افطار ڈنر


اسلام میں روزہ افطار کروانے والے کے لئے بڑا اجر ہے۔ حتی کہ اگر آپ کسی شخص کا روزہ ایک کھجور یا ایک گلاس پانی سے بھی افطار کروادیں تو ثواب کے مستحق ٹھہریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جو شخص کسی روزدار کا روزہ افطار کروائے گا تو اُسے بھی روزہ دار کے اجر کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

سو جیسا کہ ایک مسلم معاشرے میں ہونا چاہیے ہمارے ہاں بھی بڑے پیمانے پر افطار کا اہتمام کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے دسترخوانوں پر افطار کا بندوبست کرکے عوام الناس کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ یقیناً جو لوگ یہ کام خالصتاً اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں اُن کا اجر اُنہیں مل کر رہے گا۔

تاہم آج کل ایک اور اصطلاح "افطار ڈنر" کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہ اصطلاح زیادہ تر ہائی پروفائل کاروباری افطار کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ آج کل کاروپوریٹ دنیا میں بھی مختلف کمپنیز افطار ڈنر کا اہتمام کرتی ہیں اور اپنے کاروباری متعلقین کو افطار ڈنر پر مدعو کرتی ہیں ۔ کثیر الاقوامی کمپنیز کے علاوہ بھی بہت سے کاروباری حضرات حسب ِ حیثیت اس طرح کے افطار ڈنر کا بندوبست کرتے ہیں اور اپنے معزز گاہکوں اور دیگر کاروباری متعلقین کو مدعو کرتے ہیں۔ عموماً اس قسم کی بزنس افطار کا مقصد گاہکوں اور دیگر کاروباری لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے اور افطار کے سلسلے میں ہونے والی یہ ملاقاتیں مستقبل میں بہتر کاروباری تعلقات کا سبب گردانی جاتی ہیں۔

خاکسار کا خیال ہے کہ افطار کا اہتمام صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے کیا جانا چاہیے اور خصوصاً اس معاملے میں دنیاوی فائدے کے بجائے اُخروی اجر کو فوقیت دینی چاہیے۔ مزید یہ کہ دیگر کاروباری ملاقاتوں کواگر اس معاملے سے الگ رکھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بہر کیف نیّتوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے سو ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں خود احتسابی سے کام لے کہ اچھائی اور برائی کی تمیز اُسے ودیعت کر دی گئی ہے ۔ یوں بھی انسان ذاتی حیثیت میں ہی خدا کو جواب دہ ہوگا۔

اس کے علاوہ آج کل افطار پارٹیز میں بوفے سسٹم بھی بہت عام ہے۔ بوفے سسٹم سے مراد یہ ہے کہ مخصو ص ریستورانوں میں یہ انتظام ہوتا ہے کہ ایک خاص رقم خرچ کرکے آپ جتنا کھا سکتے ہیں کھائیں*۔ عموماً بوفے میں انواع و اقسام کے اتنے کھانے ہوتے ہیں کہ اُنہیں کھانا تو کُجا گننا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اکثر لوگ تو یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں۔ اور بہت کھا کر بھی بہت سے کھانوں کو حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کاش یہ بھی کھالیتے لیکن اپنی محدود گنجائش کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ اتنے سارے کھانوں اور نایاب اشیاء کی دستیابی کی وجہ سے بوفے ڈنر بہت مہنگا ہوتا ہے نیز حسرت و گنجائش کی کشمکش کے باعث بوفے میں کھانا ضائع بھی بہت ہوتا ہے۔

عموماً ہوتا یوں ہے کہ کاروباری کمپنیز یا وہ شخض جو سب کو افطار پارٹی پر مدعو کرتا ہے اُن سب کے طعام کی رقم بوفے ریستوران والوں کو دے دیا کرتا ہے اور اس طرح افطار پارٹی کا اہتمام ہو جاتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے طور پر ہی یعنی انفرادی طور پر اپنی جیب سے رقم ادا کرکے بھی بوفے افطار ڈنر سے لطف اندوز ہو جاتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جب نعمتیں میسر آتی تھیں تو وہ اِس خوف سے لرز جاتے تھے کہ کہیں اُن کی نیکوں کا بدلہ دنیا میں ہی نہ مل جائے اور آخرت میں اُن کا کوئی حصہ نہ رہے۔ یہ تو بات تھی صحابہ کرام کی کہ جن کے مرتبے کو ایک عام مسلمان کبھی بھی نہیں پہنچ سکتا بلکہ شاید اُن کے مرتبے کا صحیح ادراک بھی عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

