غزل
میں کچھ دنوں میں اِسے چھوڑ جانے والا تھا
جہاز غرق ہوا جو خزانے والا تھا
گلوں سے بوئے شکست اٹھ رہی ہے، نغمہ گرو!
یہیں کہیں کوئی کوزے بنانے والا تھا
عجیب حال تھا اِس دشت کا، میں آیا تو
نہ خاک تھی نہ کوئی خاک اُڑانے والا تھا
تمام دوست الاؤ کے گرد جمع تھے، اور
ہر ایک اپنی کہانی سنانے والا تھا
کہانی، جس میں یہ دنیا نئی تھی، اچھی تھی
اس اس پہ وقت، برا وقت، آنے والا تھا
بس ایک خواب کی دوری پہ ہے ہو شہر جہاں
میں اپنے نام کا سکہ چلانے والا تھا
شجر کے ساتھ مجھے بھی ہلا گیا، بابر
وہ سانحہ جو اُسے پیش آنے والا تھا
ادریس بابر