انسان اور وقت

انسان اور وقت کا ساتھ بہت پُرانا ہے ۔ ایک دور تھا کہ وہ سور ج اور ستاروں کی چال دیکھ کر وقت کا اندازہ لگایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب وقت انسان کے ساتھ تھا لیکن شناشائی ابھی ابتدائی مراحل میں ہی تھی ۔ آج بھی انسان کبھی وقت کے ساتھ ہوتا ہے تو کبھی وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ کبھی تیز دوڑ کر آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے اور منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ 

ہزارہا سال کے تجربے اور ساتھ کے باوجود انسان ابھی بھی وقت سے بہت پیچھے ہے۔ وہ لاکھ خود کو طرم خان سمجھنے لگے لیکن وقت ہمیشہ اُس کے اندازوں کو غلط ثابت کردیتا ہے اور اُسے بتاتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ۔۔۔ ۔ 

سوال یہ ہے کہ انسان وقت سے اس قدر اُلجھتا کیوں ہے۔ جواب یہ ہے کہ یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ زندگی اور موت ۔۔۔ ؟ ہاں ! کیا زندگی وقت کے سوا بھی کچھ ہے؟ پھر وہ وقت سے کیوں نہ اُلجھے ۔ زندگی ایک مہلت ہی تو ہے ۔ پیدائش سے لے کر موت تک کی مہلت۔ شاید اسی لئے انسان وقت سے ہمہ وقت برسرِ پیکار رہتا ہے۔ اکثر شاکی رہتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنی کوتاہیوں کے لئے بھی وقت ہی کو قصوروار ٹہھراتا ہے۔ 

وقت کی پیمائش بھی ہمیشہ انسان کے لئے ایک مسئلہ ہی رہی ہے سورج اور ستاروں کی چال سے لے کر فراقِ یار کی طوالت اور وصل کی مختصر گھڑیاں۔ غرض وقت کو ناپنے کے سب پیمانے ایک وقت تک ہی انسان کا ساتھ دیتے ہیں اور پھر انسان سوچتا ہے کہ پلوں کے نیچے سے جتنا پانی بہہ گیا، وقت کے لئے بنائے گئے اُس کے پیمانے اُس کا ادراک ہی نہیں کر سکے۔ 

ڈھلتی عمر بھی انسان کو وقت کے گزرنے سے آگاہ کرتی ہے۔ کسی دن اچانک ہی کسی کا چھوٹا سافقرہ یا آئنے کی بے تکلفی اُسے چونکا دیتی ہے۔ جیسے وہ برسوں کی نیند سے بیدار ہوا ہو۔ وہ سوچتا ہے کہ وقت کی اُنگلی پکڑے وہ کہاں سے کہاں تک آگیا ہے ۔ یہاں تک کہ پیچھے مُڑ کر دیکھنے پر اُسے اپنا نقطہء آغاز تک نظر نہیں آتا۔ اُسے لگتا ہے جیسے وقت ریت کی طرح اُس کی مُٹھی سے پھسل گیا ہو۔ وقت کا ریت کی طرح ہتھیلی سے پھسل جانا بھی کیا ہی خوب تمثیل ہے ۔ شاید پہلی بار جب انسان کو یہ تشبیہہ سوجھی ہو گی تو اُسے ریت گھڑی بنانے کا خیال آیا ہوگا۔ 

آپ نے ریت گھڑی اور کہیں نہیں تو کمپیوٹر میں انتظار کی علامت کے طور پر ضرور دیکھی ہوگی۔ ریت گھڑی سے مستقل ریت کے ذرے زوال پذیر نظر آتے ہیں یہاں تک کہ وقت کی جھولی کے سب سکّے نذرِ خاک ہوجاتے ہیں۔ ریت گھڑی تو پلٹ کر پھر سے کام پر لگادی جاتی ہے لیکن انسان کی زندگی ریگِ صحرا کی ایک مُٹھی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ 

آج کا دور ڈجیٹل گھڑیوں سے بھی آگے کا ہے ، آج ہم ایک ثانیے کے بھی ہزار ویں حصے کی پیمائش باآسانی کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کے احساس ڈجیٹل نہیں ہوسکا ۔ احساس اب بھی وہی ہے ۔ اب بھی انسان کبھی وقت کو قید کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی اُس کی کوشش ہوتی ہے کہ خود کو وقت کی قید سے آزاد کرالے۔ فراق کی گھڑیاں کاٹے نہیں کٹتیں اور وصل میں وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے:

