ایسا مہینے میں ایک آدھ بار تو ضرور ہی ہوتا ہے کہ ہمیں چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اُن کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا ہے پھر بھی موصوف ہماری اس سعادت مندی کو ہرگز خاطر میں نہیں لاتے بلکہ خاطر میں لانا تو ایک طرف جناب تو ہماری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ اس سے پہلے کے آپ کے ذہن میں ہمارے اور اُن کے بارے میں طرح طرح کے وسوسے سر اُٹھائیں ہم آپ کو بتا ہی دیں کہ آج ہم اپنے زلف تراش کا رونا رو رہے ہیں۔ زلف تراش کی ترکیب شاید آپ کو اچھی نہ لگے یا پھر آپ کو اس میں تصنّعُ کا پہلو نظر آئے۔ لیکن کیا کیجے کہ اس مقام پر ہم بھی بے حد مجبور ہیں کہ یا تو ’ ہئیر ڈریسر ‘ لکھ کرزبانِ غیر میں شرح ِ آرزو کے مجرم ٹھہریں یا ’حجام‘ جیسا کریہہ لفظ استعمال کرکے اپنے ہی ہاتھوں ، مطلب اُن کے ہاتھوں اپنی حجامت کا بندوبست کریں۔ گو کہ ہم یہاں اسی واسطے آتے ہیں لیکن آپ تو جانتے ہیں کہ ہم کس قسم کی حجامت کے ذکر ِ شر سے خوفزدہ ہیں۔
یہاں آپ کو شاید اتنی ہی اہمیت ملے جتنی زرداری صاحب کو چائنہ میں ملی، یا شاید اس سے تھوڑی سی زیادہ مل جائے ، لیکن اس سے زیادہ کی توقع مت رکھیے گا کہ نام تو موصوف کا ’ویلہ ہیئر ڈریسر‘ ہے لیکن مجال ہے جو کبھی آپ کو ویلے(فارغ) نظر آئیں۔ آپ جب بھی پہنچیں کوئی نہ کوئی اُن کے زیرِ عتاب نظر آئے گا ۔ اول تو آپ اُنہیں نظر ہی نہیں آئیں گے لیکن اگر انہوں نے آپ کو دیکھ لیا تو پھر آپ کی خیر نہیں فوراً اُسترا ہاتھ میں لئے بیٹھنے کا اشارہ کریں گے ۔ اُن کے جان لیوا تیور اور اُسترے کی چمک دمک دیکھ کر آپ چاہیں بھی تو یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کر سکیں گے کہ آپ کو کب تک اُن کے تختہٗ مشق تک رسائی ہوسکے گی ۔ چار و نا چار انتظار گاہ یعنی سہ افرادی نشست پر براجمان ہونے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ، بشرط کہ وہاں آپ کے لئے جگہ بھی ہو۔
کہتے ہیں زبان بند رہے تو دماغ اچھی طرح کام کرتا ہے ، یہاں آپ کو بھی اسی کلیہ کا استعمال کرنا ہوگا۔ پہلے سے موجود انتظار کنندگان کی تعداد اور اُن کے تاثُرات سے آپ بخوبی اندازہ لگا لیں گے کہ آپ کو کب تک انتظار کی راہ دیکھنی ہوگی۔ لیکن بے فکر رہیے انتظار کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو یہاں آپ بیزار ہرگز نہیں ہوں گے۔ چائے کا کپ مکھیوں سمیت اُٹھا کے اُس کے نیچے سے آج کا تازہ اخبار نکال لیجیے ۔ ارے رے رے ! ذرا دھیان سے ۔کہیں چائے کی باقیات آپ کو بھی ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں ‘ کا راگ الاپنے پر مجبور نہ کردے۔ بس یوں کیجیے ، اخبار کو اس کے دائیں بائیں کونوں سے تھامیئے اور چائے کو کششِ ثقل کے حوالے کردیجیے۔ لیجیے جناب اب آپ آرام سے بیٹھ کر اپنا فشارِ خون اپنی خودی سے بھی بلند کرسکتے ہیں۔بس پڑھتے جائیں ، کوئی بات نہیں اگر آپ کی تیوریاں چڑھ جائیں یا کانوں سےدھواں نکلنا شروع ہو جائے۔ کوئی بات نہیں! جو دل میں آرہا ہے کہہ دیجیے ، پر دل میں ہی کہئے گا کہ آپ کے اخلاق کو آپ سے بہتر کوئی اور نہ سمجھ سکے۔
