ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم


غزل
خاکسار کی ایک طرحی غزل

ہم اپنی حقیقت کس سے کہیں، ہیں پیاسے کہ سیراب ہیں ہم
ہم صحرا ہیں اور جل تھل ہیں، ہیں دریا اور پایاب ہیں ہم

اب غم کوئی، نہ سرشاری، بس چلنے کی ہے تیاری
اب دھوپ ہے پھیلی آنگن میں، اور کچی نیند کے خواب ہیں ہم

ہاں شمعِ تمنّا بجھ بھی گئی، اب دل تِیرہ، تاریک بہت
اب حدّتِ غم، نہ جوشِ جنوں، اے دشتِ طلب! برفاب ہیں ہم

یہ تنہائی، یہ خاموشی، تارا بھی نہیں اِس شام کوئی
کچھ داغ سمیٹے سینے میں، تنہا تنہا مہتاب ہیں ہم

ہم جس میں ڈوب کے اُبھرے ہیں، وہ دریا کیسا دریا تھا؟
یہ کیسا اُفق ہے جس کی اتھاہ گہرائی میں غرقاب ہیں ہم

ہم مثلِ شرر ہیں ، جگنو ہیں، ہم تِیرہ شب کے آنسو ہیں
ہم نجمِ سحر، ہم رشکِ قمر، ہاں ہر صورت شب تاب ہیں ہم

اک حزن و ملال کا سیلِ بلا، سب خواب بہا کر لے بھی گیا
پھر پھول کھلے من آنگن میں، پھر دیکھ ہمیں شاداب ہیں ہم

لاکھوں ہم جیسے ملتے ہیں،  نایاب نہیں ہیں ہم احمدؔ
ہاں اُن کے لئے، جو دل سے ملے، وہ جانتے ہیں، کمیاب ہیں ہم

محمد احمدؔ

افسانہ : جامِ سفال


جامِ سفال
محمد احمدؔ​

شاید کوئی اور دن ہوتا تو حنیف بس میں بیٹھا سو رہا ہوتا۔لیکن قسمت سے دو چھٹیاں ایک ساتھ آ گئیں تھیں ۔ پہلا دن تو کچھ گھومنے پھرنے میں گزر گیا ، دوسرا پورا دن اُس نے تقریباً سوتے جاگتے گزارا ۔ آج بس میں وہ ہشاش بشاش بیٹھا تھا اور بس کی کھڑکی سے لگا باہر کے نظارے دیکھ رہا تھا۔ باہر کے مناظر وہی روز والے تھے۔ وہی افرا تفری، وہی لوگوں کی بے چینی اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی ان تھک دوڑ ۔

اُس کی سیٹ کے بالکل سامنے بس میں وہ جنگلہ لگا ہوا تھا جو بس کے زنانہ اور مردانہ حصے میں حدِ فاصل کا کام کرتا تھا ۔ صنفِ نازک کے لئے مختص حصے میں اس وقت صرف دو خواتین موجود تھیں۔ ایک کچھ عمر رسیدہ سیاہ برقعے میں ملبوس ، اور دوسری ایک نوجوان لڑکی۔ حنیف بے خیالی میں لڑکی کا جائزہ لینے لگا۔ وہ ایک عام سی لڑکی تھی، جو شاید اپنے موبائل میں کوئی گیم کھیل رہی تھی ۔ رنگت مناسب تھی اور ناک نقشہ بھی ٹھیک ہی تھا ۔ اُسے پہلی نظر میں وہ لڑکی اچھی لگی۔ شاید وہ لڑکی واقعی اچھی تھی یا پھر یہ جاذبیت محض صنفِ مخالف کے لئے فطری کشش کے باعث تھی۔ بہرکیف وہ گاہے گاہے اُسے دیکھ رہا تھا اور نظارہ تسلسل اور تعطل کی کڑیوں سے مل کر قسط وار ڈرامے کی تمثیل ہوا جاتا تھا۔

بس سُست رفتاری سے رواں دواں تھی اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر موجود بس اسٹاپ پر لوگ بس میں اُتر اور چڑھ رہے تھے۔ ایسے ہی کسی اسٹاپ پر بس رُکی تو خواتین کے حصے میں دو نئے مسافر سوار ہوئے۔ ایک نوجوان لڑکی اور شاید اُس کا کمسن بھائی ۔ حنیف کے پاس تو یوں بھی کوئی مشغولیت نہیں تھی سو اُس نے نگاہوں نگاہوں میں اس نئی آنے والی ہستی کا بھی استقبال کیا اور کمسن بھائی پر بھی اچٹتی سے نظریں ڈالی۔ نئی آنے والی لڑکی خوش شکل تھی۔ رنگ گندمی اور آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی۔ پہلے سے موجود لڑکی کی طرح نئی آنے والی لڑکی کی نشست بھی کچھ اس طرح تھی کہ جیسے وہ حنیف سے ہی مخاطب ہوں تاہم ایک کی دلچسپی موبائل اور دوسری کی چھوٹے بھائی کی طرف ہی نظر آتی تھی۔ نئی آنے والی لڑکی بڑی ادا سے اپنے بھائی سے ہلکی پھلکی باتیں کر رہی تھی اور اُس کے صبیح چہرے پر مسکراہٹ ایسے ہی آویزاں تھی جیسے چودھویں کا چاند آسمان پر ٹکا نظر آتا ہے۔