بوفے افطار میں یا افطار ڈنر میں اتنی ساری نعمتیں ایک ساتھ دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں جو اس ریستوران کی چار دیواری میں ہوں مجھے یہ سب نعمتیں میسر آ گئیں ہیں لیکن اس دیوار کے اُس طرف نہ جانے کتنے لوگ ہیں کہ جنہیں ڈھنگ سے دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ بلکہ اسی چار دیواری میں ریستوران کے ملازموں میں نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے جو اپنی زندگی میں ان سب چیزوں کے بارے میں صرف حسرت سے ہی سوچتے ہوں گے۔ پھر جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ جن کے مرتبے کا صحیح اندازہ کرنا بھی عام مسلمان کے لئے ممکن نہیں ہے، نعمتوں کے میسر آنے پر اس قدر خشیعت میں مبتلا ہو جاتے تھے تو ہمارا ، ہم عام بے عمل مسلمانوں کا کیا حال ہونا چاہیے۔

ہم کس منہ سے اللہ کو جواب دیں گے کہ جب پوچھا جائے گا کہ احمد تم جب اَسّی یا ایک سو بیس کھانوں میں سے فیصلہ نہیں کر پارہے تھے کہ کیا کھاؤں اور کیا نہ کھاؤں تب اُس دیوار کے پار ایک شخص ایسا بھی تھا کہ جس کو صرف ایک روٹی درکار تھی اور تم نے اُس کا احساس ہی نہیں کیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کا حل کیا ہے تو اس کا جواب سادہ سا ہے یعنی "میانہ روی" ۔ ہمیں ہر ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی سے کام لینا چاہیے۔ اور اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔ نعمتیں میسر آئیں تو غرباء اور مساکین کا خیال آنا چاہیے اور حتی المقدور کوشش کرکے اُنہیں بھی کسی نہ کسی حد تک اُن نعمتوں میں حصہ دار بنا لینا چاہیے۔ ذاتی حیثیت میں مجھے بوفے ڈنر پسند نہیں ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اس سے آدھے پیسے خرچ کرکے انسان بہت سہولت کے ساتھ اچھا کھانا کھا سکتا ہے اور بچنے والے پیسے اُن لوگوں کے کام آ سکتے ہیں کہ جن کی بابت آپ سے حشر میں سوال کیا جا سکتا ہے۔

دعا فرمائیے کہ اللہ رب العزت خاکسار کی نیت کو اور اس معمولی کاوش کو اپنے لئے خالص کرلے اور ہر طرح کی ریاکاری اور نفس و شیطان کی شر سے محفوظ فرمائے۔ مزید یہ کہ اللہ رب العزت ہم سب کو ماہِ رمضان کے فیوض و برکات سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

*Buffet restaurants typically offer all-you-can-eat (AYCE) food for a set price. Wikipedia

ماہِ رمضان اور تین شارٹ کٹس


ہم میں سے اکثر لوگ کسی کا م کی انجام دہی کا آسان طریقہ یا شارٹ کٹ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شارٹ کٹ تلاش کرنا کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں ہے لیکن کم از کم دو شرائط ضرور پوری ہونی چاہیے۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ شارٹ کٹ سے حاصل ہونے والا نتیجہ بھی بعینہ ویسا ہی ہو جیسا کہ مروجہ راستہ اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور دوسری شرط یہ کہ شارٹ کٹ صرف اُس وقت قابلِ قبول ہوگا جب کسی کام کرنے کا متعیّن طریقہ مطلوب و مقصود ہدف کا لازمی جز نہ ہو۔

