[ہفتہ ٴ غزل] ۔ کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں ۔سردار جعفری

غزل 

کتنی آشاؤں کی لاشیں سوکھیں دل کے آنگن میں
کتنے سورج ڈوب گئے ہیں چہروں کے پیلے پن میں

بچّوں  کے میٹھے ہونٹوں پر پیاس کی سوکھی ریت جمی
دودھ کی دھاریں گائے کے تھن سے گر گئیں ناگوں کے پھن میں

ریگستانوں  میں جلتے ہیں پڑے ہوئے سو نقشِ قدم
آج خراماں کوئی نہیں ہے اُمیدوں کے گلشن میں

چکنا چُور ہوا خوابوں کا دلکش،  دلچسپ آئینہ
ٹیڑھی ترچھی تصویریں ہیں ٹوٹے پھوٹے درپن میں

پائے جنوں میں پڑی ہوئی ہیں حرص و ہوا کی زنجیریں
قید ہے اب تک ہاتھ سحر کا تاریکی کے کنگن میں

آنکھوں کی کچھ نورس کلیاں  نیم شگفتہ غنچہ ٴ لب
کیسے کیسے پھول بھرے ہیں گلچینوں کے دامن میں

دستِ غیب کی طرح چھپا ہے ظلم کا ہاتھ ستم کا وار
خشک لہو کی بارش دیکھی ہم نے کوچہ و برزن میں

سردار جعفری

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلےہو گئے ۔ شاہد کبیر

آج کی معروف غزل 

آج ہم بچھڑے ہیں تو کتنے رنگیلےہو گئے
میری آنکھیں سرخ، تیرے ہاتھ پیلےہو گئے

اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے

کب کی پتھر ہو چکی تھیں  منتظر آنکھیں مگر
چھو کے  جب دیکھا تو میرے  ہاتھ  گیلےہو گئے

جانے کیا احساس سازِحسن کے تاروں میں ہے
جن کو چھوتے ہی میرے نغمے رسیلےہو گئے

اب کوئی اُمید ہے شاھدؔ  نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلےہو گئے

شاہدکبیر 

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ ہمیشہ آتے رہے تغیر، ورق اُلٹتا رہا زمانہ ۔ صادق القادری صادق

غزل

ہمیشہ آتے رہے تغیر، ورق اُلٹتا رہا زمانہ
کبھی فسانہ بنا حقیقت، کبھی حقیقت بنی فسانہ

غمِ محبت کو دل نے سمجھا تھا سہل، جیسے غمِ زمانہ
مگر اُٹھایا یہ بوجھ میں نے تو جُھک گیا زندگی کا شانہ

ہم اپنی روداد کیا سنائیں، کچھ اس میں ہیں واقعات ایسے
اگر کوئی دوسرا سُناتا، ہمیں سمجھتے اُسے فسانہ

نظر ہے مہر و کرم کی مجھ پر، لبوں پہ اک طنزیہ تبّسم
شکست تسلیم کی ہے اس نے مگر بہ اندازِ فاتحانہ

کسی کے جانے کے بعد صادق کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے
کہ ایک مرکز پہ جیسے آکر ٹھہر گئی گردشِ زمانہ

صادق القادری صادق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا ۔ امجد اسلام امجد

غزل

اہلِ نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا
سایا ہو جن پہ درد کا، اُن کو پناہ کیا؟

ٹھہرا ہے اِک نگاہ پہ سارا مقدّمہ
کیسے وکیل! کون سا مُنصف! گواہ کیا!

کرنے لگے ہو آٹھوں پہر کیوں خدا کو یاد؟
اُس بُت سے ہو گئی ہے کوئی رسم و راہ کیا ؟

اے ربِّ عدل تُو مری فردِ عمل کو چھوڑ
بس یہ بتا کہ اِس میں ہے میرا گُناہ کیا؟

سارے فراق سال دُھواں بن کے اُڑ گئے
ڈالی ہمارے حال پہ اُس نے نگاہ کیا

کیا دل کے بعد آبروئے دل بھی رول دیں
دکھلائیں اُس کو جاکے کہ یہ حالِ تباہ کیا؟

جو جِتنا کم بساط ہے، اُتنا ہے معتبر
یارو یہ اہلِ فقر کی ہے بارگاہ ، کیا!

کیسے کہیں کہ کر گئی اِک سانحے کے بیچ
جادُو بھری وہ آنکھ، وہ جھکتی نگاہ کیا؟

(ق)

وہ بر بنائے جبر ہو یا اقتضائے صبر
ہر بُو لہوس سے کرتے رہو گے نباہ کیا

ہر شے کی مثل ہوگی،  کوئی بے کَسی کی حد؟
اس شہرِ بے ہُنر کا ہے دِن بھی سیاہ کیا

رستے میں تھیں غنیم کے پُھولوں کی پتّیاں
سالار بِک گئے تھے تو کرتی سپاہ کیا!