اگر آپ پہلے سے بلند فشارِ خون جیسے مرض میں مبتلا ہیں تو پھرتا زہ اخبار آپ کے لئے ہرگز موزوں نہیں ۔ فکر نہ کیجیے، یہ لیجے ’اخبارِ جہاں‘ پڑھیئے، بالکل نیا ہے ابھی دو سال پہلے ہی ردی والے سے خریدا گیا ہے۔ کیا! بیچ کا صفحہ غائب ہے، ارے نہیں ! ایسا نہیں ہے، بس ذرا سامنے دیکھیے ۔ جی آئینہ کے اُوپر ! جی بالکل! دوکان میں آتے ہی آپ بیچ کے صفحے کی زیارت بلکہ تفصیلی معائنہ کر چکے ہیں ۔ کوئی بات نہیں اس میں اور بھی بہت کچھ ہے ’تین عورتیں،تین۔۔۔۔‘ اچھا اچھا! آپ ’کٹ پیس‘ تک پہنچ گئے ہیں۔ اچھا ہے ، ’کٹ پیس‘ اپنے گرد وپیش سے بےخبر رہنے کے لئے اچھی چیز ہے۔ لیکن بہت زیادہ بے خبر بھی مت رہیے ۔ کم از کم اتنا ضرور یاد رکھیے گا کہ آپ کے بعد کون کون آیا ہے ورنہ اقربا پروری تو کہیں بھی راہ نکال لیتی ہے۔
’ویلہ ہئیر ڈریسر ‘ کی انتظار گاہ صرف دار المطالعہ ہی نہیں درس گاہ بھی ہے ۔ وہ کیا کہا ہے کسی نے کہ ’سیانوں کے ساتھ ایک گھنٹے کی ملاقات دس مہینے کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے‘۔یہاں بھی آپ کو ایسی ایسی گفتگو سُننے کو ملے گی کہ آپ دس مہینے تو کیا دس سال بھی کتابیں پڑھتے رہیں تو وہ سب کچھ نہیں سیکھ سکیں گے۔ لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہ سب کچھ آپ سیکھ تو سکتے ہیں پر کسی کو سکھانے کی کوشش مت کیجیے گا کہ یہ کام سیانوں کا ہے اور وہ اپنا کام خوب جانتے ہیں ۔
اب ذرا سنبھل جائیں کہ آپ کی زلفِ دراز کی دست درازیوں کو لگام دینے کا وقت آگیا ہے۔ یعنی اب جگر تھام کے خود کو اُن کے حوالے کر دیجیے بلکہ زیادہ بہتر ہو گا کہ اللہ کے حوالے کردیجیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ زلف تراش کا تیز اور چمکدار اُسترا بھی یہی کچھ کرنا چاہے۔ زلف تراش کسی سے بات کرے یا نہ کرے لیکن اپنے فتراک کے نخچیر (یہاں مراد تختہٗ مشق تک پہنچ جانے والے سورما سے ہے ) سے ضرور ہم کلام رہتا ہے۔ ہم سے بھی مکالمہ رہا اور کچھ یوں رہا۔
"ارے بھائی ! اس دفعہ بال کچھ زیاد ہی نہیں بڑھ گئے آپ کے" پانی کی بوچھار کے ساتھ پوچھا گیا۔
"جی کچھ مصروفیت زیادہ رہی، ویسے پچھلی دفعہ سے آپ کے ریٹس (نرخ) بھی تو بڑھ گئے ہیں" باقی ماندہ جملہ دل میں کہا گیا۔
’دل میں جو بات ہے ، کہہ دو‘ اچانک کسی نے کیسٹ پلئر کھول دیا اور ایسا لگا کہ شاید دل کا چور پکڑا گیا لیکن اگلا مصرع اطمینان بخش رہا کہ زبانِ افرنگ میں تھا اورسمجھ میں آگیا کہ نہیں سمجھ آئے گا۔
