غزل ۔ بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ ۔ محمد احمدؔ

غزل

بن کر جو کوئی سامنے آتا ہے آئینہ
خیمے میں دل کے آکے لگاتا ہے آئینہ

وہ کون ہے یہ مجھ سے کبھی پوچھتا نہیں
میں کون ہوں یہ مجھ کو بتاتا ہے آئینہ

اس عکس کے برعکس کوئی عکس ہے کہیں
کیوں عکس کو برعکس دکھاتا ہے آئینہ

خود کو سجائے جاتے ہیں وہ آئینے کو دیکھ
جلووں سے اُن کے خود کو سجاتا ہے آئینہ

خود آئینے پہ اُن کی ٹھہرتی نہیں نظر
کیسے پھر اُن سے آنکھ ملاتا ہے آئینہ


یہ میرا عکس ہے تو مگر اجنبی سا ہے
کیوں کر مجھے مجھی سی چُھپاتا ہے آئینہ

کب دل کے آئینے میں کھلا کرتے ہیں گُلاب
کب آئینے میں پھول کھلاتا ہے آئینہ

آویزہ دیکھتے ہیں وہ جُھک کر قریب سے
یا اُن کو کوئی راز بتاتا ہے آئینہ

جب میرا عکس مجھ سے مماثل نہیں رہا
کیوں میرا عکس مجھ کو دکھاتا ہے آئینہ

اس آئینے میں عکس کسی کا ہے رات دن
احمدؔ یہ عشق دل کو بناتا ہے آئینہ
محمد احمدؔ

ایک 'جُوں' کا کھلا خط (اردو دان طبقے کے نام ​)

ایک 'جُوں' کا کھلا خط
اردو دان طبقے کے نام ​

اس کھلے خط کی وساطت سے میں مسمات "جُوں" بقائمی ہوش و حواس اردو دان طبقے کے آگے چند حقائق رکھنا چاہتی ہوں تاکہ میرے متعلق ایک گمراہ کن محاورے اور کچھ دیگر قبیح غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے اور آئندگان کی اصلاح کا بندوبست بھی۔

دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اپنے مخالفین کی بے حسی کا ذکر کرتے ہوئے اُ ن کے کانوں پر جوں کےرینگنے یا نہ رینگنے کا ذکر کرتے ہیں اور اس طرح پوائنٹ اسکورنگ کرکے اپنے نمبر بڑھانے اور دوسروں کے نمبر گھٹانے کا قومی فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہےکہ جوں رینگنے کا محاورہ زیادہ تر اُن لوگوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ جن کے سر پر بال ہی نہیں ہوتے یا ہوتے بھی ہیں تو اتنے سرسری کہ جوؤں کی رہائش تو کجا خیمہ گاہ کا کام بھی نہیں کر سکتے۔ اب ان بے انصاف لوگوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب سر میں ہی جوؤں کے معقول قیام و طعام کا بندوبست نہ ہو تو وہ کانوں پر کیونکر رینگنے لگی۔ پھر یہ بھی ہے کہ جوئیں کسی سیاست دان کی فرزندِ ارجمند تو ہیں نہیں کہ جنہیں براہِ راست ہیلی کاپٹر کے ذریعے کان پر لانچ کر دیا جائے کہ جناب رینگیے ۔


چلیے فرض کرلیا کہ مذکورہ بے حس شخص کے سر پر بال بھی ہیں اور اُس میں کسی حد تک جوؤں کی رہائش کا انتظام بھی ہے تب بھی جوؤں کو کیا پڑی کہ وہ اتنے بڑے سر کو چھوڑ کر کانوں پر آ کر رینگنا شروع کردیں۔ جو ناعاقبت اندیش اس قسم کی لغو باتیں کرتے ہیں اُنہیں شاید کانوں کی بناوٹ ، بے قرینہ اُتار چڑھاؤ اور دُشوار گزار گھاٹیوں کا اندازہ ہی نہیں ہے ۔ کیا جوئیں بے چاری جو پہلے ہی نہ جانے کیسے عسرت میں گزارا کر رہی ہوتی ہیں اس بات کی متحمل ہوسکتی ہیں کہ کان جیسی ناگفتہ بہ جگہ پر اسکیٹ بورڈنگ اور آئس سلائڈنگ قسم کے غیر سود مند کھیل کھیلیں اور اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بے حسوں کو گوش کے بل گوشہء احساس میں داخل کرنے کی سعی ِ لاحاصل کریں۔

