نظم: حیرت ۔ از ۔ محمد احمد

حیرت

ایک بستی تماش بینوں کی
،اک ہجوم
اژدھام لوگوں کا
دیکھ میرے تنِ برہنہ کو
ہنستا ہے
قہقہے لگاتا ہے
اور میں ششدر ہوں
دیکھ کر اُن کو
سب کے سب لوگ ہیں برہنہ تن ۔

محمد احمدؔ

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ۔۔۔۔! جاوید اختر


کچھ گیت اتنے خوبصورت ہوتے ہیں کہ اُنہیں محض فلمی گیت سمجھ کر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایسے گیت ہزار بارے سُنے جائیں تو ایک ہزار ایکویں بار سُننے کا دل چاہتا ہے۔ گو ہم باوجوہ اب موسیقی نہیں سُنا کرتے ۔ تاہم کچھ چیزوں کو استثنیٰ دیے بغیر بات نہیں بنتی۔

جاوید اخترصاحب کا یہ گیت بھی ایسا ہی ہے۔ اِس میں ترنگ ہے، تڑپ ہے، معصومیت ہے، تحیّر ہے، ان پوچھے سوالوں کا ایک جہان ہے اورنئی دنیاؤں میں جھانکنے کی ایک لگن ہے۔ اگر سرشاری و جذب (Ecstasy) نام کی کوئی چیز اِس دنیا میں ہے تو اُسے اِس گیت میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ کسی بھی اچھے گیت کو لازوال بنانے کے لئے اُس کی موسیقی اور پسِ پردہ آوازوں کا بڑا کمال ہوتا ہے تاہم پھر بھی اصل تو شاعری ہی ہے اور اچھی شاعری کا سحر ایسا ہے کہ اچھے بھلےانسان کو ازخود رفتہ کر سکتا ہے۔ یقین نہیں آتا تو یہ گیت ملاحظہ فرمائیے۔

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے

گلشن گلشن، وادی وادی، بہتی ہے ریشم جیسی ہوا
جنگل جنگل، پربت پربت، ہیں نیند میں سب اِک میرے سوا
چندا۔۔۔! چندا۔۔۔۔!!!
آ جا سپنوں کی نیلی ندیا میں نہائیں
آ جا یہ تارے چُن کر ہم ہار بنائیں

اِن دُھندلی دُھندلی راہوں میں آ دونوں ہی کھو جائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے

چندا سے پوچھیں گے ہم سارے سوال نِرالے
جَھرنے کیوں گاتے ہیں پنچھی کیوں مَتوالے
ہو ! کیو ں ہے ساون مہینہ گھٹاؤں کا
چندا سے پوچھیں گے ہم سارے سوال نِرالے
چندا۔۔۔! چندا۔۔۔۔!!!
تتلی کے پر کیوں اتنے رنگیں ہوتے ہیں
جگنو راتوں میں جاگیں تو کب سوتے ہیں

اِن دُھندلی دُھندلی راہوں میں آ دونوں ہی کھو جائیں

چندا رے !چندا رے! کبھی تو زمیں پر آ بیٹھیں گے باتیں کریں گے
تجھ کو آتے اِدھر لاج آئے اگر، اوڑھ کے آ جا تو بادل گھنے


جاوید اختر





کیا آپ حالات کے پروردہ ہیں؟


اسٹیفن کوی کہتے ہیں :
I am not a product of my circumstances. I am a product of my decisions.
–Stephen Covey
اسٹیفن کوی معروف امریکی مصنف ہیں جنہوں نے مشہورِ زمانہ کتاب "The 7 Habits of Highly Effective People " تحریر کی ہے۔

بظاہر دیکھنے پر اسٹیفن کا یہ قول ایک شیخی کی طرح کا لگتا ہے تاہم اس کے پیچھے ایک پورا فلسفہ چھپا ہوا ہے۔

اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو ہمیں بیشتر لوگ ایسے نظر آئیں گے کہ جنہیں حالات جس طرف ہانک کر لے لئے گئے ،وہ وہیں کے ہو گئے۔ جنہیں جیسا ماحول ملا وہ ویسے ہی ڈھل گئے۔ یعنی اُن کی شخصیت سازی اُنہوں نے خود نہیں کی بلکہ مخصوص و حالات و واقعات جس طرح اُن کی پرورش و پراداخت کرتے رہے وہ ویسے ہی ہو رہے اور اُن کے اپنے ارادے کا اُس میں کوئی خاص دخل نہیں رہا۔اسٹیفن نے دراصل اسی سوچ پر ضرب لگائی ہے کہ انسان خود کو بالکل ہی حالات کے دھارے پر نہ چھوڑ دے بلکہ وہ خود اپنے بارے میں سوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے اور وہ کیا کر سکتا ہے اور اُسے کیا کرنا چاہیے۔ پھر اپنے کچھ اہداف طے کرے اور اُن کے حصول کے لئے منصوبہ بندی اور عملی اقدامات کرے۔

"کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔"
میں یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ حالات و واقعات کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا جائے یا جو فیصلے تقدیر کرے اُن کی طرف سے آنکھ بند کر لی جائے بلکہ صرف یہ کہ انسان اپنے راستے میں در آنے والی ان دیواروں سے کمر ٹِکا کر نہ بیٹھ جائے بلکہ ان دیواروں میں در تلاش کرتا رہے ۔ بعید نہیں کہ اس سعی کے طفیل وہ اس صورتحال سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے۔

دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لئے

سو اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کسی صورتِ حال میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں اور اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے تو اسٹیفن آپ سے ہی مخاطب ہے۔ آپ اپنے حالات سے جزوی سمجھوتہ بھلے سے کر لیں لیکن اس کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں۔ بلکہ اس بارے میں سوچتے رہیں کہ کیا ہو سکتا ہے اور کیسے ہو سکتا ہے۔ اور اگر کسی راستے پر آپ کو اُمید کی ذرا سی بھی کرن نظر آئے تو فوراً تدبر اور مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ اُس راستے پر چلنے کی عملی کوشش کریں۔ انسان کی سب سے اچھی رفیق اُمید اور کوشش ہی ہوا کرتی ہے۔ اگر آپ کامیاب نہیں بھی ہوتے تب بھی کم از کم آپ کو یہ اطمینان تو ضرور ہو گا کہ آپ نے وقت سے ہار نہیں مانی اور اپنے طور پر معاملات سے نبرد آزما رہے یہ احساس آپ کو وقت سے ہارے ہوئے لوگوں میں شامل ہونے سے بچا رکھے گا۔

اسٹیفن کی اسی بات کو ایک شاعر نے اس طرح سے کہا ہے:

ہم خود تراشتے ہیں منازل کے راہ و سنگ
ہم وہ نہیں ہیں جن کو زمانہ بنا گیا

سو اُمید کو مشعلِ راہ بنائیں اور کوشش کو کشتی بنا لیں، آپ کا رب ان شاءاللہ آپ کی کشتی کو پار لگا دے گا۔

غزل ۔ بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے ۔ محمد تابش صدیقی

محمد تابش صدیقی کی خوبصورت غزل

غزل

بات جو کہنی نہیں تھی کہہ گئے
اشک جو بہنے نہیں تھے بہہ گئے

راہِ حق ہر گام ہے دشوار تر
کامراں ہیں وہ جو ہنس کر سہہ گئے

زندگی میں زندگی باقی نہیں
جستجو اور شوق پیچھے رہ گئے

سعیِ پیہم جس نے کی، وہ سرخرو
ہم فقط باتیں ہی کرتے رہ گئے

اے خدا! دل کی زمیں زرخیز کر
ابرِ رحمت تو برس کر بہہ گئے

شاد رہنا ہے جو تابشؔ، شاد رکھ
بات یہ آبا ہمارے کہہ گئے

محمد تابش صدیقی​

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں ۔ قمر جمیل

غزل

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں

تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں

پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اُٹھا رکھے ہیں آئینے میں

میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل
اور کچھ لوگ چھپارکھے ہیں آئینے میں

قمر جمیلؔ

قمر جمیل کی دو خوبصورت غزلیں


قمر جمیل پاکستان کے معروف نقاد، ادیب، شاعر اور اردو ادب میں جدید رجحانات کے بانی کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے "خواب نما" اور "چہار خواب" شائع ہوئے ۔ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ "جدید ادب" کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا ۔ انہوں نے "دریافت" کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ انہوں نے کراچی سے نثری نظم کی تحریک کا آغاز کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری نسل کو تخلیق کا نیا رجحان دیا۔

قارئینِ بلاگ کے ذوق کے لئے قمر جمیل کی دو غزلیں پیشِ خدمت ہے۔

ایک پتھر کہ دست یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے

اپنی ناکامیوں پہ آخر کار
مسکرانا تو اختیار میں ہے

ہم ستاروں کی طرح ڈوب گئے
دن قیامت کے انتظار میں ہے

اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے

کچھ ستارے ہیں اور ہم ہیں جمیلؔ
روشنی جن سے رہ گزار میں ہے

✿✿✿✿✿✿✿

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے

اس کے قدم سے پھول کھلے ہیں میں نے سنا ہے چار طرف
ویسے اس ویران سرا میں پھول کھلانا مشکل ہے

تنہائی میں دل کا سہارا ایک ہوا کا جھونکا تھا
وہ بھی گیا ہے سوئے بیاباں اس کا آنا مشکل ہے

شیشہ گروں کے گھر میں سنا ہے ایک پری کل آئی تھی
ویسے خیال و خواب ہیں پریاں ان کا آنا مشکل ہے

قمر جمیل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے ۔ اقبال عظیم

غزل

اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبحِ فردا کی کِرن بھی نہ جہاں تک پہنچے

میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے

بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
اس سے پہلے کہ یہی بات زبان تک پہنچے

تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے

آج پندارِ تمنّا کا فسُوں ٹُوٹ گیا
چند کم ظرف گِلے نوکِ زبان تک پہنچے

اقبال عظیم

بشکریہ تابش صدیقی بھائی