دل میں کوئی اُمّید نہ آنکھوں میں روشنی
نکلے گی اس طرح کوئی جینے کی راہ کیا؟

امجدؔ نزولِ شعر کے کیسے بنیں اُصول!
سیلاب کے لئے کوئی ہوتی ہے راہ کیا

امجد اسلام امجد


[ہفتہ ٴ غزل] ۔ فہمِ آدابِ سفر اہلِ نظر رکھتے ہیں ۔ راحیل فاروق

غزل 

فہمِ آدابِ سفر اہلِ نظر رکھتے ہیں
رکھتے ہیں ذوقِ نظر، زادِ سفر رکھتے ہیں

زندگی حسن پہ واری ہے تو آیا ہے خیال
منزلوں کو یہی جذبے تو امر رکھتے ہیں

شعلۂ  شمعِ کم افروز کو بھڑکاؤ کہ آج
چند پروانے ہواؤں کی خبر رکھتے ہیں

ایک پتھرائے ہوئے دل کا بھرم قائم ہے
کہتے پھرتے ہیں کہ لوہے کا جگر رکھتے ہیں

اس کے لہجے کا وہ ٹھہراؤ غضب کی شے ہے
جانے دل کو یہ دل آزار کدھر رکھتے ہیں؟

پاس رکھا کیے پندارِ جنوں کا راحیلؔ
آج دہلیز سے اٹھتے ہوئے سر رکھتے ہیں

راحیل ؔفاروق

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ تعریف غزل کی۔ ٢

تعریف غزل کی ۔ ٢

بات پھر وہیں سے شروع ہوتی ہے  کہ مروجہ تعریف کے مطابق غزل کے لغوی معنی ہیں "عورتوں سے باتیں کرنا" یا "عورتوں کی باتیں کرنا" تاہم آج کی غزل کے موضوعات بہت متنوع ہو گئے ہیں ۔غزل ہر شعر میں نئے موضوع، معنی آفرینی اور ندرتِ بیان کے ایسے شاہکار کی طلبگار ہوتی ہے کہ جس کی نظیر بامشکل ملے اور اسے چند گنے چنے رومانوی موضوعات تک محدود رکھنا غزل کی فضا کو محبوس کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ 

  ہماری رائے میں  محبوب سے گفتگو جس وارفتگی اور لگاوٹ کی متقاضی ہے اُس کے لئے  غزل سے زیادہ موزوں تر نظم ہے۔ پیہم گفتگو جو ماحول  چاہتی ہے وہ غزل کے فرد فرد مضامین  سے  زیادہ نظم فراہم کر سکتی ہے۔ نظم شعراء کو جذبات کے بہاؤ  ، شیفتگی  اور لگاؤ  کے اظہار کے لئے جو  فضا  دیتی ہے وہ غزل میں بالعموم نظر نہیں آتی۔  نظم کا تسلسل شاعر کو تمہید سے اختتام تک  اپنی بات کو با آسانی کہنے  میں آسانی فراہم کرتا ہے ۔ کچھ مسلسل غزلیات البتہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ 

غزل کی تعریف کو نظم پر منطبق کرنے کی ہماری جسارت شاید آپ کو کچھ بے جا معلوم ہو تاہم یہ ایک خیال ہے اور اس سے اختلاف  بہرکیف کیا جا سکتا ہے۔ 

ہمارے زاویہء نظر  سے اگر دیکھا جائے تو کئی ایک رومانی شعراء نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے  نظم کا سہارا لیا ہے۔ سرِ دست ہم یہاں جاوید صبا کی دو نظم نما غزلیں یا غزل نما نظمیں پیش کر رہے ہیں ۔ اس کلام کو اگر آپ نظم نہ بھی کہنا چاہیں تو مسلسل غزل کہے بغیر چارہ نہ ہوگا۔ 

 کون ہو کیا ہو یہ نہیں معلوم
یورپی ہو کہ ایشیائی ہو
ہو اِسی آب و گِل کی پروردہ 
یا پرستاں سے اُڑ کے آئی ہو
کس نے گُوندھی ہے آگ میں مٹی
کیسی ترکیبِ کیمیائی ہو
ایسی آنکھیں کہیں نہیں دیکھیں
تم یہ آنکھیں کہاں سے لائی ہو
بنتِ حوا ہو یا پری زادی
یا کسی سلطنت کی شہزادی
کس کو بیداد کرنے نکلی ہو 
کس کو برباد کرنے نکلی ہو
اے جمالِ جمالِ دل آرا 
حسن کی آخری دوائی ہو
حشر ساماں ہو آئینے کے لئے 
تم قیامت نہیں تباہی ہو

