دوکان رمضان ۔ تضمین از محمد احمدؔ

دوکان رمضان
(تضمین)

تحائف شو میں رمضاں کے، بلا تمہید ہی برسے
بڑھا کر ہاتھ جھپٹو، مانگ لو کچھ التجا کرکے

لیاقت کا تو کوئی کام ہی کیا شو میں عامر کے
کوئز شو ہے مگر تحفہ ملے گا رقص بھی کرکے

یہ دل میں ٹھان لو کہ لے مریں گے اک نہ اک بائک
فہد کے شو سے مل جائے، بھلے جمشید کے در سے

تلوکا ایک ڈبہ کار تک لے جا بھی سکتا ہے
اگر مکھن نہیں تو گھی لگاؤ خوب بھر بھر کے

اگر بائک نہیں تو ایک دو کُرتے ہی مل جائیں
ذرا دستِ سوال اونچا اُٹھاؤ ، دستِ بر تر سے

تقاضہ وقت کا سمجھو کہ عزت آنی جانی ہے
بچا کر عزتِ نفس اب کوئی کیوں ہر گھڑی ترسے

تجارت کی زکواۃ اب دے رہے ہیں تاجر و زرگر
رکھو پاؤں میں اینکر کے ،اُتارو پگڑیاں سر سے

میں کُڑھتا ہوں کہ میرے لوگ ایسے ہو گئے کیونکر
"حمیّت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے"

محمد احمدؔ

تضمین بر کلامِ حضرتِ ولی دکنی - ظریفانہ کلام

حضرتِ ولی دکنی کا یہ مشہور و معروف شعر تو آپ نے سُنا ہی ہوگا۔

راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن

خاکسار کی جانب سے اس کے دونوں مصرعوں پر (ظریفانہ) تضمین پیش ہے۔
اُمید ہے احباب کو پسند آئے گی۔ 

وہ جو شادی سے پہلے کہتا تھا 
اُس کو یکسانیت پسند نہیں
اُس کی بیوی نے کر دیا ثابت
"راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں"


کچھ تو کہیے وہ اُس سے کہتا تھا​
لفظ مہکیں، کھُلے کتابِ سخن​
اُس کو شادی کے بعد علم ہوا​
"تا قیامت کھُلا ہے بابِ سخن"​

محمد احمدؔ

نظم : منظر سے پس منظر تک


کھڑکی پر مہتاب ٹکا تھا
رات سنہری تھی
اور دیوار پہ ساعت گنتی
سَوئی سَوئی گھڑی کی سُوئی
چلتے چلتے سمت گنوا کر غلطاں پیچاں تھی
میں بھی خود سے آنکھ چُرا کر
اپنے حال سے ہاتھ چھڑا کر
برسوں کو فرسنگ بنا کر
جانے کتنی دور چلا تھا 
جانے کس کو ڈھونڈ رہا تھا
دھندلے دھندلے چہرے کیسے رنگ رنگیلے تھے
پیلے پیلے پھول تھے، آنچل نیلے نیلے تھے
کیا چمکیلی آنکھیں ، کیسے خواب سجیلے تھے
لیکن آنکھیں نم تھیں، منظر سِیلے سیلے تھے
اک چہرہ تھا روشن جیسے چاند گھٹاؤں میں
اک مسکان تھی جیسے بکھریں رنگ فضاؤں میں
منظر منظر تکتا جاتا ، چلتا جاتا میں
اِ س منظر سے اُس منظر تک بڑھتا جاتا میں
اک تصویر کو رُک کر دیکھا ، رُک نہیں پایا میں
اِس کھڑکی سے اُس آنگن تک جھُک نہیں پایا میں
جیسے اُس شب چلتے رہنا قسمت ٹھیری تھی
میرے تعاقب میں 
یادوں کی پچھل پیری تھی

محمد احمدؔ

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​ ۔ جمال احسانی

غزل

​ہے جس کے ہاتھ میں پتھر اُسے گماں بھی نہیں​
کہ فکرِ آئینہء جسم و جاں، یہاں بھی نہیں​
جو بات تیری نظر میں ہے اور مرے دل میں​
اگر زباں پہ نہ آئے تو رائیگاں بھی نہیں​
اب اُس نے وقت نکالا ہے حال سُننے کو​
بیان کرنے کو جب کوئی داستاں بھی نہیں​
وہ دل سے سرسری گزرا، کرم کیا اُس نے​
کہ رہنے کا متحمل تو یہ مکاں بھی نہیں​
زمین پیروں سے نکلی تو یہ ہوا معلوم​
ہمارے سر پہ کئی دن سے آسماں بھی نہیں​
سفر میں چلتے نہیں عام زندگی کے اُصول​
وہ ہم قدم ہے مرا جو مزاج داں بھی نہیں​
نہیں پسند کوئی بے توجہی اُس کو ​
اور اپنے چاہنے والوں پہ مہرباں بھی نہیں​
مرے ہی گھر میں اندھیرا نہیں ہے صرف جمالؔ​
کوئی چراغ فروزاں کسی کے ہاں بھی نہیں​
جمالؔ احسانی

ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم


غزل
خاکسار کی ایک طرحی غزل

ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں، ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم

اب غم کوئی، نہ سرشاری، بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں، اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم

ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہت
اب حدّتِ غم، نہ جوشِ جنوں، اے دشتِ طلب! برفاب ہیں ہم

یہ تنہائی، یہ خاموشی، تارا بھی نہیں اِس شام کوئی
کچھ داغ سمیٹے سینے میں، تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم

ہم جس میں ڈوب کے اُبھرے ہیں، وہ دریا کیسا دریا تھا؟
یہ کیسا اُفق ہے جس کی اتھاہ گہرائی میں غرقاب ہیں ہم

ہم مثلِ شرر ہیں ، جگنو ہیں، ہم تِیرہ شب کے آنسو ہیں
ہم نجمِ سحر، ہم رشکِ قمر، ہاں ہر صورت شب تاب ہیں ہم

اک حزن و ملال کا سیلِ بلا، سب خواب بہا کر لے بھی گیا
پھر پھول کھلے من آنگن میں، پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم

لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں،  نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔ
ہاں اُن کے لئے، جو دل سے ملے، وہ جانتے ہیں، کمیاب ہیں ہم

محمد احمدؔ

افسانہ : جامِ سفال


جامِ سفال
محمد احمدؔ​

شاید کوئی اور دن ہوتا تو حنیف بس میں بیٹھا سو رہا ہوتا۔لیکن قسمت سے دو چھٹیاں ایک ساتھ آ گئیں تھیں ۔ پہلا دن تو کچھ گھومنے پھرنے میں گزر گیا ، دوسرا پورا دن اُس نے تقریباً سوتے جاگتے گزارا ۔ آج بس میں وہ ہشاش بشاش بیٹھا تھا اور بس کی کھڑکی سے لگا باہر کے نظارے دیکھ رہا تھا۔ باہر کے مناظر وہی روز والے تھے۔ وہی افرا تفری، وہی لوگوں کی بے چینی اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ان تھک دوڑ ۔

اُس کی سیٹ کے بالکل سامنے بس میں وہ جنگلہ لگا ہوا تھا جو بس کے زنانہ اور مردانہ حصے میں حدِ فاصل کا کام کرتا تھا ۔ صنفِ نازک کے لئے مختص حصے میں اس وقت صرف دو خواتین موجود تھیں۔ ایک کچھ عمر رسیدہ سیاہ برقعے میں ملبوس ، اور دوسری ایک نوجوان لڑکی۔ حنیف بے خیالی میں لڑکی کا جائزہ لینے لگا۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی، جو شاید اپنے موبائل میں کوئی گیم کھیل رہی تھی ۔ رنگت مناسب تھی اور ناک نقشہ بھی ٹھیک ہی تھا ۔ اُسے پہلی نظر میں وہ لڑکی اچھی لگی۔ شاید وہ لڑکی واقعی اچھی تھی یا پھر یہ جاذبیت محض صنفِ مخالف کے لئے فطری کشش کے باعث تھی۔ بہرکیف وہ گاہے گاہے اُسے دیکھ رہا تھا اور نظارہ تسلسل اور تعطل کی کڑیوں سے مل کر قسط وار ڈرامے کی تمثیل ہوا جاتا تھا۔

بس سُست رفتاری سے رواں دواں تھی اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود بس اسٹاپ پر لوگ بس میں اُتر اور چڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کسی اسٹاپ پر بس رُکی تو خواتین کے حصے میں دو نئے مسافر سوار ہوئے۔ ایک نوجوان لڑکی اور شاید اُس کا کمسن بھائی ۔ حنیف کے پاس تو یوں بھی کوئی مشغولیت نہیں تھی سو اُس نے نگاہوں نگاہوں میں اس نئی آنے والی ہستی کا بھی استقبال کیا اور کمسن بھائی پر بھی اچٹتی سے نظریں ڈالی۔ نئی آنے والی لڑکی خوش شکل تھی۔ رنگ گندمی اور آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی۔ پہلے سے موجود لڑکی کی طرح نئی آنے والی لڑکی کی نشست بھی کچھ اس طرح تھی کہ جیسے وہ حنیف سے ہی مخاطب ہوں تاہم ایک کی دلچسپی موبائل اور دوسری کی چھوٹے بھائی کی طرف ہی نظر آتی تھی۔ نئی آنے والی لڑکی بڑی ادا سے اپنے بھائی سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی اور اُس کے صبیح چہرے پر مسکراہٹ ایسے ہی آویزاں تھی جیسے چودھویں کا چاند آسمان پر ٹکا نظر آتا ہے۔

حنیف بڑی محویت سے نئی آنے والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ اُسے خیال آیا کہ اس طرح ایک ٹُک کسی لڑکی کی طرف دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھا تو اُسے وہ لڑکی نظر آئی جو پہلے سے بس میں موجود تھی اور اپنے موبائل گیم میں کسی مرحلے میں ناکام ہونے پر جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آ رہی تھی۔