ابھی تک قینچی ہوا میں چل رہی ہے ، شاید ہمیں ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے ۔ چمچماتا ہو ا اُستر ا بھی آنکھوں کو خیرہ کئے دے رہا ہے۔ اور ہم اپنے خطاہوتے ہوئے اوسان کی دھوپ چھاؤں میں آنکھیں پٹپٹارہے ہیں اور اس کار گزاری کی گاڑی کے جلدی سے گزر جانےکی دعامیں لگے ہیں کہ اچانک سامنے نگاہ پڑتی ہے۔
"یہ صاحب کون ہیں جو مجھے احمقوں کی طرح گھور رہے ہیں " ہم نے زلف تراش کو مخاطب کرکے سامنے اشارہ کیا۔
زلف تراش کے چہرے پرپہلے حیرانی اور پھر مسکراہٹ نے ڈیرہ جمالیا تاہم وہ اپنے کام میں مصروف رہا۔ اور ہم آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
زبردست تحریر۔ زرداری کے چین کے دورے کی مثال بہت اچھی لگی۔
جواب دیںحذف کریںساری تحریر ہی اچھی ہے مگر تحریر کا آخری پیرا شاندار لکھا ہے ۔ ایک اور اچھی تحریر پر مبارک باد
جواب دیںحذف کریںبہت عمدہ لکھا ہے۔۔ ماشاء اللہ
جواب دیںحذف کریںبہت مزیدار
جواب دیںحذف کریںچنگے بھلے گٹس پائے جاتے ہیں آپ میں مزاح نگاری کے اور آپ ہمیں دوسری اقسام کی تحریروں میں پھنسائے رکھتے ہیں
میرا پاکستان،
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ، قدر و منزلت اور اہمیت کے حوالے سے پہلی قریب ترین مثال صدرِ مملکت کے چائنہ کے دورے کی ہی ذہن میں آئی سو وہ ہی داغ دی. (-:
کنفیوز کامی اور راشد کامران صاحب،
تحریر کی پسندیدگی کا شکریہ!
ڈفر بھیا!
یہ آپ کا حسنِ ظن ہے جو آپ نے اس تحریر کو کسی قابل سمجھا پر میرے لئے یہ جز وقتی ہی ہے،
یوں سمجھیے کہ جب طبیعت واقعتاً اس قابل ہوتی ہے تو ہلکی پھلکی تحریریں از خود ہو جاتی ہیں۔ ۔
آپ کی توجہ کا شکریہ!
جن لوگوں کو مستقل لکھنا چاہئے
جواب دیںحذف کریںوہ سستی کرتے ہیں جیسے آپ
اور جنہیں لکھنا ہی نہیں چاہئے
وہ روز کوئی نہ کوئی لچ تلتے ہیں
جیسے میں
واہ بہت عمدہ تحریر ہے احمد صاحب، آپ بہت ترقی کریں گے یقینن
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ جعفر بھائی!
جواب دیںحذف کریںآپ نے ٹھیک پہچانا میں یوں بھی بہت سست ہوں اور لکھتا بھی جب ہی ہوں جب مجھے لگتا ہے کہ اب ضرور لکھنا چاہیے.
آپ جلدی جلدی تو لکھتے ہیں پر اچھا لکھتے ہیں، سو آپ کی اسی رفتار اور گفتار کی ہم سب کو عادت سی ہو گئی ہے.
بہت شکریہ یاسر عمران صاحب،
جواب دیںحذف کریںآپ کی محبت کے لئے ممنون ہوں
کسی زمانہ میں نائی جسے آجک بہت سے انگریزی نام ديۓے گئے ہیں سب سے زیادہ علم العام رکھتا تھا ۔ خبر رسانی ۔ دیگ پکانا اور جراحی بشمول ختنے بھی کرتا تھا ۔
جواب دیںحذف کریںافتخار اجمل بھوپال صاحب،
جواب دیںحذف کریںآپ کی توجہ اور معلومات بہم پہنچانے کا شکریہ !