تجھ سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں
وقت کے پاؤں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے​

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ وقت از خودمختصر یا طویل نہیں ہوتا بلکہ انسان کا احساس اُسے درازی یا تنگی کی خلعت عطا کرتا ہے۔ کمرہء امتحان کے تین گھنٹے اور انتظار کے تیس منٹ کو اگر میزانِ احساس میں رکھا جائے تو شاید کوئی بھی پلڑا ہار ماننے کو تیار نہ ہو۔ 

یہ بھی سنتے ہیں کہ وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ۔ دیکھا جائے تو یہ بات بھی خوب ہے کہ خوشی کی گھڑیوں میں انسان کو مغرور نہیں ہونے دیتی اور مشکل میں مایوسی سے بچا لیتی ہے۔ یعنی انسان کے برتاؤ کو اعتدال کے سکون بخش مستقر میں لا کھڑا کرتی ہے۔ اس بات سے مشکل میں حوصلہ ملتا ہے اور اُمید کی لو فروزاں ہو جاتی ہے کہ کبھی تو وقت موافق بھی ہوگا۔ وقت کبھی انسان کے موافق ہوتا ہے تو کبھی مخالف اور ہر دو صورتوں میں یہ انسان کو بہت کچھ سکھاتا ہے اور جو بات وقت انسان کو سکھاتا ہےاُسے بھولنا ممکن نہیں ہوتا۔ 

ہمارے ہاں وقت کا لفظ بہت ہی وسیع معنوں میں مستعمل ہے۔ یہ کبھی محض ایک ساعت کے لئے استعمال ہوتا ہے تو کبھی یہ ایک عہد کا استعارہ بن جاتا ہے۔ وقتِ رخصت، وصل کی ساعت، ہجر کی گھڑیاں، رنج کا موسم اور گلابوں والی رُت سب کے سب وقت کے ہی بہروپ ہیں ۔ اچھا وقت یوں کٹ جاتا ہے کہ پتہ بھی نہیں چلتا۔ بقول پروین شاکر:

ابھی ابھی وہ ملا تھا ہزار باتیں کیں
ابھی ابھی وہ گیا ہے مگر زمانہ ہوا
اور اگر زندگی رنج و محن کی تصویر ہو جائے تو شاعر کہہ اُٹھتا ہے:

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
جو لوگ وقت کے ساتھ چلنا سیکھ لیتے ہیں وہ مستقل خود کو بدلتے رہتے ہیں لیکن وقت رُکنا نہیں جانتا اور اکثر انسان وقت کے تعاقب میں ہانپ جاتا ہے۔ بقول امجد اسلام امجد "وقت سے کون کہے یار ذرا آہستہ۔۔۔ !" 

وقت انسان کے ساتھ جو بھی کرے لیکن انسان کو ہمیشہ یہی سبق دیا جاتا ہے کہ وہ وقت کی قدر کرے اور وقت کے دامن میں کارہائے مثبت و مفید کے پھول کشید کرتا رہے ، یقیناً ایک نہ ایک دن منظر اور پس منظر دونوں رنگ و بو سے معمور ہو جائیں گے۔ 

سب سے آخری بات یہ کہ وقت بڑی ظالم شے ہے اور وہ ایسے کہ اگر آپ خود وقت کے قصیدے بھی پڑھتے رہیں تب بھی یہ اپنی روش سے باز نہ آئے گا اور پُھر سے اُڑ جائے گا اور آپ کو کفِ افسوس ملنے کے مزید وقت درکار ہوگا۔ سو اس گفتگو کو یہیں سمیٹتے ہوئے آخر میں کچھ منتخب اشعار کہ جن میں وقت اور انسانی احساسات کو خوبصورتی سے بُنا گیا ہے۔ 

ایک غزل کے کچھ اشعار :

وقت سے وقت کی کیا شکایت کریں، وقت ہی نہ رہا وقت کی بات ہے
اُس نے دیکھا مجھے، اُس نے چاہا مجھے، اُس نے ٹھکرا دیا، وقت کی بات ہے

کوئی مشکل پڑی، کوئی کام آگیا، ذہن میں اُس کے جو میرا نام آگیا
بعد مدّت کے وہ دوستوں کی طرح ہم سے ہنس کر ملا وقت کی بات ہے

