غزل
کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں
کتنے سورج ڈوب گئے ہیں چہروں کے پیلے پن میں
بچّوں کے میٹھے ہونٹوں پر پیاس کی سوکھی ریت جمی
دودھ کی دھاریں گائے کے تھن سے گر گئیں ناگوں کے پھن میں
ریگستانوں میں جلتے ہیں پڑے ہوئے سو نقشِ قدم
آج خراماں کوئی نہیں ہے اُمیدوں کے گلشن میں
چکنا چُور ہوا خوابوں کا دلکش، دلچسپ آئینہ
ٹیڑھی ترچھی تصویریں ہیں ٹوٹے پھوٹے درپن میں
پائے جنوں میں پڑی ہوئی ہیں حرص و ہوا کی زنجیریں
قید ہے اب تک ہاتھ سحر کا تاریکی کے کنگن میں
آنکھوں کی کچھ نورس کلیاں نیم شگفتہ غنچہ ٴ لب
کیسے کیسے پھول بھرے ہیں گلچینوں کے دامن میں
دستِ غیب کی طرح چھپا ہے ظلم کا ہاتھ ستم کا وار
خشک لہو کی بارش دیکھی ہم نے کوچہ و برزن میں
سردار جعفری