تعریف غزل کی
محمد احمدؔ
رہاغزل میں "عورتوں سے باتیں کرنا " تو سب سے پہلے تو اس میں لفظ 'عورتوں' محلِ نظر ہے۔ اب نہ تو شاعر کوئی خطیب ہے اور نہ ہی غزل کوئی خطاب کے پنڈال میں عورتوں کو بٹھا کر وعظ و نصیحت شروع کرنے کی کوشش کی جائے۔ کوشش ہی ہو سکتی ہے ممکنات کی سرحدیں تو ابھی اتنی وسیع نہیں ہوئی ہیں۔ سو ہمارا خیال ہے کہ اس جمع لفظ کو واحد سے تبدیل کر لیا جائے اور عورتوں سے باتیں کرنے کے بجائے کسی خاتون سے مخاطب ہونے کو فی الوقت غزل سمجھا جائے۔ یعنی عورت سے باتیں کرنا۔
غزل کی تعریف کی اب جو صورت نکلی ہے ہمیں اُس میں بھی کچھ اشکال ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اگر خاتون موجود ہیں تو اُن سے باتیں محاورتاً تو کی جا سکتی ہیں لیکن دراصل ان سے باتیں کرنے کا مطلب اُن کی باتیں سننا ہے ۔ ہمیں کامل یقین ہے کہ آپ کسی خاتون کی موجودگی میں بولنے کا وقت ہرگز نہیں نکال پائیں گے۔ سو حاضر خاتون سے باتیں کرنا ممکن نہیں تو غزل کہنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔
رہ گئی غزل کی باقی ماندہ تعریف ، تو اس سے گمان ہوتا ہے کہ غزل دراصل کسی خاتون سے اُس کے غیاب میں باتیں کرنا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شعراء کو تو لوگ پہلے ہی مخبوط الحواس سمجھتے ہیں اگر وہ اکیلے بیٹھ کر غزل کہیں یعنی کسی ناری سے ہمکلام ہوں تو بہت سے لوگوں کو اُن کی دماغی حالت پر جو شکوک ہوا کرتے ہیں وہ فی الفور یقین میں بدل سکتے ہیں۔ اس مشکل کا حل شاعر نے ایک مفروضے کی صورت میں نکالا۔ وہ مفروضہ کچھ یوں ہے۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
یعنی جب کوئی ہماری دماغی حالت پر شک کرنے والا نہ ہو تو آپ ہمارے پاس فرض کیے جائیں گے وہ بھی ایک سامع کی حیثیت سے مقرر کی حیثیت سے نہیں ! اور پھر ہوگی غزل۔
اقبال نے کہا تھا کہ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا ۔ عین ممکن ہے کہ اس دیدہ وری سے اُن کی مراد غزل گوئی ہی رہی ہو۔ یعنی غزل کا ہونا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم جوئے شیر لانے کے مقابلے میں بہرحال آسان ہے جب ہی تو شعراء کدال اُٹھا نے کے بجائے شاعری کرکے فرہاد میاں سے مقابلے کیا کرتے ہیں اور اپنے تئیں جیت بھی جاتے ہیں۔ فرہاد نے تو یوں بھی آخر کار چاروں شانے اور آٹھوں گانٹھ چِت ہی ہونا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے دور میں کچھ خواتین زود گوئی کے ساتھ ساتھ غزل گوئی بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ تاہم ہمارا نہیں خیال کے یہ شاعرات عورتوں سے باتیں کرنے کے لئے غزل کہتی ہوں گی بلکہ اس کام کے لئے اُنہیں ہجو کی ضرورت پڑتی ہوگئی۔ غزل یہاں غالباً کسی اور مصرف میں آتی ہوگی ۔ تاہم غزل کی تعریف گھڑنے والوں کو اتنی جلدی تھی کہ اُنہوں نے غزل کی تعریف میں خواتین شعراء کی غزل گوئی کا انتظار ہی نہیں کیا اور خشتِ اول کج رکھ کر ہر دوسری خشت کو اُسی تناسب سے کج رکھتے گئے نتیجتاً دیوار ثریّا تک جانے کے بجائے ثریّا دیوار کی زد میں آگئی۔ موخر الذکر ثریّا پر کسی شاعرہ کا گمان کر نا آپ کی صوابدید پر ہے۔
بہرکیف :
آمدم برسرِ تعریف ِ غزل
بات چل نکلی ہے سو چل سو چل
غزل کی تعریف میں مزید یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہ وارداتِ عشق کی مختلف کیفیات کا بیان ہوتا ہے۔ اگر وارداتِ عشق کی اصطلاح میں واردات کا لفظ شامل نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ ہم اسے کسی کہنہ زمانے کی کوئی متروک اصطلاح سمجھتے ۔ لیکن واردات کی نا صرف اصطلاح بلکہ واردات باذاتِ خود آج کے دور میں کافی ان فیشن چیز ہے اور اس سے رو گردانی زمینی حقائق کو بہ یک جنبشِ سر نظر انداز کرنے کے مترادف ہو گی۔
غزل کی تعریف میں وکیپیڈیا مزید رقم طراز ہے کہ " غزل اس آواز کو بھی کہا جاتا ہے جو ہرن کے گلے سے اس وقت نکلتی ہے جب وہ شیر کے خوف سے بھاگ رہی ہوتی ہے۔" ویسے اگر ایسا ہے بھی تو ہمیں اس تعریف کی ہماری مروجہ غزل سے کوئی نسبت نظر نہیں آتی۔ ہاں البتہ غزل اُس آواز کو ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جو ایک شاعر دوسرے شاعر کے پیچھے بھاگتے ہوئے نکالتا ہے اور دوسرا شاعر وہ آواز ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے اور منہ سے تحسین کے الفاظ نکالنا اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے۔
بہر کیف غزل کی یہ سب تعریفیں تو وہ لوگ کرتے ہیں جو دوسروں کی غزل کی تعریف کرنے سے جی چراتے ہیں۔ حالانکہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ غزل اچھی لگے تو اُس کی تعریف کر دی جائے اور نہ لگے تو پھر یہ دیکھا جائے کہ غزل کس کی ہے۔ اگر غزل کے آگے پیچھے کسی بڑے شاعر کا نام نظر آئے تو غزل کی طرف سے آنکھ بند کرکے تعریف کر دینی چاہیے۔ ہاں اگر غزل کسی معاصر شاعر کی ہے تو اُس کی تعریف اُس انداز سے کی جائے کے شاعر بے چارہ تین دن تک سوچتا رہے کہ یہ تعریف ہی تھی یا کچھ اور۔
ویسے اگر آپ واقعی غزل کی تعریف پڑھنے میں سنجیدہ ہیں تو یہاں سے پڑھ سکتے ہیں۔
ہماری رائے میں غزل کی تعریف توجہ چاہتی ہے سو اس پر مزید بات کرتے ہیں ایک آدھ دن میں۔ :)