غزل ۔ نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے ۔ حسرت موہانی

غزل

نگاہ یار جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے

دلوں کو فکر دوعالم سے کر دیا آزاد
ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے

خرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

ترے ستم سے میں خوش ہوں کہ غالباً یوں بھی
مجھے وہ شامل ارباب امتیاز کرے

غم جہاں سے جسے ہو فراغ کی خواہش
وہ ان کے درد محبت سے ساز باز کرے

امیدوار ہیں ہر سمت عاشقوں کے گروہ
تری نگاہ کو اللہ دل نواز کرے

ترے کرم کا سزاوار تو نہیں حسرتؔ
اب آگے تیری خوشی ہے جو سرفراز کرے

حسرت موہانی

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں ۔ انور شعور

غزل

سلیمانِ سخن تو خیر کیا ہوں
یکے از شہرِ یارانِ سبا ہوں

وہ جب کہتے ہیں، فردا ہے خوش آئند
عجب حسرت سے مُڑ کر دیکھتا ہوں

فراق اے ماں کہ میں زینہ بہ زینہ
کلی ہوں، گل ہوں، خوشبو ہوں، صبا ہوں

سحر اور دوپہر اور شام اور شب
میں ان لفظوں کے معنی سوچتا ہوں

کہاں تک کاہلی کے طعن سنتا
تھکن سے چور ہو کر گر پڑا ہوں

ترقی پر مبارک باد مت دو
رفیقو! میں اکیلا رہ گیا ہوں

کبھی روتا تھا اُس کو یاد کرکے
اب اکثر بے سبب رونے لگا ہوں

سُنے وہ اور پھر کرلے یقیں بھی
بڑی ترکیب سے سچ بولتا ہوں

انور شعورؔ​

حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی

غزل

کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہيں جاتی

صداقت ہو تو دل سينے سے کھنچنے لگتے ہيں واعظ
حقيقت خود کو منوا ليتی ہے مانی نہيں جاتی

جلے جاتے ہيں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہيں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہيں جاتی

وہ يوں دل سے گزرتے ہيں کہ آہٹ تک نہيں ہوتی
وہ يوں آواز ديتے ہيں کہ پہچانی نہيں جاتی

محبت ميں اک ايسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہيں طغيانی نہيں جاتی

جگر وہ بھی از سر تا پا محبت ہی محبت ہيں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہيں جاتی

جگر مراد آبادی

نظم ۔ آندھی ۔۔۔ از ۔۔۔ نذیر احمد شیخ


نذیر احمد شیخ کی ایک خوبصورت نظم "آندھی" بشکریہ محترم نصیر احمد صاحب یہاں پیش کی جا رہی ہے ۔ نصیر صاحب کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ نذیر احمد شیخ مزاحیہ شاعر تھے اور "حرفِ بشاش" کے نام سے اُن کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی۔

نذیر احمد شیخ صاحب کی کہ یہ نظم اپنی سلاست اور روانی کے اعتبار سے لاجواب ہے۔ آندھی کا جو نقشہ شاعرِ موصوف نے کھینچا ہے اور جس بے ساختگی سے یہ خوش آہنگ نظم بُنی گئی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ساتھ ساتھ یہ نظم آج کے دور سے کچھ پرے اُس زمانے کی ہے جب زندگی کی بیشتر سہولیات تک اکثریت کی رسائی نہیں تھی لیکن زندگی تب زیادہ خوبصورت تھی۔

آندھی
نظم

کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے سب گھر ریگستان

جھاڑو جھاڑن موج منائیں اُن کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے کتھک ناچے چھاج

درہم برہم سب تصویریں، طُرفہ تر احوال
مرزا غالب اُلٹے لٹکے، سجدے میں اقبال

ایک بگولہ سب سے اولیٰ، بھوتوں کا سردار
لوٹ پلٹ کر پڑھتا جائے دنیا کے اخبار

سُنتے سُنتے شور شرابا کانوں کا یہ حال
بیگم اپنی شال منگائے نوکر لائے ڈال

اُڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چُھڑائیں رخصت ہو دستار

چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ

پیڑوں کے جب ٹہنے ٹوٹے سب کی ٹوٹی آس
اُپلے چھت سے فوراً کودے سیدھے چولہے پاس

نذیر احمد شیخ


حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

حسرت موہانی کی دو خوبصورت غزلیں

ستم ہو جائے تمہید کرم ایسا بھی ہوتا ہے
محبت میں بتا اے ضبط غم ایسا بھی ہوتا ہے

بھلا دیتی ہیں سب رنج و الم حیرانیاں میری
تری تمکین بے حد کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

