ہم میں سے اکثر لوگ کسی کا م کی انجام دہی کا آسان طریقہ یا شارٹ کٹ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شارٹ کٹ تلاش کرنا کوئی ایسی بُری بات بھی نہیں ہے لیکن کم از کم دو شرائط ضرور پوری ہونی چاہیے۔ پہلی شرط تو یہ ہے کہ شارٹ کٹ سے حاصل ہونے والا نتیجہ بھی بعینہ ویسا ہی ہو جیسا کہ مروجہ راستہ اختیار کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور دوسری شرط یہ کہ شارٹ کٹ صرف اُس وقت قابلِ قبول ہوگا جب کسی کام کرنے کا متعیّن طریقہ مطلوب و مقصود ہدف کا لازمی جز نہ ہو۔
فرض کیجے کچھ لوگ ایک میدان میں مسابقت کی دوڑ لگاتے ہیں اور یہ طے ہوتا ہے کہ جو شخص میدان کا چکر سب سے پہلے کاٹ کر متعین کردہ مقام پر پہنچ جائے گا وہ دوڑ کا فاتح قرار پائے گا ۔ عموماً دوڑ ختم ہونے کا مقام دوڑ شروع ہونے کے مقام سے ذرا سا ہی پیچھے ہوتا ہے ۔ لیکن اگر کوئی شخص میدان کا چکر پورا کرنے کے بجائے پیچھے مُڑے اور بھاگ کر دوڑ ختم ہونے کے مقام پر پہنچ جائے تو وہ فاتح ہرگز نہیں کہلائے گا کیونکہ میدان کا چکر مکمل کرنا فتح حاصل کرنے کے لئے ضروری تھا۔ سو اکثر اوقات شارٹ کٹس اس لئے اچھے نہیں ہوتے کہ وہ مطلوبہ طریقے سے صرفِ نظر کرتے ہیں اور پیشِ نظر سرگرمی کا حاصل اپنی اہمیت کھو بیٹھتا ہے۔
اسی طرز پر ماہِ رمضان میں بھی ہم لوگوں نے کچھ شارٹ کٹس ڈھونڈ لیے ہیں، آج ہم اُنہی کا ذکر کریں گے۔
سب سے پہلے ذکر کریں گے چھ روزہ یا دس روزہ تراویح کا۔ آج کل ہمارے ہاں چھ روزہ یا دس روزہ یا پندرہ روزہ تراویح پڑھنے پڑھانے کا بہت رجحان ہے۔ اس طرز کی تراویح کاروباری حضرات بہت پسند کرتے ہیں کہ وہ رمضان کے شروع میں ہی تراویح کے فریضے سے نمٹ جاتے ہیں اور آخر کے دنوں میں جب عید کی خریداری عروج پر ہوتی ہے تو وہ تراویح سے بچنے والا وقت اپنے کاروبار کو دے سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ سوچ بھی بُری نہیں ہے تاہم چونکہ یہ مروجہ طریقے سے ہٹ کر ہے سو اس سے احتراز کرنا چاہیے۔
اُس کے بعد وہ لوگ آتے ہیں جو سحر کے وقت اُٹھنے کی زحمت سے بچنے کے لئے رات کو ہی کھا پی کر سو جاتے ہیں اور سحری میں اُٹھنے کے بجائے فجر کی نماز میں ہی اُٹھتے ہیں اور کچھ لوگ تو فجر میں بھی نہیں اُٹھتے۔ اسلام میں سحری کھانے کی بڑی فضیلت بتائی جاتی ہے سو کوشش کرنی چاہیے کہ سحری کھائی جائے اور تھوڑی سی زحمت اُٹھا کر اس نعمت سے محروم نہ رہا جائے۔
کچھ لوگ یوں بھی کرتے ہیں کہ صبح سحری اور نماز سے فراغت کے بعد سو جاتے ہیں اور پھر سارا دن سوتے رہتے ہیں۔ کچھ نمازِ ظہر کے بعد اُٹھتے ہیں کچھ تو عصر بھی گنوا دیتے ہیں۔ گو کہ روزے میں سونے کی ممانعت نہیں ہے بلکہ روزہ دار کو تو سونے کا بھی ثواب ملتا ہے لیکن کثر ت سے سونے سے آپ بھوک اور پیاس کے احساس سے بچ جاتے ہیں۔ نتیجتاً آپ اس عبادت کی روح سے محروم ہو جاتے ہیں یعنی ایسا روزہ آپ میں دوسروں کی محرومیوں اور بھوک پیاس کا احساس نہیں جگا پاتا ۔ جب کہ روزہ تو نام ہی اس احساس کے پیدا کرنے کا ہے سو اس معاملے میں بھی احتیاط کی ضرورت ہے۔
آخر میں ایک بات۔ اور وہ یہ کہ یہ سب باتیں عمومی ہیں اور خاکسار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں، سو ان سب باتوں کو سخت تاکید یا فتویٰ سمجھنے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر آپ کو ان میں سے کسی معاملے پر کوئی اشکال ہے تو آپ کتاب و سنت کا علم رکھنے والے حضرات سے پوچھ سکتے ہیں۔
اللہ ہمیں اور آپ کو ماہِ صیام کے فیوض برکات سے کما حقہ فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