فرض کیجے کچھ لوگ ایک میدان میں مسابقت کی دوڑ لگاتے ہیں اور یہ طے ہوتا ہے کہ جو شخص میدان کا چکر سب سے پہلے کاٹ کر متعین کردہ مقام پر پہنچ جائے گا وہ دوڑ کا فاتح قرار پائے گا ۔ عموماً دوڑ ختم ہونے کا مقام دوڑ شروع ہونے کے مقام سے ذرا سا ہی پیچھے ہوتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص میدان کا چکر پورا کرنے کے بجائے پیچھے مُڑے اور بھاگ کر دوڑ ختم ہونے کے مقام پر پہنچ جائے تو وہ فاتح ہرگز نہیں کہلائے گا کیونکہ میدان کا چکر مکمل کرنا فتح حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا۔ سو اکثر اوقات شارٹ کٹس اس لئے اچھے نہیں ہوتے کہ وہ مطلوبہ طریقے سے صرفِ نظر کرتے ہیں اور پیشِ نظر سرگرمی کا حاصل اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔

اسی طرز پر ماہِ رمضان میں بھی ہم لوگوں نے کچھ شارٹ کٹس ڈھونڈ لیے ہیں، آج ہم اُنہی کا ذکر کریں گے۔

سب سے پہلے ذکر کریں گے چھ روزہ یا دس روزہ تراویح کا۔ آج کل ہمارے ہاں چھ روزہ یا دس روزہ یا پندرہ روزہ تراویح پڑھنے پڑھانے کا بہت رجحان ہے۔ اس طرز کی تراویح کاروباری حضرات بہت پسند کرتے ہیں کہ وہ رمضان کے شروع میں ہی تراویح کے فریضے سے نمٹ جاتے ہیں اور آخر کے دنوں میں جب عید کی خریداری عروج پر ہوتی ہے تو وہ تراویح سے بچنے والا وقت اپنے کاروبار کو دے سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سوچ بھی بُری نہیں ہے تاہم چونکہ یہ مروجہ طریقے سے ہٹ کر ہے سو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔

اُس کے بعد وہ لوگ آتے ہیں جو سحر کے وقت اُٹھنے کی زحمت سے بچنے کے لئے رات کو ہی کھا پی کر سو جاتے ہیں اور سحری میں اُٹھنے کے بجائے فجر کی نماز میں ہی اُٹھتے ہیں اور کچھ لوگ تو فجر میں بھی نہیں اُٹھتے۔ اسلام میں سحری کھانے کی بڑی فضیلت بتائی جاتی ہے سو کوشش کرنی چاہیے کہ سحری کھائی جائے اور تھوڑی سی زحمت اُٹھا کر اس نعمت سے محروم نہ رہا جائے۔

کچھ لوگ یوں بھی کرتے ہیں کہ صبح سحری اور نماز سے فراغت کے بعد سو جاتے ہیں اور پھر سارا دن سوتے رہتے ہیں۔ کچھ نمازِ ظہر کے بعد اُٹھتے ہیں کچھ تو عصر بھی گنوا دیتے ہیں۔ گو کہ روزے میں سونے کی ممانعت نہیں ہے بلکہ روزہ دار کو تو سونے کا بھی ثواب ملتا ہے لیکن کثر ت سے سونے سے آپ بھوک اور پیاس کے احساس سے بچ جاتے ہیں۔ نتیجتاً آپ اس عبادت کی روح سے محروم ہو جاتے ہیں یعنی ایسا روزہ آپ میں دوسروں کی محرومیوں اور بھوک پیاس کا احساس نہیں جگا پاتا ۔ جب کہ روزہ تو نام ہی اس احساس کے پیدا کرنے کا ہے سو اس معاملے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔

آخر میں ایک بات۔ اور وہ یہ کہ یہ سب باتیں عمومی ہیں اور خاکسار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں، سو ان سب باتوں کو سخت تاکید یا فتویٰ سمجھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ کو ان میں سے کسی معاملے پر کوئی اشکال ہے تو آپ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے حضرات سے پوچھ سکتے ہیں۔

اللہ ہمیں اور آپ کو ماہِ صیام کے فیوض برکات سے کما حقہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