جفائے یار کے شکوے نہ کر اے رنج ناکامی
امید و یاس دونوں ہوں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

مرے پاس وفا کی بدگمانی ہے بجا تم سے
کہیں بے وجہ اظہار کرم ایسا بھی ہوتا ہے

تری دل داریوں سے صورت بیگانگی نکلی
خوشی ایسی بھی ہوتی ہے الم ایسا بھی ہوتا ہے

وقار صبر کھویا گریہ ہائے بے قراری نے
کہیں اے اعتبار چشم نم ایسا بھی ہوتا ہے

بدعوائے وفا کیوں شکوہ سنج جور ہے حسرتؔ
دیار شوق میں اے محو غم ایسا بھی ہوتا ہے

*******

ہر حال میں رہا جو ترا آسرا مجھے
مایوس کر سکا نہ ہجوم بلا مجھے

ہر نغمے نے انہیں کی طلب کا دیا پیام
ہر ساز نے انہیں کی سنائی صدا مجھے

ہر بات میں انہیں کی خوشی کا رہا خیال
ہر کام سے غرض ہے انہیں کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روز و شب
مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

رکھیے نہ مجھ پہ ترک محبت کی تہمتیں
جس کا خیال تک بھی نہیں ہے روا مجھے

کافی ہے ان کے پائے حنابستہ کا خیال
ہاتھ آئی خوب سوز جگر کی دوا مجھے

کیا کہتے ہو کہ اور لگا لو کسی سے دل
تم سا نظر بھی آئے کوئی دوسرا مجھے

بیگانۂ ادب کیے دیتی ہے کیا کروں
اس محو ناز کی نگۂ آشنا مجھے

اس بے نشاں کے ملنے کی حسرتؔ ہوئی امید
آبِ بقا سے بڑھ کے ہے زہر فنا مجھے

مولانا حسرت موہانی

مولانا حسرت موہانی اور سودیشی تحریک



انگریز برِ صغیر کو دولت کی کان اور کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ سمجھتے تھے اور یہاں کی دولت سے خوب فائدہ اُٹھاتے تھے۔ یہاں سے سستے داموں کپاس خریدتے ۔ یہ کپاس انگلستان جاتی ۔ وہاں اُس سے طرح طرح کے کپڑے تیار ہوتے ۔ پھر یہ کپڑے برصغیر آتے، مہنگے داموں فروخت ہوتے اور انگریز اس کاروبار سے مالی منفعت حاصل کرتے۔ ایک تو یہ کہ اُن کے کارخانے چلتے، ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا ۔ دوسرے یہ کہ کپڑے کی فروخت سے بھی خوب فائدہ ہوتا۔

ایک کپاس ہی کیا، برصغیر کی ساری قدرتی پیداوار انگلستان جاتی ۔ وہاں سے بدلی ہوئی شکل میں واپس آ کر انگریزوں کی دولت بڑھاتی۔ اس زمانے میں برصغیر میں کارخانے بھی کم تھے ۔ جو تھے وہ بھی انگریزی کارخانوں سے مقابلہ نہ کر پاتے۔

برِ صغیر کے رہنماؤں نے انگریزوں کی اس زبردستی کو ختم کرنے کےلئے سودیشی تحریک شروع کی۔ سود یشی کا مطلب ہے دیس سے تعلق رکھنے والی ۔ سودیشی تحریک کے تحت ہر شخص سے کہا گیا کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدے اور استعمال کرے۔ برصغیر کی معیشت کو پہنچنے والے بھاری نقصان کے اعتبار سے یہ بہت اچھی تحریک تھی۔

