نظم : ٹھیک ہی تو کرتے ہیں ۔۔۔ سید شعیب نعیم

ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

روندتے مسلتے ہیں
روز گھاس کو ہم سب
پاؤں سے کچلتے ہیں
ٹھیک ہی تو کرتے ہیں

یہ جو گھاس ہوتی ہے
آب کے کنارے پر 

ڈوبتا کوئی بھی ہو
ہاتھ اگر بڑھائے تو
ہاتھ تھام لیتی ہے
اپنی تاب سے بڑھ کر
اژدہے سے پانی کے
اس کو چھین لینے کی
کوششیں وہ کرتی ہے

اور اگر وہ یہ دیکھے
آب جیت سکتا ہے
کوئی ڈوب سکتا ہے
پھر بھی ڈوبتے کو یہ
چھوڑ تو نہیں دیتی
مثلِ یار، یہ نظریں
پھیر تو نہیں لیتی 

اور جب کوئی ڈوبے
ساتھ ڈوب جاتی ہے
آب جس جگہ کھینچے
آب جس جگہ پھینکے
ساتھ ساتھ رہتی ہے
جس کا ہاتھ تھاما تھا
اُس کے ساتھ جیتی ہے
اُس کے ساتھ مرتی ہے



سید شعیب نعیم

لوکل پریسٹیج | مقامی وقار

لوکل پریسٹیج

 

کیا غیر معیاری چیزیں لوکل ہوتی ہیں؟

ہمارے ہاں عوام الناس اکثر غیر معیاری اشیاء کے لئے لوکل کا لفظ استعمال کرتی ہے۔ حالانکہ لوکل انگریزی زبان کا لفظ ہے اور اس کا مطلب "علاقائی" یا "مقامی" ہے ۔ دراصل یہ اصطلاح ہمارے علاقائی دوکاندار استعمال کرتے ہیں اور کسی بھی غیر معیاری چیز کو لوکل کہہ کر بے وقعت کر دیتے ہیں۔ اور کسی بھی معیاری چیز کو اُس 'لوکل' شے کے مقابل لا کر رکھ دیتے ہیں۔ اُنہی سے عوام الناس خاص طور پر وہ لوگ جو انگریزی زبان سے زیادہ علاقہ نہیں رکھتے ، یہ بات سیکھ لیتے ہیں۔

اس کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دیسی ساختہ چیزیں اکثر غیر معیاری ہی ہوا کرتی ہیں اور اُن کی بہ نسبت باہر سے درامد شدہ اشیاء کا معیار کچھ بہتر ہوتا ہے۔ تاہم یہ کُلیہ کہ تمام تر لوکل چیزیں غیر معیاری ہوتی ہیں سراسر غلط فہمی پر مبنی ہے اور بہت سی دیسی ساختہ اشیاء اپنے معیار کے اعتبار سے بہترین درجے کی بھی ہوتی ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس کچھ ایسی اشیاء بھی غیر معیاری ہوتی ہیں جو باہر ممالک سے امپورٹ کی جاتی ہیں اور وہ دیسی ساختہ اشیاء سے مقابلہ نہیں کر پاتیں۔

سو ہمیں چاہیے کہ غیر معیاری اشیاء کو براہِ راست لوکل نہ کہیں بلکہ غیر معیاری یا ہلکی ہی کہیں ۔ تاکہ مقامی اشیاء سازوں کی حوصلہ شکنی نہ ہو اور مقامی اشیاء کا وقار اور بتدریج معیار بہتر ہونے کی راہ ہموار ہو سکے۔

آج کے تمام تر ترقی یافتہ ممالک اپنی مقامی صنعت کو فروغ دیتے ہیں اور مقامی لوگ پہلے مقامی ساختہ مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں اور پھر بعد میں درامد شدہ مصنوعات کی طرف جاتے ہیں۔ اس سے اُن کا زرِ مبادلہ بچتا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں اُن کی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔

یہ تھی آج کی چھوٹی سی بات جو اتنی چھوٹی بھی نہیں ہے۔

گو ذرا سی بات پر آئینہ ٴ چینی شکست



حاضر جوابی ، بذلہ سنجی اور خوش ذوقی جیسی اعلیٰ صفات بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں ۔ ایسے اوصاف کے حامل افراد بہت جلد لوگوں کے دلوں میں گھر بنا لیتے ہیں۔ آج ہم آپ کو دو حکایتیں سنا رہے ہیں جو حاضر جوابی اور خوش ذوقی کی مثال ہیں۔


پہلی حکایت


 گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

یہ خوبصورت اور سدا بہار شعر خاطر غزنوی کا ہے ۔ کہتے ہیں کہ شاعر صاحب کسی محفل میں اپنا یہ سدا بہار شعر سنا رہے تھے اور داد وصول کر رہے تھے کہ اچانک محفل میں موجود کسی شخص نے اُن کے مصرع پر گرہ لگائی اور یہ شعر کچھ اس طرح پڑھا:

یہ تو خیر اچھا ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
وہ ذرا سی بات کیا تھی جس پہ یارانے گئے؟

اب نہ جانے اس شعر کو سُن کر محفل کشتِ زعفران بنی یا نہیں ۔ بلکہ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ اِس جواب کو سُن کر خاطر غزنوی نے خاطر جمع رکھی یا غزنوی بن کر گرہ لگانے والے حضرت پر لگاتار سترہ حملے کرنے کا قصد کیا۔