زندگی ہم سے انجان تو ہو گئی، ایک رشتے کی پہچان تو ہو گئی
کوئی چاہت نہ تھی بس مروّت تھی وہ، خود کو سمجھا لیا وقت کی بات ہے​

کچھ اشعار ایک اور غزل سے:

جسم کی بات نہیں تھی ان کے دل تک جانا تھا
لمبی دوری طے کرنے میں وقت تو لگتا ہے

ہم نے علاج زخم دل تو ڈھونڈ لیا لیکن
گہرے زخموں کو بھرنے میں وقت تو لگتا ہے

گانٹھ اگر لگ جائے تو پھر رشتے ہوں یا ڈوری
لاکھ کریں کوشش کھولنے میں وقت تو لگتا ہے
کچھ اشعار فرحت عباس شاہ کے:

آگ ہو تو جلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں‌ دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی رک جائے، چاہے کوئی رہ جائے
قافلوں کو چلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

چاہے کوئی جیسا بھی ہمسفر ہو صدیوں سے
راستہ بدلنے میں دیر کتنی لگتی ہے​

کچھ نوشی گیلانی کے:

کُچھ بھی کر گزرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
برف کے پگھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے

اُس نے ہنس کر دیکھا تو مُسکرادیے ہم بھی
ذات سے نکلنے میں دیر کِتنی لگتی ہے​

جون ایلیا:

آدمی وقت پر گیا ہوگا
وقت پہلے گزر گیا ہوگا

ابنِ انشاء:

ساعتِ چند کے مسافر ہیں 
کوئی دم اور گفتگو لوگو! ​

اور بھی بہت سے ہیں لیکن کسی اور "وقت"۔ 

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو ۔ نور بجنوری

غزل

شہریاروں کے غضب سے نہیں ڈرتے یارو
ہم اصولوں کی تجارت نہیں کرتے یارو

خونِ حسرت ہی سہی، خونِ تمنّا ہی سہی
ان خرابوں میں کوئی رنگ تو بھرتے یارو

پھر تو ہر خاک نشیں عرشِ بریں پر ہوتا
صرف آہوں سے مقدر جو سنورتے یارو

سولیاں جُھوم کے ہوتی ہیں ہم آغوش جہاں
کاش ہم بھی اُنہی راہوں سے گُزرتے یارو

سر کہیں، سر پہ سجائی ہوئی دستار کہیں
زندگی کے لئے یوں بھی نہیں مرتے یارو

چاند تسخیر کیا، قلب نہ تسخیر کیا
اس  جزیرے میں بھی اک بار اُترتے یارو

نور بجنوری

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا ۔ اُمید فاضلی

غزل

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے 
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور  اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

اُمید فاضلی

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

سیلف میڈ لوگوں کا المیہ

روشنی مزاجوں کا کیا عجب مقدر ہے
زندگی کے رستے میں ۔ ۔ بچھنے والے کانٹوں کو 
راہ سے ہٹانے میں 
ایک ایک تنکے سے آشیاں بنانے میں 
خوشبوئیں پکڑنے میں ۔ ۔ گلستاں سجانے میں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
عمر کاٹ دیتے ہیں 
اور اپنے حصے کے پھول بانٹ دیتے ہیں 
کیسی کیسی خواہش کو قتل کرتے جاتے ہیں 
درگزر کے گلشن میں ابر بن کے رہتے ہیں 
صبر کے سمندر میں ۔ ۔ کشتیاں چلاتے ہیں 

یہ نہیں کہ ان کو اس روز و شب کی کاہش کا 
کچھ صلہ نہیں ملتا 
مرنے والی آسوں کا ۔ ۔ خون بہا نہیں ملتا 

زندگی کے دامن میں ۔ ۔ جس قدر بھی خوشیاں ہیں 
سب ہی ہاتھ آتی ہیں 
سب ہی مل بھی جاتی ہیں 
وقت پر نہیں ملتیں ۔ ۔ وقت پر نہیں آتیں 

یعنی ان کو محنت کا اجر مل تو جاتا ھے 
لیکن اس طرح جیسے 
قرض کی رقم کوئی قسط قسط ہو جائے 
اصل جو عبارت ہو ۔ ۔ پسِ نوشت ہو جائے 