پہلے والی لڑکی کو پھر سے دیکھنے پر اُسے احساس ہوا کہ اس کی رنگت کافی گہری ہے اور اس سانولے پن کے باوجود اُس نے گہرے رنگ کا ہی لباس پہنا ہوا ہے۔ یہ خیال شاید اُسے اس لئے بھی آیا کہ اب اس کے سامنے نووارد خوش شکل لڑکی بھی موجود تھی اور اس دانستہ یا نادانستہ تقابلی جائزے میں حنیف کی مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ سانولی لڑکی کا ناک نقشہ بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے قابلِ ستائش کہا جا سکے ۔ ناک متناسب تھی البتہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں چہرے کے حساب سے کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں۔ اس کے برعکس نوارد لڑکی، ہر لحاظ سے خوبصورتی کی مثال تھی۔ رنگت نکھری ہوئی، چہرہ صباحبت سے بھرپور، سیاہ آنکھیں ایسی با رونق کہ ایک دنیا ان میں آباد نظر آتی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ لباس بھی دیدہ زیب اور سلیقے سے زیب تن کیا ہوا۔
"ان دونوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔" حنیف نے دل میں سوچا۔
ابھی وہ اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ بس ایک اسٹاپ پر رُکی اور خوبرو لڑکی اپنے بھائی کو لئے بس سے اُتر گئی اور بس رُکے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔
اگر وہ بس ڈرائیور ہوتا تو یقیناً رُک کر اُس لڑکی کو جاتا ہوا دیکھتا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی ۔ یہ بس والے شاید ان چیزوں سے اسی لئے بے نیاز ہوتے ہیں کہ اگر وہ ایسے نہ ہوں تو ڈرائیونگ کرنا ہی مشکل ہو جائے۔ اپنی سوچ پر وہ خود ہی مسکر ادیا۔

مسکراہٹ نے آنکھیں میچیں تو اُسے بس میں کچھ اندھیرے کا سا احساس ہوا۔ صبح صبح جب سورج چڑھ رہا ہوتو اندھیرے کا احساس کیسا ؟ یقیناً بس میں اندھیرا نہیں تھا ۔ البتہ وہ روشنی اب بس میں نہیں تھی جس میں وہ کچھ دیر پہلے دیدہ زیب مناظر دیکھ رہا تھا۔ اگر ویرانی کے لفظ کی شدت کو دس گنا بڑھا دیا جائے تو کہا جا سکتا تھا کہ بس اب ویران تھی اور شاید صرف اُس کے لئے ہی ویران تھی۔ اُس نے گھبرا کر بس کی کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ منظر ایک کے پیچھے ایک بھاگے جا رہے تھے ۔ گویا بارہا دیکھی ہوئی کوئی فلم پردہ ء سیمیں پر دکھائی جا رہی ہو۔ سارے منظر رٹے رٹائے ، دیکھے بھالے۔ وہی لوگ ، وہی افراتفریح اور وہی روز کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے۔ اگر اس فلم کا کوئی نام ہوتا تو یقیناً "یکسانیت" ہی ہوتا ۔ وہی یکسانیت کہ جس کے ہاتھوں بیزار ہو کر انسان کہہ اُٹھتا ہے کہ تنوع ہی زندگی کا اصل لطف ہے۔

کچھ دیر بعد یہی رہوارِ تنوع اُسے پھر بس میں لے آیا۔ بس میں در آنے والا اندھیرا اب کافی حد تک معدوم ہو چُکا تھا اور دھیمے سُروں کے نغمے سماعت میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اُس نے سامنے دیکھا تو پہلے سے موجود موبائل سے اُلجھتی لڑکی اب مسکرا رہی تھی ۔ شاید موبائل گیم کا وہ سانپ جو اپنی ہی دم سے متصادم ہو کر فنا کے لمحے سے جا ملتا تھا ، اُسے کامیابی کے مزید ایک زینے تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ چھوٹی سی کامیابی اُس کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ لے آئی تھی اور اس مسکراہٹ نے اس کا چہرہ پُر نور کر دیا تھا۔ شاید کوئی بد ذوق ہوتا تو کہتا کہ یہ تو موبائل کی روشنی ہے جو اُس کے چہرے پر منعکس ہو رہی ہے لیکن کوئی کہتا بھی تو حنیف مشکل ہی اُس کی بات ماننے پر آمادہ ہوتا۔ عام سے خد و خال والی وہی لڑکی اب حنیف کو بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ گویا وہ خود بھی سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں سو کے خانے میں آ موجود ہوا ہو۔
"چلنا بھئی ۔۔۔ ! نصیر آباد والے" بس کنڈکٹر کرخت آواز میں اُس کے اسٹاپ پر پہنچنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔ لیکن کنڈکٹر کی یہ پُکار صدا بہ صحرا ہوئی جاتی تھی ۔

عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے ۔ عباس تابشؔ

غزل

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

مجھ بدنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے

عباس تابشؔ