روشن و رخشاں، نیّر وتاباں ، پاکستان رہے

آج اگست کی پہلی تاریخ ہے یعنی جشنِ آزادی پاکستان کا مہینہ شروع ہو گیا ہے۔ اسی مناسبت سے آج ایک ملی نغمہ آپ کی سب کی نظر کر رہا ہوں کہ یہ مجھے بہت پسند ہے۔ یہ ملی نغمہ بھی ہے اور دعا بھی ساتھ ساتھ عہدِ طفلی کی یاد گار بھی۔ گو کہ ملک کے حالات دگر گوں ہیں اور مسائل کی بھرمار ہے لیکن پھر بھی مجھے یقین ہے کہ
؂ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اس خوبصورت نغمہ کے شاعر کے بارے میں خاکسار لا علم ہے جس کے لئے پیشگی معذرت ۔ اس نغمہ کو حبیب ولی محمد نے گایا ہے اور کیا ہی خوب گایا ہے۔

روشن و رخشاں، نیّر وتاباں ، پاکستان رہے
جب تک سورج چاند ہے باقی، جب تک باقی جہان رہے ہے

پاکستان کا گوشہ گوشہ ،گلی گلی آباد رہے
پاکستان کا بچہ بچہ، شاد رہے ،آزاد رہے
آنکھیں ہوں خوابوں سے روشن، سینوں میں ایمان رہے

روشن و رخشاں نیّر وتاباں پاکستان رہے
جب تک سورج چاند ہے باقی، جب تک باقی جہان رہے ہے

اس کے پہاڑوں دریاؤں پر ، میدانوں ، صحراؤں پر
اس کے ہرے بھرے شہروں پر ، ہر قریئے، ہر گاؤں پر
اللہ تیری رحمت برسے ، تیرا کرم ہر آن رہے

روشن و رخشاں، نیّر وتاباں ، پاکستان رہے
جب تک سورج چاند ہے باقی، جب تک باقی جہان رہے ہے