دوسری حکایت


 اَز قضا آئینہ ٴ چینی شکست
خُوب شُد، سامانِ خُود بِینی شکست

زیب النساء ایک ملکہ گزری ہے۔ وہ بہت خوبصورت تھی، اس کو ایک نہایت قیمتی چینی آئینہ تحفے میں ملا تھا۔ زیب النساء نے اپنی لونڈی سے کہا کہ ذرا وہ آئینہ لے کر آؤ، میں بھی تو دیکھوں کہ میرا حسن کس قدر ہے، اور اس قیمتی آئینے میں میرا حسن کتنا نکھر کر سامنے آتا ہے۔ لونڈی آئینہ لے کر آرہی تھی کہ رستے میں اُسے ٹھوکر لگی اور وہ گر گئی اور ساتھ ہی وہ آئینہ بھی ٹوٹ گیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں واپس آتی ہے ۔ ملکہ زیب النسا پوچھتی ہے کہ آیئنہ کدھر ہے؟۔تو اس موقع پر بھی وہ لونڈی مصرع کہتی ہے۔

اَز قضا آئینہ ٴ چینی شکست

اس کی یہ بات سن کر ملکہ کو تو یہ چاہیئے تھا کہ اس کو سزا دیتی اور غصہ کرتی کہ تم نے اس قدر قیمتی آیئنہ ٹوڑ دیا۔ لیکن اُس کے فن زبان و بیان کو دیکھتے ہوئے ملکہ نے بھی مصرع کہا اور اسی وزن میں اس قدر خوبصورتی سے کہا کہ شعر نہ صرف مکمل ہوا بلکہ ایک شہرہ آفاق شعر بنا۔ ملکہ نے جواب میں کہا۔

خُوب شُد، سامانِ خُود بِینی شکست

ملکہ نے کہاکہ اچھا ہوا کہ وہ ٹوٹ گیا، ورنہ اگر میں اس کو دیکھتی تو اپنے حسن و جمال کو دیکھ کر غرور میں مبتلا ہو جاتی۔

ہم سوچتے ہیں کہ مذکورہ ملازمہ ایسی خوش ذوق خاتون بھی ہزاروں میں ایک ہی ہوتی ہوگی۔ ورنہ ہمارے ہاں اگر اس قسم کا واقعہ پیش آ جاتا تو فوراً جواب ملتا کہ بی بی جی چائنہ کی چیزیں ایسی ہی ہوتی ہیں ان کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔ یا اگر ملازمہ کی جگہ کوئی شاعر ہوتا تو وہ کہتا کہ اتنا دل پر نہ لیجے

اِک آئینہ تھا ٹوٹ گیا دیکھ بھال میں

سہرا:


پہلی حکایت ہمیں ہمارے پیارے بھائی ریاض الحبیب کے دوست اختر علی مغل صاحب سے سُننے کو ملی ۔ اختر بھائی خوش ذوق واقع ہوئے ہیں اور شعر و ادب سے شغف رکھتے ہیں۔ اختر بھائی نے ایک دن گفتگو کے دوران یہ حکایت ہمیں سنائی تھی۔ تاہم اس بات کو اب کئی برس گزر چکے ہیں، اور عین ممکن ہے کہ یہ بات اُن کی یادداشت سے محو ہو چکی ہو۔

دوسری حکایت ہمیں وٹس ایپ پر ایک خوش ذوق رُکن سعید احمد صاحب کے توسط سے ملی۔ تاہم جناب نے اسے کتابوں سے متعلق ایک ایسے گروپ میں ارسال کیا تھا جہاں کتابوں کے علاوہ کوئی اور بات کرنے کی اجازت نہیں ہے سو گروپ قوانین کے باعث ہم اُنہیں اس انتخاب کی قرار واقعی داد نہیں دے سکے، لیکن دل سے اُن کے ذوق کے قدر دان ہیں۔

*****

تبصرہ ٴکُتب | بیراگ (ناول)

بیراگ

بیراگ سنہالی ادب کا ایک ناول ہے جسے مارٹن وکرما سنگھے نے تحریر کیا ہے ۔ اس ناول کا اردو ترجمہ مصطفیٰ نذیر احمد صاحب نے کیا ہے اور اس کے ناشر مشعل لاہور ہیں۔ بنیادی طور پر اس ناول کا پس منظر سری لنکا کا دیہی علاقہ ہے اور ناول میں سنہالی ثقافت رچی بسی ہے۔




اس ناول کی طرز ایک آپ بیتی کی سی ہے ۔ لیکن اس سے پیشتر راوی نے اختتامیہ پیش کیا ہے کہ جو ہمیں ناول کے کردار و واقعات سے آگہی دیتا ہے۔ گو کہ ناول کا پلاٹ سیدھا سادھا ہے لیکن پھر بھی یہ کسی عام ناول سے بہت مختلف ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ کہانی دلچسپ ہے لیکن زیادہ دلچسپ انسانی نفسیات کی گہرائیوں میں الجھتے بل کھاتے وہ مظاہر ہیں جو اس ناول میں بین السطور پیش کیے گئے ہیں۔ اگر آپ کسی شاندار پلاٹ اور کہانی میں ٹوئسٹ کے متلاشی ہیں تو یہ ناول آپ کے لئے نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ انسان کی گوناگوں درونی کیفیات اور نفسیات سے دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو یہ ناول کو ضرور پڑھنا چاہیے۔