دنیا کی تمام ترقی کرنے والی قومیں اسی اصول پر عمل کرتی ہیں۔ انگریز اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں خریدتے ہیں اور اُس پر فخر کرتے ہیں۔ امریکی فرانسیسی، چینی، جاپانی سب اپنے ملکوں کی مصنوعات پسند کرتے ہیں۔ یہ خاصیت ہم میں ہی ہے کہ اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں چھوڑ کر پرائے دیس کی چیزیں خریدتے ہیں۔ انہیں استعمال کرتے اور خوشی خوشی ہر ایک کو دکھاتے ہیں کہ یہ باہر کا کپڑا ہے۔یہ باہر کا جوتا ہے۔ حالاں کہ اس سے قومی صنعتوں اور قومی ترقی کو بڑا نقصان ہوتا ہے۔ افسوس کہ آج بھی ہمارا یہی حال ہے۔

سودیشی تحریک کو لوگوں نے کامیاب بنانے کی کوشش کی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے ملک میں پھیل گئی۔ مولانا حسرت کو بھی سودیشی تحریک بہت پسند آئی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو یہ عہد کیا کہ میں اب کوئی غیر ملکی چیز استعمال نہیں کروں گا۔ یہ بڑا مشکل عہد ہے۔ آسان بات نہیں مگر مولانا دُھن کے پکّے تھے۔ جب تک جیے اس عہد کو نباہتے رہیے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ سخت سردی کا زمانہ تھا ۔ شام کے وقت مولانا لکھنؤ میں ایک معروف عالم سیّد سلیمان ندوی سے ملنے گئے۔ باتوں میں بڑی دیر ہو گئی ۔ سید صاحب نے اصرار کیا۔ کہنے لگے۔ "اب کہاں جائیے گا۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ سردی بھی بہت ہے رات یہیں گزار لیجے، صبح کو چلے جائیے گا۔" مولانا سید صاحب کے اصرار پر وہیں ٹھہر گئے۔ رات کو اتفاقاً سید صاحب کی آنکھ کھلی تو خیال آیا ، مولانا حسرت مہمان ہیں۔ ذرا دیکھ لو آرام سے ہیں ۔ کوئی تکلیف تو نہیں۔ یہ سوچ کر سیّد صاحب اس کمرے میں گئے جہاں مولانا سو رہے تھے ۔ کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا گُڑی مُڑی بنے، سُکڑے سِمٹے لیٹے ہیں اور اونی کمبل پائنتی پر پڑا ہے ۔ ہوا یہ کہ مولانا کے پائنتی کمبل رکھ دیا گیا تھا کہ رات کو اوڑھ کر سو جائیں۔ کمبل تھا ولایتی۔ مولانا نے ولایتی کمبل دیکھا تو اپنے عہد کے مطابق اُسے نہیں اوڑھا۔ کمبل پائنتی پڑا رہا ۔ مولانا رات بھر سردی میں سُکڑتے رہے مگر ولایتی کمبل اوڑھنا گوارا نہ ہوا۔ عہد پر قائم رہنے والے سچے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔

اگر سب لوگ اپنے عہد کا پاس کرنے لگیں تو کوئی بڑے سے بڑا قومی کام بھی ناممکن نہ رہے۔

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔

مولانا حسرت موہانی اور اردوئے معلیٰ


بہ یک وقت 'رئیس الاحرار' اور 'رئیس المتغزلین' کا لقب پانے والے سید فضل الحسن کو دنیا مولانا حسرت موہانی کے نام سے جانتی ہے۔ مولانا حسرت موہانی اودھ کے علاقے موہان کے رہنے والے تھے۔ اور موہان کی نسبت اپنے تخلص کے ساتھ استعمال کرتے تھے۔ موہان سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے مولانا علی گڑھ کالج آ گئے۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ہی کالج میں مولانا حسرت کی شہرت ہو گئی تھی۔ وہ کالج یونین کے جلسوں میں تقریریں کرتے اور مباحثوں میں بھی حصہ لیتےتھے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسرت مشاعروں میں غزلیں بھی پڑھتے تھے۔ مولانا نے علی گڑھ کالج میں ایک ادبی انجمن ادوئے معلیٰ بھی بنائی تھی ۔ مولانا حسرت موہانی نوجوانی ہی میں بڑے بااصول اور بات کے دھنی تھے ۔اپنی بات پر قائم رہتے اور غلط بات گوارا نہیں کرتے تھے ۔ اُنہیں غلامی سے نفرت تھی اس وجہ سے انگریز حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے اور آزادی کی جد و جہد کرنے والوں کے ساتھ تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ کالج کے سرکار پرست لوگ مولانا سے دوستانہ رویّہ نہیں رکھتے تھے۔