روشن و رخشاں، نیّر وتاباں ، پاکستان رہے ۔ حبیب ولی محمد





روشن و رخشاں، نیّر وتاباں ، پاکستان رہے ۔ ٹینا ثانی




اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے

غزل

اگرچہ وقت کے تیور کڑے تھے
مگر ہم زندگی سے کب لڑے تھے

فرارِ زیست ممکن ہی نہیں تھا
شجر کے پاؤں مٹی میں گڑے تھے

محبت بھی وہی، دنیا وہی تھی
وہی دریا، وہی کچے گھڑے تھے

وہ کب کا جا چکا تھا زندگی سے
مگر ہم بانہیں پھیلائے کھڑے تھے

اور اب تو موم سے بھی نرم ہیں ہم
کوئی دن تھے کہ ہم ضد پر اڑے تھے

رہا سر پر سلامت غم کا سورج
کم از کم اپنے سائے سے بڑے تھے

سراسیمہ سی کیوں تھی ساری بستی
بھنور تو دور دریا میں پڑے تھے

ملا وہ، کہہ رہا تھا خوش بہت ہوں
مگر آنکھوں تلے حلقے پڑے تھے

تو کیا تم نے ہمیں دھوکے میں رکھا
وفا بھی تھی یا افسانے گھڑے تھے

خزاں پہلے پہل آئی تھی اُس دن
وہ بچھڑا تو بہت پتے جھڑے تھے

وفا، مہر و مروت اور یہ دنیا
ہماری عقل پر پتھر پڑے تھے

شبِ فرقت ستارے تھے کہ آنسو
نگینے خلعتِ شب میں جڑے تھے

ہمیں احمد صبا نے پھر نہ دیکھا
کہ ہم برگِ خزاں آسا پڑے تھے

محمداحمد

....بارشوں کے موسم میں

کئی دنوں کے حبس کے بعد آج کراچی بھی جل تھل ہو ہی گیا، صبح صبح بارش ہوگئی ۔ موسم اچھا ہو جائے تو سب کچھ اچھا لگتا ہے ۔ پھر خاص طور پر بارش تو اپنا الگ ہی رنگ رکھتی ہے۔ قطعِ نظر اس بات کے کہ بارش سے کیا کیا مسائل اور پریشانیاں جنم لیتی ہیں یہ بات بھی بالکل بجا ہے بارش دلوں کے اندر تک سرائیت کرنا جانتی ہے ۔ دل میں پہنچنے کے بعد اس کا پہلا حدف دل میں موجود یادوں کی لائیبریری ہوتا ہے ۔بہت کچھ یاد آنے لگتا ہے اپنے قریبی لوگوں کے ساتھ گزارا ہوا خوبصورت وقت ، بہت اچھی اچھی باتیں اور یادیں ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ نہ جانے کون کون سے دکھ بھی خود رو پودوں کی طرح نکل آتے ہیں اور ہر طرف ہریالی ہی ہریالی پھیلا دیتے ہیں ۔ یہ ہریالی اور نیلا دُھلا دُھلایا آسمان جو منظر پیش کرتا ہے وہ اُداس تو ضرور کرتا ہے لیکن اُس کا بھی اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔

بارشوں میں کھانے پینے کا بھی الگ ہی مزہ ہے ۔ لوگ طرح طرح کے اہتمام کرتے ہیں، مجھے آج تک یاد ہے آج سے ایک آدھ سال اُدھر میں ایک مقامی پارک میں دوستوں کے ساتھ موجود تھا اور چائے سے شغل میں مصروف تھا کہ اچانک بارش ہو گئی اور بارش بھی ٹھیک ٹھاک، اس بارش کے طفیل اُس چائے میں اچھی خاصی برکت ہوگئی لیکن پھر بھی میں نے اُ س چائے کو چھوڑا نہیں اور اُس چائے نے اتنا لطف دیا کہ آج بھی یاد آتی ہے۔

خوبصورت موسم اور برکھا برسات شعر و سخن کے لئے بھی بہت ہی ساز گار ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تو خیالات بارش کی بوندوں سے بھی تیز تر ہو جاتے ہیں ، اور ان میں سے بھی اکثر خیالات شاعرانہ قالب میں ڈھلے ڈھلائے ہی ہوتے ہیں۔ لیکن ایسا بھی شاذ ہی ہوتا ہے کہ اگر یہ سارے لوازمات میسّر آبھی جائیں تو بھی فرصت کی کمی ضرور رہتی ہے۔

بہر کیف، اس طرح کا موسم جب بھی ہوتا ہے ، مجھے پروین شاکر کی یہ خوبصورت نظم ضرور یاد آتی ہے۔

پیشکش


اتنے اچھے موسم میں
روٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اُٹھا رکھیں
آج دوستی کرلیں

پروین شاکر۔

اور ایک یہ قطعہ بھی ۔

موسم تھا بے قرار، تمھیں سوچتے رہے
کل رات بار بار، تمھیں سوچتے رہے
بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم
چُپ چاپ ، سوگوار تمھیں سوچتے رہے

شاعرنامعلوم

اگر آپ بھی کراچی میں ہیں تو بارش کے لطف کو شکائتوں میں مت گنوائیے گا۔

تمھیں کیا....! از محسن نقوی

تمھیں کیا؟

تمھیں کیا۔۔۔
زندگی جیسی بھی ہے
تم نے تو اِس کی ہر ادا سے رنگ کی موجیں نچوڑی ہیں
تمھیں تو ٹوٹ کر چاہا گیا۔۔۔ چہروں کے میلے میں
محبت کی شفق برسی تمھارے خال و خد پر
آئنے چمکے تمھاری دید سے
خوشبو تمھارے پیرہن کی ہر شکن سے
اِذن لے کر ہر طرف وحشت لُٹاتی تھی
تمھارے چاہنے والوں کے جھرمٹ میں۔۔۔
سبھی آنکھیں تمھارے عارض و لب کی کنیزیں تھیں!
تمھیں کیا۔۔۔
تم نے ہر موسم کی شہ رگ میں اُنڈیلے ذائقے اپنے
تمھیں کیا۔۔۔
تم نے کب سوچا؟
کہ چیزوں سے اٹی دنیا میں، تنہا سانس لیتی
ہانپتی راتوں کے بے گھر ہم سفر
کتنی مشقت سےگریبانِ سحر کے چاک سیتے ہیں؟
تمھیں کیا۔۔۔!
تم نے کب سوچا؟
کہ تنہائی کے جنگل میں۔۔۔
سیہ لمحوں کی چبھتی کرچیوں سے کون کھیلا ہے؟
تمھیں کیا؟
تم نے کب سوچا۔۔۔۔
کہ چیزوں سے اٹی دُنیا میں
کس کا دل اکیلا ہے؟