پھر رینگنے کی ہی کیا تُک ہے۔ جوں بے چاری چل بھی سکتی ہے اور بوقتِ ضرورت دوڑ بھی سکتی ہے۔ آپ نے کبھی وہ منظر دیکھا ہے کہ جب کوئی حسینہ اپنے بالوں میں کیٹر پلر کی دہشتناک مشنری ٹائپ چیز یعنی کنگھی گھماتی ہے۔ اُس وقت دیکھنے کی ہوتی ہے جوؤں کی برق رفتاری۔ لیکن افسوس کے وہاں دیکھنے والی بھی صرف جوئیں ہی ہوتی ہیں اور اُنہیں اس وقت دیکھنے کی فرصت نہیں ہوتی ۔ سو یہ رینگنے والی بات پر سوچیں اور محاورے کو تازہ کریں۔ کان پر جوں رینگنے کے بجائے چلنا ہی کردیں۔ اور کان ہی کیوں ناک پر بھی جوں رینگ سکتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ مو صوف تو ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتے تو ٹھیک ہے ۔ مکھی کو کان پربٹھا دیں اور جوں کو ناک پر رینگوادیں۔ آپ کے کون سے پیسے لگیں گے۔ دو نئے اور تازہ محاورے ہاتھ آ جائیں گے۔

بہرکیف ، میری تمام متعلقین سے درخواست ہے کہ تھوڑے کہے کو بہت جانیں اور فوراً سے پیشتر اِس سلسلے میں معقول اقدامات کیے جائیں۔ آپ لوگ خود بھی اپنی حرکتیں ٹھیک کریں اور بے حسی کو صرف دوسروں کی جاگیر نہ قرار دیں اور اپنے دل میں بھی درد مندی کا احساس پیدا کریں۔ مزید یہ کہ بے حسوں کے کانوں پر جوں رینگوانے کے بجائے اُن کے کان کے نیچے محبت نامے بھی رسید کیے جا سکتے ہیں ، یہ کافی ساری بیماریوں کے لئے شافی نسخہ ہے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔

والسلام

خیر اندیش

آپ کی 'اپنی'
جُوں

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا

غزل

عشق اک دشت ہائے وحشت تھا
دل بنَا ہی برائے وحشت تھا

بے قراری سکوں کی زیریں تہہ
اور سکوں بر بِنائے وحشت تھا

اشک قطرہ نہ تھا، سمندر تھا
غمِ دل آبنائے وحشت تھا

تھی ازل سے ہی بے قرار ہوا
اس کی فطرت میں پائے وحشت تھا

اک تڑپ بانسری کی لے میں تھی
ساز گویا صدائے وحشت تھا

کیا اُسے حالِ دل سناتے ہم
نغمہء دل نوائے وحشت تھا​

محمد احمدؔ

پکسل پرفیکٹ پاکستان

پکسل پرفیکٹ پاکستان​

جب بھی ہم کسی ملک کی بات کرتے ہیں تو دراصل اُس کے لوگوں کی بات کرتے ہیں۔ اُس ملک کی خوبیاں اُس کے لوگوں کی خوبیاں ہوتی ہیں اور اُس کے عیب اُس کے لوگوں کے معائب ہوتے ہیں۔ 

اگر پاکستان ایک تصویر ہے تو ہم پاکستانی اُس کے پکسلز* ہیں۔ اگر ہر پکسل خود کو اُجلا اور روشن بنا لے تو پاکستان کا چہرہ سنور جائے اور اس تصویر کا تصور تک تابناک ہو جائے۔ 