حنیف بڑی محویت سے نئی آنے والی لڑکی کو دیکھ رہا تھا کہ اُسے خیال آیا کہ اس طرح ایک ٹُک کسی لڑکی کی طرف دیکھنا مناسب نہیں ہے۔ اُس نے ادھر اُدھر دیکھا تو اُسے وہ لڑکی نظر آئی جو پہلے سے بس میں موجود تھی اور اپنے موبائل گیم میں کسی مرحلے میں ناکام ہونے پر جھنجھلاہٹ کا شکار نظر آ رہی تھی۔

پہلے والی لڑکی کو پھر سے دیکھنے پر اُسے احساس ہوا کہ اس کی رنگت کافی گہری ہے اور اس سانولے پن کے باوجود اُس نے گہرے رنگ کا ہی لباس پہنا ہوا ہے۔ یہ خیال شاید اُسے اس لئے بھی آیا کہ اب اس کے سامنے نووارد خوش شکل لڑکی بھی موجود تھی اور اس دانستہ یا نادانستہ تقابلی جائزے میں حنیف کی مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ سانولی لڑکی کا ناک نقشہ بھی ایسا نہیں تھا کہ جسے قابلِ ستائش کہا جا سکے ۔ ناک متناسب تھی البتہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں چہرے کے حساب سے کچھ عجیب سی لگ رہی تھیں۔ اس کے برعکس نوارد لڑکی، ہر لحاظ سے خوبصورتی کی مثال تھی۔ رنگت نکھری ہوئی، چہرہ صباحبت سے بھرپور، سیاہ آنکھیں ایسی با رونق کہ ایک دنیا ان میں آباد نظر آتی ۔ اس پر مستزاد یہ کہ لباس بھی دیدہ زیب اور سلیقے سے زیب تن کیا ہوا۔
"ان دونوں کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے ۔" حنیف نے دل میں سوچا۔
ابھی وہ اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ بس ایک اسٹاپ پر رُکی اور خوبرو لڑکی اپنے بھائی کو لئے بس سے اُتر گئی اور بس رُکے بغیر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔
اگر وہ بس ڈرائیور ہوتا تو یقیناً رُک کر اُس لڑکی کو جاتا ہوا دیکھتا یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی ۔ یہ بس والے شاید ان چیزوں سے اسی لئے بے نیاز ہوتے ہیں کہ اگر وہ ایسے نہ ہوں تو ڈرائیونگ کرنا ہی مشکل ہو جائے۔ اپنی سوچ پر وہ خود ہی مسکر ادیا۔

مسکراہٹ نے آنکھیں میچیں تو اُسے بس میں کچھ اندھیرے کا سا احساس ہوا۔ صبح صبح جب سورج چڑھ رہا ہوتو اندھیرے کا احساس کیسا ؟ یقیناً بس میں اندھیرا نہیں تھا ۔ البتہ وہ روشنی اب بس میں نہیں تھی جس میں وہ کچھ دیر پہلے دیدہ زیب مناظر دیکھ رہا تھا۔ اگر ویرانی کے لفظ کی شدت کو دس گنا بڑھا دیا جائے تو کہا جا سکتا تھا کہ بس اب ویران تھی اور شاید صرف اُس کے لئے ہی ویران تھی۔ اُس نے گھبرا کر بس کی کھڑکی سے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ منظر ایک کے پیچھے ایک بھاگے جا رہے تھے ۔ گویا بارہا دیکھی ہوئی کوئی فلم پردہ ء سیمیں پر دکھائی جا رہی ہو۔ سارے منظر رٹے رٹائے ، دیکھے بھالے۔ وہی لوگ ، وہی افراتفریح اور وہی روز کے چھوٹے چھوٹے جھگڑے۔ اگر اس فلم کا کوئی نام ہوتا تو یقیناً "یکسانیت" ہی ہوتا ۔ وہی یکسانیت کہ جس کے ہاتھوں بیزار ہو کر انسان کہہ اُٹھتا ہے کہ تنوع ہی زندگی کا اصل لطف ہے۔