محسن نقوی

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو ۔ اقبال عظیم

غزل

یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعاکرو، نہ دوا کرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آلگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو

میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو

جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
یہ تمھارے خط ہیں سنبھال لو، جو مرے خطوط ہوں پھاڑ دو

جو کوئی کسی کو ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اُصول کی بات ہے جو خفا ہو مجھ سے تو کوئی ہو

اقبال عظیم

بس کہ دشوار ہے (ہم اور غالب) - فکاہیہ مضمون

یہ تحریر تقریباً ایک ڈیڑھ سال پُرانی ہے، سوچا بلاگ کے قارئین کے لئے بھی اسے پیش کردیا جائے۔ ملاحظہ فرمائیے ۔۔۔

بس کہ دشوار ہے۔۔۔


غالباً یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے جب محفل (یہاں مراد محفلِ سخن سے ہے) میں ایک شعر برائے تشریح پیش ہوا ، شعر غالب کا تھا اورکچھ یوں تھا۔

؂ رگ سنگ سے ٹپکتا ، وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرارہوتا


ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس شعر کی تشریح کی جائے، بہت عقل کے گھوڑے دوڑائے مگر کچھ بن نہ پڑا ، شعر کے مفاہیم تو خیر ہم پر کیا کھلتے خود ہمارا ہی پول کھلا چاہتا تھا۔ قریب تھا کہ ہمیں اچانک ڈھیر ساری شرمندگی محسوس ہوتی کہ ایسے کڑے وقت میں غالب ہی کے ایک شعر نے آکر سنبھالا دیا۔ بروقت یاد آنے والا شعر یہ تھا۔

؂ آگہی دامِ شنیدن ، جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا


بس پھر کیا تھا ہماری فطری ڈھٹائی عود کر آئی اور رعونتِ جہل سے لبریز ایک مسکراہٹ ہمارے ہونٹوں پہ کھیلنے لگی ہم نے بڑی شان سے سوچا کہ جب شاعرِموصوف سے اس قسم کا دعویٰ سرزد ہو ہی گیا ہے تو اُسے نبھانے کہ لیے کچھ نہ کچھ ترجیحات تو شعر گوئی میں بھی ملحوظِ خاطر رکھی ہوں گی ورنہ مدعا اتنا بھی عنقا نہیں رہتا جتنا کہ اب تھا ۔ اس خود ساختہ اور کسی حد تک بے ساختہ تسلّی سے دل کو گوں نا گوں اطمینان نصیب ہوا، اور ہم نے سوچا کہ ہم خواہ مخواہ ہی خود کو لعن طعن کرتے(اگر کرتے تو)۔ بہرحال اطمینانِ قلب
بڑی چیز ہے اور یہ نادر شے ہاتھ آہی گئی تو سوچا کہ اس سے پہلے کہ ہم بھی بوئے گل ، نالۂ دل اور دودِ چراغِ محفل کی فہرست میں شامل ہو جائیں اس نئے اطمینان کے جِلو میں پھر سے شعر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں سو ہم پھر سے غالب کے شعر کوتکنے لگے بالکل ایسے ہی جیسے شعر اب تک ہمارا منہ تک رہا تھا۔ کافی سوچ بچار کے بعد البتہ اتنا ہمیں ضرور سمجھ آگیا کہ بہت ہی خوب ہوا کہ غالب کا مفروضہ ، مفروضہ ہی رہا اور اس نے حقیقت کا روپ نہیں دھارا ، ورنہ وہ رن پڑتا کہ تشریح کی بھی تشریح ہو جاتی تو بھی بات سنبھالے نہ سنبھلتی۔ اس سے زیادہ کوئی اور تفہیم ہماری گراں قدر فہم و فراست کے سامنے کھڑی ہونے کی جرات نہیں کر سکی۔