رمضان اور خریداری


رمضان شروع ہونے سے کچھ دن پہلے ہمارے ہاں بازاروں میں رش بڑھ جاتا ہے۔ بازاروں اور سپر اسٹورز میں خریدار ی اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ چلنے پھرنے تک کی جگہ نہیں ہوتی۔ ہر شخص اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ خریداری کرتا نظر آتا ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہی خیال ہوتا ہے کہ بس ابھی جو خریدنا ہے خرید لیں اور پورا رمضان کوئی خریدار ی نہ کریں۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اس خوف سے خریداری میں لگ جاتے ہیں کہ رمضان میں اشیاء کی قیمتیں بہت بڑھ جائیں گی سو سب کچھ پہلے سے خرید کر رکھ لیں۔

بہر کیف اس کثرتِ خریداری کی وجہ کچھ بھی ہو اس سے ہوتا یہ ہے کہ بازار میں اشیاء خورد و نوش کی طلب ایک دم سے بڑ ھ جاتی ہے۔ اشیاء کی طلب بڑھنے سے طلب اور رسد کا توازن بگڑ جاتا ہے اور نتیجتاً قیمتیں آسمان پر پہنچ جاتی ہیں۔ اس طرح افرات کے ساتھ خریداری کرنے والے مہنگائی میں اضافے کا بلواسطہ سبب بن جاتے ہیں اورغریب لوگ جو تھوڑی بہت خریداری کی ہی سکت رکھتے ہیں اُس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ رمضان ایسا مہینہ ہے کہ جس میں ہم غریب مسکین لوگوں کی تکالیف کا احساس کرنا سیکھ سکتے ہیں جانے انجانے میں ہم خود ہی اُن کی تکلیف میں اضافے کا سبب بن جاتے ہیں۔ سو یہ بات اہم ہے کہ ہم خریداری میں اعتدال سے کام لیں اور بے جا اشیاء خرید کر بازار میں قیمتوں کا توازن خراب ہونے سے بچائیں۔

آپ کی ذرا سی توجہ ماحول میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔ 

رمضان مبارک



ان شاءاللہ کچھ ہی دنوں میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہونے والا ہے ۔ سو آج سے اس ماہ کے بارے میں کچھ بات کرتے ہیں۔ اسلامی مہینوں میں رمضان المبارک بڑی شان و عظمت والا مہینہ ہے۔ یہ ماہِ مبارک بے انتہا با برکت ہے اور اسے طرح طرح کی دنیاوی اور اُخروی نعمتوں سے مزیّن کیا گیا ہے۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس ماہِ مبارک میں اللہ رب العزت نے مسلمانوں پر روزے رکھنا فرض کیے ہیں۔ روزے رکھنے کی غرض و غایت یہ ہےکہ انسان میں تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو جائے۔ پرہیزگاری سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کو اللہ رب العزت کی مرضی کے تابع کر دے اور ہر ہر معاملے میں اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو فوقیت دینا شروع کر دے۔ رمضان کی ایک ماہ کی یہ تربیت مسلمانوں کو باقی تمام مہینوں میں بھی پرہیزگاری اور اطاعت اخیتار کرنے میں مدد دیتی ہے۔

روزے کا دوسرا اہم مقصد یہ ہے کہ انسا ن بھوک پیاس میں رہ کر اُن لوگوں کا احساس کرسکے جو اشیائے خوردو نوش کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ ہم جو ہمہ وقت اللہ کی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے رہتے ہیں اور اُس کا شکر تک ادا نہیں کرتے ، ہمیں روزہ یہ احساس دلا تا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں لذتِ کام و دہن تو کُجا پیٹ بھرنے کے لئے معمولی غذا بھی میسر نہیں ہے۔ اگر ہمارا روزہ ہمیں یہ احساس دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر تو ہمارا روزہ ٹھیک ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

علاوہ ازیں رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں قرانِ کریم نازل ہوا ۔ سو قرانِ کریم کے تعلق سے بھی یہ مہینہ بے حد اہم ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں کو قیام اللیل کا حکم دیا گیا یعنی راتوں کو کھڑے ہو کر قرانِ کریم پڑھنے اور سننے کا اہتمام کا کیا جائے۔ سو ہمیں چاہیے کہ اس ماہ میں قرانِ کریم سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اور قیام اللیل کے علاوہ بھی قران کریم کی تلاوت و تفہیم کا اہتمام کریں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ اللہ رب العزت ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم قرانِ کریم کے پیغام کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔

