'پیاری زمین' مشہور امریکی مصنفہ مسز پرل بک کے ناول گُڈ ارتھ (Good Earth) کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ وہ ناول ہے جس پر مصنفہ کو نوبل پرائز دیا گیا اور یہ ناول بیسٹ سیلرز میں سے ایک ہے۔ مصنفہ ایک امریکی خاتون ہیں لیکن اُن کی زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزرا اور اس ناول کے کردار و واقعات بھی چینی دیہاتی زندگی کا پس منظر لیے ہوئے ہیں۔ مصنفہ پرل بک 1892ء میں پیدا ہوئیں اور 1934ءتک زندگی کا بیشتر حصہ چین میں گزارا۔ اسی اثناء میں انہوں نے بیسوی صدی کے چین کی دیہاتی زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر ہی یہ ناول رقم کیا۔
کتاب میں کل 476 صفحات ہیں ۔ جس میں سے 28 صفحات تعارف پر مبنی ہیں ۔ جس میں چین کے اس دور کے حالات ذکر ہیں کہ جب ناول نگاری کو مشاہیرِ ادب حقیر جانتے تھے اور اسے کسی بھی طرح ادبِ عالیہ کا درجہ دینے پر راضی نہیں تھے۔ تعارف میں مزید یہ بھی بتایا گیا کہ چین میں ناول نگاری کا ارتقاء کس طرح ہوا۔ چین کی عوام میں قصہ کہانیوں کا رواج بہت عام تھا ۔ یہی قصہ کہانیاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتے ہوئے ناولز کا روپ دھار گئیں ۔
گڈ ارتھ کا اردو ترجمہ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا اور اسے انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے شائع کیا۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری پاکستان کے نامور ترقی پسند نقاد، ماہرِ لسانیات، افسانہ نگار اور مترجم تھے ۔
ڈاکٹر صاحب نے ناول کا ترجمہ بہت احسن طریقے سے کیا ہے اور بامحاورہ ،شستہ و نستعلیق اردو سے مزین یہ ناول کسی بھی طرح اردو دان طبقے کے لئے اجنبی معلوم نہیں ہوتا۔
میرے جیسے قاری کے لئے کہ جو عدیم الفرصتی اور سہل پسندی کے باعث سب سے پہلے کسی بھی کتاب کے صفحات گنا کرتا ہے ، چار ساڑھے چار سو صفحات کا ناول پڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ تاہم ناول اس قدر رواں ہے کہ قاری کو ہرگز گراں نہیں گزرتا۔ حالات و واقعات اس طرح باہم پیوست ہیں کہ قاری کہانی کی تلاش میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور کہانی انجام تک اُسے اپنے ساتھ ساتھ چلاتی ہے ۔
ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو قریب سے دکھایا گیا ہے جس نے انتہائی غربت میں اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک باندی سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد مستقل محنت سے اپنی زمینوں میں اضافہ کرتا گیا۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمیندار بنتا گیا۔ناول بار بار یہ باور کرواتا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے اور وہ لوٹ پھیر کر اپنی زمین کی طرف ہی آتا ہے۔
ناول کا سب سے اہم حصہ وہ ہے کہ جس میں تاریخی قحط کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوئے ۔ یہاں تک کے اُنہیں بھیک مانگ کر بھی گزارا کرنا پڑا۔ قحط کی ہولناکی سمجھنا آج کے انسان کے لئے دشوار ہے ۔ وہ اس بات کا ٹھیک طرح ادراک نہیں کر سکتا کہ کس طرح اناج کے چند دانے انسان کے لئے ہر چیز اور ہر رشتے سے زیادہ مقدم ہو سکتے ہیں۔
کسان وانگ لنگ نے عروج و زوال کے کئی ایک زمانے دیکھے اور آخر کار وہ ایک بہت بڑا زمیندار بن گیا۔ ناول ہمہ وقت کئی ایک ذیلی موضوعات میں بھی گھرا رہتا ہے کہ جن میں انسانی فطرت، غربت کے مسائل، امارت کے ساتھ در آنے والی خرابیاں شامل ہیں ۔ مزید براں اس ناول کی کہانی انسانی زندگی کی ذاتی اور سماجی نفسیات سے بھی چھیڑ چھاڑ کرتی نظر آتی ہے۔
یہ ناول پڑھ کر آپ یہ تو شاید نہ کہیں کہ یہ آپ کے پڑھے ہوئے بہترین ناولوں میں سے ایک ہے۔ البتہ یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک یادگار ناول ہے۔ اور اردو دان طبقے کے لئے اس میں مصنفہ کے ساتھ ساتھ مترجم کی محنت بھی شامل ہے۔