کلامِ غالب اور ہماری یہ مڈ بھیڑ نئی ہرگز نہیں تھی بلکہ اس سے پیشتر بھی غالب کی غزلیں اور اشعار ہمیں مغلوب کرنےکی سعیِ لاحاصل کرتے رہے تھے۔ کئی ایک بار تو ہم جان چھڑاتے چھڑاتے جاں بلب ہو گئے، پر شاید کوئی لیا دیا کام آگیا جو جاں بچ گئی، لیکن کلامِ غالب اور اس کے بعد کی غالب فہمی سے جان پھر بھی نہ چھوٹی۔

؂ میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا


ہم میں اور کوئی خوبی ہو نہ ہومستقل مزاجی کی خو البتہ بدرجہ اتم موجود ہے اور اس بات کا ثبوت بھی ابھی آپ کو دیے دیتے ہیں کہ ایک زمانۂ دراز ہو جانے کے باوجود بھی ہمار ی غالب فہمی غلط فہمی سے آگے نہ
بڑھی ،اورجناب اس استقلال کے ساتھ ساتھ ہماری ثابت قدمی بھی دیکھیے کہ ہم آگے نہ بڑھ سکے تو کیا ہوا ایک قدم پیچھے بھی نہیں ہٹے ۔ ہم سوچتے ہیں کہ جو لوگ غالب کو سمجھنے یا سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خود غالب نے بھی اس کارِ لاحاصل میں پڑنے کا کشٹ نہیں کیا اور قربان جاؤں کیا صاف گوئی سے کام لیا غالب نے کہ جناب یہ سب مضامین غیب سے اُ ن کے خیال میں آتے ہیں اور اس میں اُ ن کا کوئی دوش نہیں ہے ، لیکن ہمارے مہم جو طبع احباب روز ایک غزل لئے ۔"کاتا اور لے دوڑی" کی مشقِ پیہم میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ہاں تو ہم بتا رہے تھے کہ کلامِ غالب اور ہماری یہ چپقلش نئی نہیں تھی بلکہ اس کی عمر بھی ہمار ی غالب نا شناسی کی عمر سے کچھ ہی کم ہوگی۔ اسی طرح اوائل عمری میں بھی ایک بار دیوانِ غالب ہاتھ میں لیے بیٹھے تھے ۔ دامِ شنیدن بچھائے سے نہیں بچھ رہا تھا اور ہم دیوان ہاتھ میں لیے دیوانے ہوئے جا رہے تھے کہ اچانک ایک شعر نظر آیا ، ایک لمحے کے لیے تو لگا کہ اکیسویں صدی کے کسی بہت ہی مشہور "میڈیا پروموٹڈ" شاعر کا شعر دیوانِ غالب میں غلطی سے آگیا ہے اور اب یہ آہوئے پریشان دیوانِ غالب میں موجود دوسرے اشعار میں اپنے عہد کے سے عیاں چہرے تلاش کر رہا ہے جو یقینا وہاں نہیں تھے۔ خیر شعر کچھ یو ں تھا۔