رمضان کے روزوں کااجر بے تحاشا ہے جو روزے داروں کا آخرت میں ملے گا لیکن اخروی اجر کے علاوہ دنیا میں بھی رمضان کا ماہ ختم ہونے پر مسلمانوں کو عید الفطر یعنی خوشی کا تہوار عطا کیا ہے۔ ہم عید الفطر میں خوشیاں منانے کے صحیح مستحق کس طرح ہو سکتے ہیں یہ جاننے کہ لئے آ پ یہ مختصر تحریر بھی پڑھ سکتے ہیں۔

دعا ہے اللہ رب العزت ہمیں یہ بابرکت مہینہ دیکھنے ، اور اس سے کما حقہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

غزل ۔ اک تعلق کہ گلِ تازہ پہ ہنستی خوشبو ۔ محمد احمدؔ

غزل

اک تعلق کہ گلِ تازہ پہ ہنستی خوشبو
اک تصور کہ شب و روز برستی خوشبو

تھام کر دستِ صبا خوابِ عدم ہوتی ہے
گُلفروشوں کے بدن میں نہیں بستی خوشبو

میں دکھاوے کی محبت کا نہیں ہوں قائل
میں لگاتا نہیں اظہار کی سستی خوشبو

میں کہ پر شوق پرندہ ہے تخیّل میرا
تو ورا الماورا ہے، تری ہستی خوشبو

وہی اطوار ہیں دنیا ترے اُس شوخ کے سے
وہی پھولوں سا بدن ہے وہی ڈستی خوشبو

محمد احمدؔ

جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا

غزل

جو گزری مجھ پہ مت اُس سے کہو، ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو، ہوا سو ہوا

مبادا ہو کوئی ظالم ترا گریباں گیر
مرے لہو کو تو دامن سے دھو، ہوا سو ہوا

پہنچ چکا ہے سرِ زخم دل تلک یارو
کوئی سیو، کوئی مرہم رکھو، ہوا سو ہوا

کہے ہے سن کے مری سرگزشت وہ بے رحم
یہ کون ذکر ہے جانے بھی دو، ہوا سو ہوا

خدا کے واسطے آ، درگرز گنہ سے مرے
نہ ہوگا پھر کبھو اے تندخو، ہوا سو ہوا

یہ کون حال ہے، احوالِ دل پہ اے آنکھو!
نہ پھوٹ پھوٹ کے اتنا بہو، ہوا سو ہوا

دیا اُسے دل و دیں اب یہ جان ہے سودا
پھر آگے دیکھیے جو ہو سو ہو، ہوا سو ہوا

مرزا رفیع سودا

کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی کا منظوم تعارف

کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی کا منظوم تعارف
(بچپن کی ایک یاد)​
از محمد احمد
بچپن میں جب ہماری اشعار سے کچھ مُڈ بھیڑ ہوئی تو اُن میں زیادہ تر ظریفانہ کلام ہی تھا اور چونکہ انسان ، حیوانِ ظریف واقع ہوا ہے سو ہم نے بھی خوب خوب اپنی حیوانی ظرافت سے حظ اُٹھایا۔ خیال رہے کہ ظریفانہ کلام سے آپ کا دھیان انور مسعود اور عنایت علی خان ٹونکی وغیرہ پر نہ جائے کہ بچپن میں پڑھا اور سُنا جانے والا یہ کلام بچوں کی ظرافت کے لئے تھا جو عمومی تک بندیء حیوانِ ظریف میرا مطلب ہے کہ عام مزاحیہ شاعر ی کے بس کی بات نہیں تھی ۔ چونکہ مذکورہ ظریفانہ کلام کی نشر و اشاعت کے لئے میسر واحد میڈیا 'سینہ گزٹ' ہی تھا سو ہم یہ کلام ہم عمر دوستوں سے سُنا کرتے اور وہ یہ شاعری خود سے دو چار سال بڑے کسی شرارتی رشتے دار یا محلے والے سے سُن کر آتے جو خود تو بڑے ہو جاتے مگر اُن کی حرکتیں نہیں جاتیں۔ یہ اشعار کچھ اس قسم کے ہوتے:

