اسلام میں روزہ افطار کروانے والے کے لئے بڑا اجر ہے۔ حتی کہ اگر آپ کسی شخص کا روزہ ایک کھجور یا ایک گلاس پانی سے بھی افطار کروادیں تو ثواب کے مستحق ٹھہریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص کسی روزدار کا روزہ افطار کروائے گا تو اُسے بھی روزہ دار کے اجر کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
سو جیسا کہ ایک مسلم معاشرے میں ہونا چاہیے ہمارے ہاں بھی بڑے پیمانے پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے دسترخوانوں پر افطار کا بندوبست کرکے عوام الناس کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ یقیناً جو لوگ یہ کام خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں اُن کا اجر اُنہیں مل کر رہے گا۔
تاہم آج کل ایک اور اصطلاح "افطار ڈنر" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ اصطلاح زیادہ تر ہائی پروفائل کاروباری افطار کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ آج کل کاروپوریٹ دنیا میں بھی مختلف کمپنیز افطار ڈنر کا اہتمام کرتی ہیں اور اپنے کاروباری متعلقین کو افطار ڈنر پر مدعو کرتی ہیں ۔ کثیر الاقوامی کمپنیز کے علاوہ بھی بہت سے کاروباری حضرات حسب ِ حیثیت اس طرح کے افطار ڈنر کا بندوبست کرتے ہیں اور اپنے معزز گاہکوں اور دیگر کاروباری متعلقین کو مدعو کرتے ہیں۔ عموماً اس قسم کی بزنس افطار کا مقصد گاہکوں اور دیگر کاروباری لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے اور افطار کے سلسلے میں ہونے والی یہ ملاقاتیں مستقبل میں بہتر کاروباری تعلقات کا سبب گردانی جاتی ہیں۔
خاکسار کا خیال ہے کہ افطار کا اہتمام صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جانا چاہیے اور خصوصاً اس معاملے میں دنیاوی فائدے کے بجائے اُخروی اجر کو فوقیت دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ دیگر کاروباری ملاقاتوں کواگر اس معاملے سے الگ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بہر کیف نیّتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں خود احتسابی سے کام لے کہ اچھائی اور برائی کی تمیز اُسے ودیعت کر دی گئی ہے ۔ یوں بھی انسان ذاتی حیثیت میں ہی خدا کو جواب دہ ہوگا۔
اس کے علاوہ آج کل افطار پارٹیز میں بوفے سسٹم بھی بہت عام ہے۔ بوفے سسٹم سے مراد یہ ہے کہ مخصو ص ریستورانوں میں یہ انتظام ہوتا ہے کہ ایک خاص رقم خرچ کرکے آپ جتنا کھا سکتے ہیں کھائیں*۔ عموماً بوفے میں انواع و اقسام کے اتنے کھانے ہوتے ہیں کہ اُنہیں کھانا تو کُجا گننا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اکثر لوگ تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ اور بہت کھا کر بھی بہت سے کھانوں کو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کاش یہ بھی کھالیتے لیکن اپنی محدود گنجائش کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ اتنے سارے کھانوں اور نایاب اشیاء کی دستیابی کی وجہ سے بوفے ڈنر بہت مہنگا ہوتا ہے نیز حسرت و گنجائش کی کشمکش کے باعث بوفے میں کھانا ضائع بھی بہت ہوتا ہے۔
عموماً ہوتا یوں ہے کہ کاروباری کمپنیز یا وہ شخض جو سب کو افطار پارٹی پر مدعو کرتا ہے اُن سب کے طعام کی رقم بوفے ریستوران والوں کو دے دیا کرتا ہے اور اس طرح افطار پارٹی کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے طور پر ہی یعنی انفرادی طور پر اپنی جیب سے رقم ادا کرکے بھی بوفے افطار ڈنر سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب نعمتیں میسر آتی تھیں تو وہ اِس خوف سے لرز جاتے تھے کہ کہیں اُن کی نیکوں کا بدلہ دنیا میں ہی نہ مل جائے اور آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہ رہے۔ یہ تو بات تھی صحابہ کرام کی کہ جن کے مرتبے کو ایک عام مسلمان کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا بلکہ شاید اُن کے مرتبے کا صحیح ادراک بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔
بوفے افطار میں یا افطار ڈنر میں اتنی ساری نعمتیں ایک ساتھ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں جو اس ریستوران کی چار دیواری میں ہوں مجھے یہ سب نعمتیں میسر آ گئیں ہیں لیکن اس دیوار کے اُس طرف نہ جانے کتنے لوگ ہیں کہ جنہیں ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ بلکہ اسی چار دیواری میں ریستوران کے ملازموں میں نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جو اپنی زندگی میں ان سب چیزوں کے بارے میں صرف حسرت سے ہی سوچتے ہوں گے۔ پھر جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ جن کے مرتبے کا صحیح اندازہ کرنا بھی عام مسلمان کے لئے ممکن نہیں ہے، نعمتوں کے میسر آنے پر اس قدر خشیعت میں مبتلا ہو جاتے تھے تو ہمارا ، ہم عام بے عمل مسلمانوں کا کیا حال ہونا چاہیے۔
ہم کس منہ سے اللہ کو جواب دیں گے کہ جب پوچھا جائے گا کہ احمد تم جب اَسّی یا ایک سو بیس کھانوں میں سے فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ کیا کھاؤں اور کیا نہ کھاؤں تب اُس دیوار کے پار ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جس کو صرف ایک روٹی درکار تھی اور تم نے اُس کا احساس ہی نہیں کیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا حل کیا ہے تو اس کا جواب سادہ سا ہے یعنی "میانہ روی" ۔ ہمیں ہر ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔ اور اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔ نعمتیں میسر آئیں تو غرباء اور مساکین کا خیال آنا چاہیے اور حتی المقدور کوشش کرکے اُنہیں بھی کسی نہ کسی حد تک اُن نعمتوں میں حصہ دار بنا لینا چاہیے۔ ذاتی حیثیت میں مجھے بوفے ڈنر پسند نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس سے آدھے پیسے خرچ کرکے انسان بہت سہولت کے ساتھ اچھا کھانا کھا سکتا ہے اور بچنے والے پیسے اُن لوگوں کے کام آ سکتے ہیں کہ جن کی بابت آپ سے حشر میں سوال کیا جا سکتا ہے۔
دعا فرمائیے کہ اللہ رب العزت خاکسار کی نیت کو اور اس معمولی کاوش کو اپنے لئے خالص کرلے اور ہر طرح کی ریاکاری اور نفس و شیطان کی شر سے محفوظ فرمائے۔ مزید یہ کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ماہِ رمضان کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