بی اے کے سالِ آخر میں مولانا نے کالج میں ایک مشاعرہ بڑی دھوم دھام سے منعقد کیا تو جہاں اس مشاعرے کا لوگوں میں چرچا ہوا وہیں ایسے لوگ بھی تھے کہ جنہیں مولانا کی شُہرت پسند نہیں تھی ۔ ان لوگوں نے کالج کے پرنسپل سے مولانا کی شکایت کی کہ مشاعرے میں ایسے اشعار پڑھے گئے کہ جن سے طالبِ علموں کے اخلاق بگڑنے کا خدشہ ہے۔ پرنسپل نے آگ بگولہ ہو کر مولانا کو بُلایا اور ان کا موقف سُنے بغیر اُنہیں خوب ڈانٹا اور کالج سے نکالنے کا حکم سُنایا۔گو کہ پرنسپل کو سمجھانے والا کوئی نہیں تھا تاہم مولانا بھی کوئی عام طالبِ علم نہیں تھے اس لئے آخری فیصلہ یہ ہو ا کہ اُنہیں کالج سے تو نکال دیا جائے لیکن امتحان سے نہ روکا جائے۔ اس حکم کے بعد مولانا نے کالج کا ہوسٹل خالی کر دیا اور علی گڑھ شہر میں مکان کرائے پر لے کے رہنے لگے۔

امتحان دینے کے فوراً بعد ہی مولانا نے "اردوئے معلیٰ" کے نام سے ایک رسالے کا اجرا کیا اور اپنے لئے انگریز کی نوکری کے بجائے اخبار نویسی کے آزاد پیشے کا انتخاب کیا ۔ رسالہ نکلتا رہا اور مولانا آزادی کی تحریکوں میں شامل رہے ۔ جلد ہی مولانا اپنی ہمت، جذبے اور آزادی کی لگن کی وجہ سے مشہور ہو گئے۔ لوگ ان کی عزت کرتے تھے اور اُن کو پسند بھی کرتے تھے۔

اردوئے معلیٰ میں دیگر مضامین کے ساتھ ساتھ سیاسی مضامین بھی چھپتے جن میں زیادہ تر کے محرکات آزادی کی تحریک سے ہی میسر آتے۔ ایک دفعہ ایک مضمون "مصر میں انگریزوں کی پالیسی" بھی اردوئے معلیٰ میں شائع ہوا۔ یہ مضمون کافی تنقید ی نوعیت کا تھا سو انگریز سرکار نے مولانا کو عدالت میں طلب کیا اور مصنف کی بابت استفسار کیا ۔ تاہم مولانا نے کہا کہ یہ رسالہ میرا ہے سو مضمون بھی میرا ہے اور مصنف کا نام نہیں بتایا۔ انگریز سرکار نے اس مضمون کی اشاعت پر مولانا کو دو سال کی سزا اور پانچ سو روپے کا جرمانہ کیا۔ جرمانے میں ان کا کتب خانہ جس میں بڑی قیمتی کتابیں تھیں کوڑیوں کے مول نیلا م ہو گیا۔ جس کا مولانا کو بہت دُکھ ہوا۔ مگر چونکہ انگریز حاکموں کو اُن سے دشمنی تھی اس لئے کتب خانہ جان بوجھ کر نیلام کر دیا گیا۔

قید میں بھی مولانا کو سخت مشقت میں رکھا گیا ۔ اندھیری کوٹھری میں رہنا ، دوسرے قیدیوں کے ساتھ مل کر دن بھر چکی پیسنا۔ نہ اخبار نہ رسالہ، نہ لکھنے پڑھنے کی اجازت۔ بات بات پر دھمکیاں اور سختیاں۔ مولانا کی نظر کمزور تھی ۔ عینک لگاتے تھے مگر جیل میں عینک بھی چھین لی گئی۔ کھانا اتنا خراب کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔

بہر کیف مولانا حسرت اصول پرست انسان تھے اُنہوں نے لاکھ سختیاں اُٹھائی لیکن اپنے موقف سے کبھی سرِ مو انحراف نہیں کیا۔

************

یہ مضمون ڈاکٹر اسلم فرخی کے کتابچے "مولانا حسرت موہانی" کے اقتباسات پر مبنی ہے۔