دور سے دیکھا تو سکینہ بال سُکھا رہی تھی
پاس جا کے دیکھا تو بھینس دُم ہلا رہی تھی​
یا
دور سے دیکھا تو انڈے اُبل رہے تھے
قریب جا کے دیکھا تو گنجے اُچھل رہے تھے
کہتے ہیں کہ بڑا شاعر اپنی شاعری کو سب سے زیادہ جانتا ہے (اکثر معقول ناقد ایسے بڑے شعراء کو معنی فی بطن الشاعر کا نامعقول طعنہ بھی دیتے ہیں لیکن ناقدوں کو سُننے بیٹھیں تو پھر شاعری تو بس ہو ہی گئی۔) سو مذکورہ شعراء بھی اپنی شاعری کو بخوبی جانتے تھے سو اُنہوں نے فساد خلق سے بچنے کے لئے کبھی بھی شعر کے ساتھ اپنا نام روانہ نہیں کیا ورنہ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ شعراء بھی غالب کے ہم پایہ نہیں تو ہم سایہ ضرور ہوں گے۔

اسی ضمن میں ایک شعر یا اشعاری سلسلہ کہ جو تذکرہ ء ہٰذا کا وجہء نزول ثابت ہوا کچھ یوں تھا :

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں پراٹھے
نکال اپنے باپ کو لڑتا ہوں کراٹے​

باوجود اس کے کہ یہ شعر بدتمیزی کو ہوا دیتا تھا اور بات اسلاف تک جا پہنچتی تھی ، اِسے حلقہء اربابِ اطفال میں بہت پذیرائی ملی اور اُن دنوں اس شعر کے باعث سینہ گزٹ کے روزانہ کے چھ آٹھ ایڈیشن نکلنے لگے۔ ہم نے اس شعر کی پذیرائی کو دیکھتے ہوئے اس پر تھوڑی بہت تحقیق کا بیڑا بھی اُٹھایا لیکن جلد ہی باز بھی آ گئے ، باز کے ساتھ چیل کوئے بھی آگئے ہوں تو ہمیں یاد نہیں۔

بہرکیف ، یہ شعر ایک ایسے شخص کا تعارف ہے جو میلوں کی مسافت طے کرکے پہنچا ہے اور راستے کی کٹھنائیوں اور طعام و قیام کے نامناسب بندوبست کے باعث اب کچھ کھانے پینے کو بے چین ہے اور اتنا عرصہ لذتِ کام و دہن سے محرومی کے باعث ایک ضد سی ہو گئی ہے کہ اب کچھ کھائیں تو بس پراٹھے ہی کھائے جائیں۔ دوسرا مصرعہ گو بظاہر بدتمیزی پر مبنی ہے تاہم یہ بھی اپنے اندر ایک جہانِ معنی رکھتا ہے۔ اس سوال کا جواب کہ کھانے کے رسیّا بدتمیز پردیسی نے براہِ راست باپ سے ہی دو دو ہاتھ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ، یہ ہوسکتا ہے کہ شاعر چاہے کتنا ہی بھوکا کیوں نہ ہو اُسے اپنے سامع بہت عزیز ہوتے ہیں کہ فی زمانہ اور اُس زمانے میں بھی شاعروں کے لئے سامعین کا میسر آ جانا کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتا تھا۔ سو براہِ راست سامع کو دعوتِ مبارزت دینا ایک نایاب سامع کو کھودینے کے مترادف تھا کہ سامع اگر شعر سنتے سنتے دعوتِ مبارزت کو قبول کرلیتا تو قحط زدہ شاعر کو لینے کے دینے بھی پڑ سکتے تھے۔ دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ اگر سامع کے اسلاف تک یہ بات پہنچ ہی جاتی اور وہ وفورِ جذبات و اشتعال میں کھانا آدھا چھوڑ کر یا ہاتھ میں پراٹھا لیے ہی باہر آجا تے تو کیا ہی بات ہوتی کہ بدتمیز پردیسی کیا چاہے، ایک پراٹھا۔  :)