؂ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے


ذرا سا دشوار سہی لیکن کسی حد تک سمجھ آگیا، شعر کیا سمجھ آیا ہم اپنی نو دریافت غالب فہمی کے زعم میں غزل کی زمین پر سر پٹ خیالوں کے گھوڑے دوڑانے لگے لیکن وائے تقدیر کہ اگلے ہی سنگِ میل پر (یعنی اگلے ہی شعر میں) ہم اپنے منہ زور گھوڑے سمیت غزل کی زمین پر پڑے کراہ رہے تھے ، شاید غزل کی زمین پر بھی کوئی گڑھا پڑ گیا تھا ہاں البتہ اتنا نہیں تھا کہ مٹی ڈال دی جائے، عین ممکن ہے کہ غزل کے توازن میں کچھ فرق پڑگیا ہو، کیوں کہ ہم با ذاتِ خود تو بے وزن نہیں تھے ۔ بہرحال اگلے شعر میں ہم نے دیکھا کہ ۔۔۔۔۔غالب صاحب نے اپنا
تخلص "غالب "سے بدل کر" مشتاق "رکھ لیا ، اور اپنے اس کارہائے عظیم پر بھی باز پُرس خدا سے ہو رہی ہے۔ ہم بہت سٹپٹائے کہ یہ کیاماجرہ ہے ، پہلے" اسد "پھر "غالب "اور اب یہ "مشتاق"۔ ہمیں یوں لگا کہ شایددیوانِ غالب کوئی مشترکہ منصوبہ تھا ، جسے تین مختلف اشخاص نے حسبِ ضرورت برتا ہے، بلکہ یوں کہیے کہ برتا کیا ہے بھگتا ہے اور جہاں جہاں ممکن ہوا ، آنکھ بچا کر اپنا تخلّص شامل کر دیا۔ بس اس سوچ کا آنا تھا توہمیں خود پر پہلے غصّہ اور پھر ترس آیا کہ ہم اس کم سنی میں تین تین ایسے لوگوں کو بھگت رہے ہیں جن کی شاید آپس میں بھی نہیں بنتی۔ جھٹ دیوان بند کیا اور انجان بن گئے۔ایک عرصۂ دراز کے بعد جب یہ غزل دیکھنے کا اتفاق اور ہمّت ہوئی تو تیسرے شعر نے غالب کے منہ میں زبان کی موجودگی کی تصدیق کی، اور ساتھ ساتھ ہی مُدعا کے باز پُرس کی اجازت بھی مرحمت فرمائی، بہت افسوس ہوا کہ پچھلی پسپائی سے پیش تر اگر تیسرا شعر بھی جیسے تیسے پڑھ لیا ہوتا تو کچھ نہ کچھ لے ہی مرتے۔

بیچ کے عرصہ میں کئی ایک دفعہ دیوانِ غالب سے آنکھیں چار بھی ہوئیں لیکن ہمیں ہر بار یہ ہی لگا کہ دیوانِ غالب زبانِ حال سے ایک ہی بات کہ رہا ہو:

؂ مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا میرے آگے


ہم نے غور کیا تو ہمارا رنگ زرد ہور ہا تھا، بس پھر کیا تھا ہم نے فوراً ایک جھر جھری لی اوررفو چکر ہوگئے اور رفو گر کے پاس پہنچ کرہی دم لیا، اور اپنے گریبانِ سخن فہمی کے چار گرہ کپڑے میں غالب شناسی کا پیوند لگوانے کی ناکام کوشش کرنے لگے، رفو گر کے ٹال مٹول سے لگا کہ وہ اس عاشقِ نیم جاں کو معشوق فریبی کے الزامِ جاں شکن میں دھروانے کا پکا پروگرام بنائے بیٹھا ہے اور خاموش نگاہوں سے کہ رہا ہے کہ

؂ بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


سو ہم نے سوچا کہ کہیں ہم بھی مثالِ غالب ۔"دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے "کا راگ الاپنے پرنہ مجبور ہو جائیں، سو وہاں سے بھی ٹلنے میں دیر نہ لگائی یہاں تک کہ دشمن ہماری لاش دیکھ کر غم ناک یا مسرور تک نہ ہو سکا۔

