غزل
اب جو خوابِ گراں سے جاگے ہیں
پاؤں سر پر رکھے ہیں، بھاگے ہیں
خارِ حسرت بھرے ہیں آنکھوں میں
پاؤں میں خواہشوں کے تاگے ہیں
خوف ہے، وسوسے ہیں لیکن شُکر
عزم و ہمت جو اپنے آگے ہیں
رخت اُمید ہے سفر کی جاں
ساز و ساماں تو کچے دھاگے ہیں
تم سے ملنا تو اک بہانہ ہے
ہم تو دراصل خود سے بھاگے ہیں
لاگ لاگے نہیں لگی احمدؔ
ہم جو سوئے تو بھاگ جاگے ہیں
محمد احمدؔ
اس خوبصورت تحفہ کا شکریہ۔۔
جواب دیںحذف کریںمیں آپ کی اس کاوش کو سراہتا ہوں اور اردو کی نیٹ پہ ترقی کے لیئے ایک سنگ میل گردانتا ہوں۔۔
شکریہ اے گمنام مداح! :)
جواب دیںحذف کریںآپ کی حوصلہ افزائی خاکسار کے لئے مشعلِ راہ کا کام کرے گی۔ :)
کمال است
جواب دیںحذف کریںبہت شکریہ غزنوی صاحب!
جواب دیںحذف کریں