حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں
ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے
بھلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تری تمکین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے
جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنج ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے
مرے پاس وفا کی بدگمانی ہے بجا تم سے
کہیں بے وجہ اظہار کرم ایسا بھی ہوتا ہے
تری دل داریوں سے صورت بیگانگی نکلی
خوشی ایسی بھی ہوتی ہے الم ایسا بھی ہوتا ہے
وقار صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے
کہیں اے اعتبار چشم نم ایسا بھی ہوتا ہے
بدعوائے وفا کیوں شکوہ سنج جور ہے حسرتؔ
دیار شوق میں اے محو غم ایسا بھی ہوتا ہے
*******
ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے
ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے
ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے
رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے
رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے
کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے
کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے
بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے
اس بے نشاں کے ملنے کی حسرتؔ ہوئی امید
آبِ بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے
مولانا حسرت موہانی