ویسے کراٹے کے کھیل سے ہمیں اور بھی بہت کچھ یاد آ رہا ہے ابھی حال ہی میں ہمیں اس حوالے سے ایک پیشکش بھی ہوئی ہے جس کی بابت ہم ابھی غور فرما رہے ہیں ۔ بلکہ زیادہ غور اس بات پر ہے کہ اگر ہم یہ ہنر سیکھ گئے تو سب سے پہلے کس پر اُسے آزمائیں گے۔ اصولاً تو یہ ہمارے ایک بھائی کا ہی حق ہے کہ اُن کی کرم نوازی کے جواب میں ہمیں بھی تو کچھ نہ کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن چونکہ ابھی یہ پیشکش اور دیگر معاملات ابتدائی درجے میں ہیں سو اس موضوع پر زیادہ موشگافیاں ہمارے اور کراٹے کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتی ہیں سو اس موضوع کو فی الحال ملتوی کرتے ہیں ۔

بہر کیف یہ شعر اس قدر زبانِ زدِ اطفالِ سادہ و رنگیں ہوا کہ مت پوچھیے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس شہرہ آفاق نمونے کی بنیاد پر اس کے وہ وہ نسخے سامنے آنے لگے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔ کچھ مثالیں دیکھیے:

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں ملائی
نکال اپنے باپ کو کرتا ہوں پٹائی

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں ٹماٹر
نکال اپنے باپ کو لگاتا ہوں جھانپڑ

آیا ہوں بڑی دور سے کھاتا ہوں سموسے 
نکال اپنے باپ کو لگاتا ہوں گھونسے
بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ اُن کا واسطہ کسی عروض دان یا ناقد سے نہیں پڑتا ورنہ بچوں کی شاعری میں بھی وہ گھمسان کا رن پڑے کہ خدا کی پناہ ۔ سو یہاں بے بحرے اور بے وزن شعر بھی کمالِ محبت سے سماعت کیے جاتے ہیں اورخوب خوب دادِ شجاعت (اس طرح کے اشعار کے لئے دادِ شجاعت ہی بنتی ہے) کے حقدار قرار پاتے ہیں۔ اسی ضمن میں ڈھیروں اشعار شامل کیے جا سکتے ہیں لیکن دوسرا مصرعہ لکھتے ہوئے ہماری طبع ِ نازک و لطیف پراگندہ ہوتی ہے ، تہذیب و تمیز کے پرانے اسباق ہمیں ملامت کرتے ہیں اور دل میں گرہ سی پڑ کر رہ جاتی ہے سو تین اشعار پر ہی بس کرتے ہیں۔

اسی شعر سے ملتا جلتا ایک شعر معروف سیاح ابنِ بطوطہ سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ 

آیا ہوں بڑی دور سے گِھستا ہوا جوتا
میں ابنِ بطوطہ ارے میں ابنِ بطوطہ​

یہ بات البتہ ابھی تک تحقیق طلب ہے کہ آیا ابنِ بطوطہ نے یہ شعر بذریعہ سرقہ اپنا بنایا یا دیگر متقدمین و معاصرین نے ابنِ بطوطہ کے تھیلے سے پار کر لیا۔ سو:

ع ۔ صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے​

بچوں کے ہاں اِس قبیل اور اُس قبیل کے اور بھی کئی اشعار پائے جاتے تھے جن کا تذکرہ اس تحریر میں ہوسکتا ہے لیکن اُنہیں کسی اور نشست کے لئے اُٹھا رکھتے ہیں کہ بچپن کی یادیں تو آتی ہی رہتی ہیں اور جب بچپن کی کوئی یاد آ جائے تو انسان بیٹھے بٹھائے دنیا بھر کے جھمیلوں سے نکل کر یادوں کے میلوں میں کھو جاتا ہے، ایسے ہی کسی میلے سے واپسی پر ممکن ہوا تو ایک تحریر اور لکھ ماریں گے۔

٭٭٭٭٭٭٭