میں تعبیروں کے رنگ بھرنے سے جو سرخوشی اور سرشاری نصیب ہوتی ہے وہ اور کسی طرح ممکن ہی نہیں۔ خواب ہمارے ہوں یا کسی اور کے خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔
جاگتی آنکھوں کے کچے رنگوں سے گندھے ایک خواب کی کہانی (ایک سادہ سی نظم )پیشِ خدمت ہے ۔گر قبول افتد زہے عزّو شرف۔۔۔


کوئلے سے دیواریں کالی کرتا ہے
اس بچے کے پاس قلم نہ بستہ ہے

ایک کتاب چُرا لایا ہے آج بھی وہ
آج بھی سب سے چھپ کر اُس کو تکتا ہے

اُجلے پیراہن میں ہنستے بچوں کو
روز مدرسے جا کر دیکھا کرتا ہے

کیا میں بھی اک روز مدرسے جاؤں گا
روز سویرے اُٹھ کر سوچا کرتا ہے

آنکھوں میں قندیلیں جلتی رہتی ہیں
چہرے پر اک سایہ لرزاں رہتا ہے

جس قطرے کو ہوا اُڑائے پھرتی ہے
سیپ میں ہو تو موتی بھی ہو سکتا ہے

کوئلے سے لکھی تحریریں پوچھتی ہیں
اس بچے سے کس کا کیا کیا رشتہ ہے

مانا اپنے خوابوں میں وہ تنہا ہے
تعبیروں میں تو ہم سب کا حصّہ ہے

محمد احمدؔ



۔ یہ نظم اس سے پیشتر جنوری 2008 میں محفلِ سُخن میں بھی پیش کی جاچکی ہے
۔ لفظ "مدرسہ" کو غلط العام تلفظ پر باندھنے پر اہلِ فن سےمعذرت۔