کچھ دیر بعد یہی رہوارِ تنوع اُسے پھر بس میں لے آیا۔ بس میں در آنے والا اندھیرا اب کافی حد تک معدوم ہو چُکا تھا اور دھیمے سُروں کے نغمے سماعت میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ اُس نے سامنے دیکھا تو پہلے سے موجود موبائل سے اُلجھتی لڑکی اب مسکرا رہی تھی ۔ شاید موبائل گیم کا وہ سانپ جو اپنی ہی دم سے متصادم ہو کر فنا کے لمحے سے جا ملتا تھا ، اُسے کامیابی کے مزید ایک زینے تک پہنچانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ چھوٹی سی کامیابی اُس کے چہرے پر بڑی مسکراہٹ لے آئی تھی اور اس مسکراہٹ نے اس کا چہرہ پُر نور کر دیا تھا۔ شاید کوئی بد ذوق ہوتا تو کہتا کہ یہ تو موبائل کی روشنی ہے جو اُس کے چہرے پر منعکس ہو رہی ہے لیکن کوئی کہتا بھی تو حنیف مشکل ہی اُس کی بات ماننے پر آمادہ ہوتا۔ عام سے خد و خال والی وہی لڑکی اب حنیف کو بہت اچھی لگ رہی تھی ۔ گویا وہ خود بھی سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں سو کے خانے میں آ موجود ہوا ہو۔
"چلنا بھئی ۔۔۔ ! نصیر آباد والے" بس کنڈکٹر کرخت آواز میں اُس کے اسٹاپ پر پہنچنے کی اطلاع دے رہا تھا ۔ لیکن کنڈکٹر کی یہ پُکار صدا بہ صحرا ہوئی جاتی تھی ۔

عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے ۔ عباس تابشؔ

غزل

پانی آنکھ میں بھر کر لایا جاسکتا ہے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ہے

ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے

دل پر پانی پینے آتی ہیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ہے

مجھ بدنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے

یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ہے

پھٹا پرانا خواب ہے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ہے

عباس تابشؔ

ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

غزل​

ڈوبتی ناؤ تم سے کیا پوچھے
ناخداؤ! تمھیں خدا پوچھے​

کس کے ہاتھوں میں کھیلتے ہو تم
اب کھلونوں سے کوئی کیا پوچھے​

ہم ہیں اس قافلے میں قسمت سے
رہزنوں سے جو راستہ پوچھے​

!ہے کہاں کنجِ گل ، چمن خورو
کیا بتاؤں اگر صبا پوچھے​

اٹھ گئی بزم سے یہ رسم بھی کیا
ایک چپ ہو تو دوسرا پوچھے ​

لیا قت علی عاصم​

بھولتے کو گوگل کا سہارا

بھولتے کو گوگل کا سہارا
ٹیکنالوجی رحمت یا۔۔۔ ​

یوں تو ہم ٹیکنالوجی کو رحمت ہی سمجھتے ہیں ۔ لیکن کبھی کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ ہمیں ناکارہ کرنے کے لئے ہی بنائی گئی ہے۔

جب سے ہم ایم ایس ورڈ پر لکھنے لگے ہیں تب سے ہاتھ سے لکھنا اتنا مشکل لگتا ہے کہ پوچھیں مت۔ پھر نہ لکھنےکی وجہ سے تحریر بھی کافی سے زیادہ شکستہ ہوتی جا رہی ہے۔ سو جب کبھی ہماری تحریر لوگوں کے محدود ذہنوں میں سما نہیں پاتی تو ہم کھسیانے ہو کر کہتے ہیں ۔ خط لکھیں گے چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔۔۔ 

پھر ایم ایس ورڈ نے اسپیلنگ چیک کی سہولت فراہم کی تو ہم نے اسپیلنگ پر توجہ کم سے کم کردی۔ بس مطلوبہ لفظ کی ملتی جلتی شکل فراہم کرتے اور کہتے "بوجھو تو جانیں" اب چونکہ ٹیکنالوجی کی یہ سہولیات برسوں کی محنت سے وجود میں آئی ہیں تو ہمیشہ ہماری اس قسم کی حرکت کو ٹیکنالوجی کے وجود کے لئے خطرہ سمجھا جاتا اور حتی الامکان کوشش کرکے ہماری پہیلی بوجھ لی جاتی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ٹیکنالوجی کا ٹیکہ بیٹھ گیا اور ہمارا بھٹہ۔