کئی زمانے غالب کو بھول کر فکرِ دنیا میں سر کھپاتے رہے اور فکرِ دنیا ہمارے لیے بھی کسی وبال سے کم نہیں تھی ، اور شاید غالب اور اس مغلوب میں ایک یہی قدرِ مشترک تھی ورنہ توہمارے اور غالب کے عناصر میں بالکل بھی اعتدالِ باہمی نہیں تھا۔ غرض یہ کہ غالب سے اور کلامِ غالب سے اس قدر بے اعتنائی
برتنے کہ باوجود بھی ہمارا اور کلامِ غالب کا رشتہ۔ جسم اور" کمبل "والا رہا، اور ہم پورے وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ کمبل کا کردار ہم نے ہرگز نہیں کیا۔ پھربھی مفاہیم پوری طرح کھل کر کبھی سامنے نہیں آئے بلکہ ایک تشنگی سی رہی اور شعر حافظہ میں "تیرِ نیم کش" کی طرح اپنے دائمی قیام کا احساس دلاتے رہے۔ شایدایک وجہ فارسی اور فارسی زدہ اردو بھی رہی ہو (لیکن ہم تیل بیچنے کے خوف سے فارسی سیکھنے کی ہمت کبھی نہیں کر سکے)۔ بہر کیف اس نہج پہ آکہ ہم بھی اپنی بے سروپا گفتگو میں گاہے گاہے غالب کے شعر ٹانکنے لگے اور مسائلِ تصوف کی تفہیم میں غالب کے شانہ بہ شانہ ڈوبتے اُبھرتے رہے۔ ویسے یہ بات شاعرِ موصوف کو ابھی تک نہیں پتہ ہے اور نہ ہی آپ بتایئے گا ورنہ اُن کی حالت یقینا دیدنی ہوگی اور کہتے نظر آیئں گے۔

؂ حیراں ہوں دل کو روؤ ں ، یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں ، نوحہ گر کو میں


بات بہت طویل ہو چلی ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ سب پڑ ھ کر غالب کیا سوچتے ہوں گے۔

؂ جمع کر تے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشہ ہوا گلہ نہ ہوا

یا

؂ ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی


لیکن ہم سوچتے ہیں کہ کلامِ غالب اور ہم میں دوری کی وجہ غالب کی مشکل پسندی نہیں بلکہ ہماری اپنی کج فہمی اور کوتاہ بینی ہے سو خیال آتا ہے کہ

؂ ہم پیشہ و ہم مشرب و ہمراز ہے مرا
غالب کو بُراکیوں کہو اچھا مرے آگے


بعد میں غالب نے یہ شعرشاید ہمارے لیے ہی کہا:

؂ عاشقی صبر طلب اور تمنّا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

اور ہم کہتے ہیں کہ

؂ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا (آمین)
________________________________________________________

امید ہے کہ یہ مضمون محبّانِ غالب کی دل آزاری کا سبب نہیں بنے گا کیونکہ اس مضمون کا موضوع غالب نہیں بلکہ" کلامِ غالب کے تناظر میں ہماری نام نہاد سخن فہمی " ہے
 

 


 


صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام

خاکسار کی ایک غزل۔ ۔ ۔

غزل

صحرا صحرا دوپہریں ہیں، بادل بادل شام
دل نگری کی رات اداسی، چنچل چنچل شام

ڈالی ڈالی پھول ہیں رقصاں، دریا دریا موج
تتلی تتلی نقش ہیں رنگیں، کومل کومل شام

رنگِ جنوں دل دیوانے پر دید کے پیاسے نین
تیری گلی، تیری دہلیزیں، پاگل پاگل شام

نین ہیں کس کے، یاد ہے کس کی، کس کے ہیں آنسو
کس کی آنکھوں کا تحفہ ہیں، کاجل کاجل شام

رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو ، سرد ہوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام

ڈوبتا سورج، سونا رستہ، آس کے بجھتے دیپ
مایوسی کی گرد میں لپٹی اُتری پل پل شام

رنگ سنہرا، دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام

خواب میں جب سے آیا ہے وہ، سوچوں میں گم ہوں
کیا ہو جو تعبیر بتانے آجائے کل شام

احمد کوئی نظم سُناؤ کچھ تو وقت کٹے
تنہا تنہا دل بھی ہے اور بوجھل بوجھل شام