جتنی پاکستان کی آبادی ہے اُس اعتبار سے دیکھا جائے تو اتنی اچھی ریزولوشن کی تصویر ہر خطے کی قسمت میں کہاں۔ بہت سی تصویریں تو اتنی مبہم ہیں کہ صحیح طرح خط و خال بھی واضح نہیں ہو پاتے۔ بس ضرورت اس بات کہ ہے کہ ہر پاکستانی اپنی خامیاں کوتاہیاں دور کرنے کی کوشش کرے اور خوبیوں کو فزوں تر کرنے کی۔ 

اقبال نے کہا تھا :

افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر 
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اگر ہم سب پاکستانی خود کو بہتر بنانے کی کوشش کریں تو پاکستان کا مجموعی تاثر بہتر ہو جائے گا۔ اگر پاکستان کی تصویر کا ہر پکسل اپنی جگہ پرفیکٹ ہو جائے تو پھر ہمارا پاکستان "پکسل پرفیکٹ پاکستان" بن سکتا ہے۔ 

تمام دوستوں ، ساتھیوں اور احباب کو یومِ آزادی پاکستان مبارک۔ ​



 پکسل، ایسے نقظوں کو کہتے ہیں کہ جن کی مدد سے ڈجیٹل تصویر مکمل ہوتی ہے۔ *

غزل ۔ اب جو خوابِ گراں سے جاگے ہیں

غزل

اب جو خوابِ گراں سے جاگے ہیں
پاؤں سر پر رکھے ہیں، بھاگے ہیں

خارِ حسرت بھرے ہیں آنکھوں میں
پاؤں میں خواہشوں کے تاگے ہیں

خوف ہے، وسوسے ہیں لیکن شُکر
عزم و ہمت جو اپنے آگے ہیں

رخت اُمید ہے سفر کی جاں
ساز و ساماں تو کچے دھاگے ہیں

تم سے ملنا تو اک بہانہ ہے
ہم تو دراصل خود سے بھاگے ہیں

لاگ لاگے نہیں لگی احمدؔ
ہم جو سوئے تو بھاگ جاگے ہیں

محمد احمدؔ​
 
 

نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے زندگی اے دوست

غزل

نہ پوچھ کیسے گزرتی ہے زندگی اے دوست
بڑی طویل کہانی ہے، پھر کبھی اے دوست

کوئی زمانے میں رہتا نہیں خوشی سے اُداس
بس اور کیا کہوں وجہِ فسردگی اے دوست

سمجھتے ناز کہاں تک ترے تغافل کو
خطا معاف کہ ہم بھی ہیں آدمی اے دوست

سیہ نصیب نہ مجھ سا بھی ہو زمانے میں
ترے بغیر گزرتی ہے چاندنی اے دوست

نہ جانے کیوں تری قربت کے بھی حسیں لمحات
گراں گزر گئے دل پر کبھی کبھی اے دوست

صادق القادری صادق

بات پھر ان کہی رہ گئی

خاکسار کی ایک پرانی غزل
قارئینِ بلاگ کے نام

غزل

اور کیا زندگی رہ گئی
اک مسلسل کمی رہ گئی

وقت پھر درمیاں آگیا
بات پھر ان کہی رہ گئی

پاس جنگل کوئی جل گیا
راکھ ہر سو جمی رہ گئی

زر کا ایندھن بنی فکرِ نو
شاعری ادھ مری رہ گئی

میں نہ رویا نہ کھل کر ہنسا
ہر نفس تشنگی رہ گئی

تم نہ آئے مری زندگی
راہ تکتی ہوئی رہ گئی

پاسِ دریا دلی رکھ لیا
لاکھ تشنہ لبی رہ گئی

پھر فنا کا پیام آگیا
ایک اُمید تھی، رہ گئی

آپ احمدؔ کہاں رہ گئے
اور کہاں زندگی رہ گئی

محمد احمدؔ​