کچھ عرصہ اور گزرا تو ہماری یادداشت کا ٹھیکہ گوگل نے سنبھال لیا ۔ ہم نے پھر "ایزی فیل " کیا اور نتیجتاً گوگل کے بغیر بات چیت کے گھوڑے دوڑانا ہمارے لئے دشوار ہو گیا۔ آج ہم فلک شیر بھائی سے خبرِ تحیرِ عشق سُن والی بے مثال غزل کا ذکر کر رہے تھے تو شاعرکا نام یاد نہیں آرہا تھا ۔ بس یہ یاد آیا کہ شاعر اورنگ آباد کے مقیم تھے اور اس بات کو اپنے نام کے ساتھ لکھنے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے۔ پھر گئے گوگل پر اور اُسے لفظ "اورنگ آبادی" کا چارہ ڈالا ۔ گوگل بھیا جھٹ کہنے لگے "سراج اورنگ آبادی؟" ۔ بس پھر کیا تھا گوگل بھیا کو وہیں چھوڑا اور اُلٹے قدم محفل پہنچے تاکہ جملہ مکمل کرکے فلک شیر بھائی کو روانہ کر سکیں۔

ٹیکنالوجی اگر واقعی رحمت ہے تو ہم دن بہ دن ناکارہ کیوں ہوتے جار ہے ہیں؟ یہ ہماری سمجھ نہیں آتا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔ آپ بھی دعا کیجے گا۔

اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں



کیا ضروری ہے یہی نالہ و فریاد رہے
ہم تجھے بھول بھی سکتے ہیں،تجھے یاد رہے

یہ خوبصورت شعر اجمل سراج کا ہے۔ اجمل سراج شہرِ کراچی کے خوش فکر سخنور ہیں اور شاعری میں اپنا نمایاں اسلوب رکھتے ہیں۔ اُن کی شاعری  کی کھیتی معنی آفرینی اور تازہ کاری سے  لہلہاتی نظر آتی ہے۔  چھوٹی چھوٹی باتوں کو  بڑا بنا دینے کا فن اُنہیں خوب آتا ہے۔ اُن کا مشہورِ زمانہ شعر دیکھیے:

اُس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا۔۔۔


اجمل سراج کی دو خوبصورت غزلیں آج احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نظر کی جا رہی ہیں۔ 

طویل بھی ہے فقط صبر آزما ہی نہیں
یہ رات جس میں ستاروں کا کچھ پتا ہی نہیں

نگاہِ دل کو جو رنگِ ثبات سے بھر دے
ابھی وہ پھول کسی شاخ پر کھلا ہی نہیں

جو دیکھتا ہے ،کسی کو نظر نہیں آتا
جو جانتا ہے، اُسے کوئی جانتا ہی نہیں

نظر جہان پہ ٹھہرے تو کس طرح ٹھہرے
اس آئنے میں کوئی عکسِ دل رُبا  ہی نہیں

لئے پھرا ہوں نہ جانے کہاں کہاں اِس کو
مگر یہ دل ہے کہ وہ راہ بھولتا ہی نہیں

وہ خواب ہوں جو کسی کو نظر نہیں آتا
وہ آئنہ ہوں جسے کوئی دیکھتا ہی نہیں

سُنا ہے ہجر بہت بے قرار کرتا ہے
ہمارے ساتھ تو ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

******
یہ خطّہء  آراستہ، یہ شہرِ جہاں تاب
آ جائے گا ایک روز یہ ساحل بھی تہہِ آب

تصویرِ عمل، ذوقِ سفر، شوقِ فنا دیکھ
اک موج کہ ساحل کی طلب میں ہوئی سیماب

شاید یہ کوئی ریز ہ ٴ دل ہے کہ سرِ چشم
مانندِ مہ وہ مہر چمکتا ہے تہہِ آب

اک عمر ہوئی پستیِ ظلمت میں پڑا ہوں
دیکھو مجھے میں  ہوں وہی ہم قریہ ٴ مہتاب

دنیا تو نہیں ہے مگر آغوشِ طلب میں
اک بھولی ہوئی  شکل ہے کچھ ٹوٹے ہوئے خواب

جُز دیدہ ٴ دل کون تجھے دیکھ سکے ہے
محروم تری دید سے ہے منبر و محراب

اے ناظرِ ہر ذرّہ تری ایک نظر کو
آنکھیں ہیں سو بے نور ہیں، دل ہے سو ہے بے تاب

اجمل سراج

دل میں وحشت جگا رہی ہوگی - عبید الرحمٰن عبیدؔ

غزل

دل میں وحشت جگا رہی ہوگی
خواہشِ نا رسا رہی ہوگی

وہمِ دستک بُلا رہا ہوگا
در پہ وحشی ہوا رہی ہوگی

یہ جو کارِ نفس کی تہمت ہے
جانے کس کی دعا رہی ہوگی

یہ  جو آرام سا ہے کچھ دل کو
درد کی انتہا رہی ہوگی

بے بسی کی دریدہ چادر میں
بھولی بِسری وفا رہی ہوگی

ہم بھی  روٹھے ہوئے ہیں کچھ اُس سے
زندگی بھی خفا رہی ہوگی

ارتقا میں عبیدؔ بس حائل
اپنی سرکش انا رہی ہوگی

ؔعبید الرحمٰن عبید