فصلِ گُل کے آخر میں پھول ان کے کھلتے ہیں 
ان کے صحن میں سورج  دیر سے نکلتے ہیں

امجد اسلام امجد

رنگ ہے دل کا مرے

رنگ ہے دل کا مرے

تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر،  راہگزر راہگزر،  شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ، خون جگر ہونے تک
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو تھی
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے

فیض احمد فیض

نور بجنوری کی دو خوبصورت غزلیں



روح چٹخی ہوئی، جسم دُرکا ہوا
دستِ سائل بھی، کاسہ بھی ٹوٹا  ہُوا

میرے باہر زمان و مکاں نوحہ گر
میرے اندر کوئی مجھ پہ ہنستا  ہُوا

ہر نظر نیم جاں عقل کے زہر سے
ہر صحیفے میں اک سانپ بیٹھا  ہُوا

وحشیوں کو بگولے اُڑا لے گئے
شہر کی طرح صحرا بھی سُونا  ہُوا

ایک اندھی کرن بین کرنے لگی
قریہ ٴ دل میں شاید سویرا  ہُوا

کوہکن، تیشہ و سنگ سے بے نیاز
قیس، پھولوں کے بستر پہ سویا  ہُوا

اس جنم میں بھی جسموں کی منڈی لگی
اس جنم میں بھی چاہت کا سودا ہُوا

تیر بن کر لگا آج احساس پر
ایک پتّہ ہواؤں میں اُڑتا ہوا


******

سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی
ہم وہی، لوگ وہی، کوچہء دلدار وہی

اک جہنّم سے دھکتا ہُوا، تاحدِّ نظر
وقت کی آگ وہی شعلہء رفتار وہی

شیشہ ٴ  چشم  پہ چھایا ہُوا اک زلف کا عکس
قریہ ٴ دار وہی، سایہ ٴ دیوار وہی

عرصہ ٴ  حشر کبھی ختم بھی ہوگا کہ نہیں
وہی انصاف کی میزان، گناہگار وہی

تم سلامت رہو ، یوسف کی ضرورت کیسی
اہلِ فن! آج بھی ہے رونقِ بازار وہی

میں بھی زندہ ہوں ، ترا حُسن بھی تابندہ ہے
چاند سے زخم  وہی، پھول سی مہکار وہی

نورؔ میں اب بھی محبّت کو عبادت جانوں
ہے مرے ہاتھ میں ٹوٹی ہوئی تلوار وہی

نور بجنوری

رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں



رضی اختر شوق کی دو خوبصورت غزلیں


ایک ہی  آگ کے شعلوں میں جلائے ہوئے لوگ 
روز مل جاتے ہیں دو چار ستائے ہوئے لوگ

وہی میں ہوں، وہی آسودہ خرامی میری
اور ہر سمت وہی دام بچھائے ہوئے لوگ

خواب کیسے کہ اب آنکھیں ہی سلامت رہ جائیں
وہ فضا ہے کہ رہیں خود کو بچائے ہوئے لوگ

تیرے محرم تو نہیں اے نگہِ ناز مگر
ہم کو پہچان کہ ہیں تیرے بُلائے ہوئے لوگ

زندگی دیکھ یہ انداز تری چاہت کا
کن صلیبوں کو ہیں سینے سے لگائے ہوئے لوگ

پھر وہی ہم ہیں وہی حلقہ ٴ یاراں بھی ہے شوقؔ
پھر وہی شہر، وہی سنگ اُٹھائے ہوئے لوگ


******


اے خدا صبر دے مجھ کو نہ شکیبائی دے
زخم وہ دے جو مری روح کو گہرائی دے

خلقتِ شہر یونہی خو ش ہے تو پھر یوں ہی سہی
ان کو پتّھر دے ، مجھے ظرفِ پذیرائی دے 

جو نگاہوں میں ہے کچھ اس سے سوا بھی دیکھوں
یا اِن آنکھوں کو بجھا یا انہیں بینائی دے

تہمتِ عشق تو اس شہر میں کیا دے گا کوئی
کوئی اتنا بھی نہیں طعنہ ٴ رسوائی دے

بارِ دنیا نہ سہی، بارِ صداقت اُٹھ جائے
ناتواں جسم کو اتنی تو توانائی دے

مجھ کو اس شہر کی درماندہ خرامی سے الگ
پھر مرے خواب دے اور پھر مری تنہائی دے

رضی اختر شوق