جاوید صبا

چپ چپ اداس اداس نظر آ رہی ہو تم
بیٹھے بٹھائے جانے کہاں کھو گئی ہو تم
ہونٹوں پہ اک خموش تبسم کی چاپ ہے 
آنکھیں بتا رہی ہیں بہت بولتی ہیں تم
شاید روا روی میں کوئی بات کر گیا
کہنا یہ چاہتا تھا کہ اچھی لگی ہو تم
اے جانِ بے فراق کسی کے فراق میں 
میں نے سنا ہے زہر تلک کھا چکی ہو تم
محفل میں جس سے بات ہوئی تھی وہ تم نہ تھی
خلوت میں میری جان کوئی دوسری ہو تم
انگڑائیوں میں نیند میں آنکھوں میں خواب میں
کوئی نہیں تمہی ہو، تمہی ہو، تمہی ہو، تم

جاوید صبا

جاوید صبا کے علاوہ  فارحہ نگارینہ کے نام لکھی جون کی یہ نظم بھی ہمارے خیال کی تائید کرتی ہے۔ 

تم نے مجھ کو لکھا ہے، میرے خط جلا دیجیئے
مجھ کو فکر رہتی ہے آپ انہیں گنوا دیجیئے
آپ کا کوئی ساتھی دیکھ لے تو کیا ہو گا
دیکھیے میں کہتی ہوں یہ بہت بُرا ہو گا

میں بھی کچھ کہوں تم سے اے مری فروزینہ
زشکِ سروِ سیمینا
اے بہ نازُکی مینا
اے بہ جلوہ آئینہ 
میں تمہارے ہر خط کو لوحِ دل سمجھتا ہوں
لوحِ دل جلا دوں کیا 
سطر سطر ہے ان کی، کہکشاں خیالوں کی
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
جو بھی حرف ہے ان کا ، نقشِ جانِ شیریں ہے
نقشِ جاں مٹا دوں کیا
ان کا جو بھی نقطہ ہے، ہے سوادِ بینائی
میں انہیں گنوا دوں کیا
لوحِ دل جلا دوں کیا
کہکشاں لُٹا دوں کیا 
نقشِ جاں مٹا دوں کیا

مجھ کو ایسے خط لکھ کر اپنی سوچ میں شاید
جرم کر گئی ہو تم
اور خیال آنے پر اس سے ڈر گئی ہو تم
جُرم کے تصور میں گر یہ خط لکھے تم نے
پھر تو میری رائے میں جُرم ہی کئے تم نے
اے مری فروزینہ! 
دل کی جانِ زرّینا!
رنگ رنگ رنگینا!
بات جو ہے وہ کیا ہے 
تم مجھے بتاؤ تو 
میں تمہیں نہیں سمجھا
تم سمجھ میں آؤ تو
جُرم کیوں کیےتم نے
خط ہی کیوں لکھے تم نے؟ 

جون ایلیا

علاوہ ازیں اختر شیرانی نے بھی اپنی یکے بعد دیگرے معشوقاؤں سے مخاطب ہونے کے لئے نظم یا مسلسل غزل کا ہی انتخاب کیا ہے جسے اردو شاعری جاننے والےجانتے ہیں۔ 

ویسے ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ غزل کی تعریف کو بدل دیا جائے تاہم اس تعریف کو ترقی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 

[ہفتہ ٴ غزل] ۔ دیوار پر لکھ دیا گیا ہے ۔ نوید صادق

غزل

دیوار پر لکھ دیا گیا ہے
یہ شہر، شکست آشنا ہے

تصویر میں جو دِکھا رہے ہو
کیا واقعی ایسا ہو چکا ہے

دنیا، گھر۔۔۔ مسئلے بہت ہیں
انسان پناہ مانگتا ہے

بس چار دِشائیں خالی کردو
جنگل نے مطالبہ کیا ہے

تم بھی شاید بھٹک گئے ہو
یہ اور کہیں کا راستہ ہے

کچھ رنگ کُھلے ہیں پیرہن کے
کچھ شام کی سیر کا نشہ ہے

بہتر ہے کہ ہم کہیں چلے جائیں
اس شہر میں یوں بھی اپنا کیا ہے

وہ شام، وہ ہم، وہ تم۔۔۔ زمانہ
دورانیہ مختصر رہا ہے

کچھ ٹھیک سے گفتگو نہیں کی
کچھ عجلت نے پھنسا دیا ہے

خاموش کیوں ہو نوید صادق؟
پھر کوئی کہیں چلا گیا ہے!

نوید صادق