ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو

غزل

ہم ہیں آوارہ سُو بسُو لوگو
جیسے جنگل میں رنگ و بُو لوگو

ساعتِ چند کے مسافر سے
کوئی دم اور گفتگو لوگو

تھے تمہاری طرح کبھی ہم لوگ
گھر ہمارے بھی تھے کبھو لوگو

ایک منزل سے ہو کے آئے ہیں
ایک منزل ہے رُوبُرو لوگو

وقت ہوتا تو آرزو کرتے
جانے کس شے کی آرزو لوگو

تاب ہوتی تو جتسجُو کرتے
اب تو مایوس جستجُو لوگو

ابنِ انشا

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

غزل

تری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں
اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے
یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

یہ بہ ہر لحظہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوئے لوگ
کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے
اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

دربدر ہو کے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے
وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

اب گلہ کیا کہ ہوا ہوگئے سب حلقہ بگوش
میں نہ کہتا تھا کہ یہ سہل طلب تیرے نہیں

ہو نہ ہو دل پہ کوئی بوجھ ہے بھاری ورنہ
بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

افتخار عارف

دلِ سوختہ کبھی بول بھی

کبھی بول بھی (نظم)

دلِ سوختہ
کبھی بول بھی
جو اسیر کہتے تھے خود کو تیری اداؤں کے وہ کہاں گئے
جو سفیر تھے تیر ی چاہتوں کی فضاؤں کے وہ کہاں گئے
وہ جو مُبتلائے سفر تھے تیرے خیال میں
وہ جو دعویدار تھے عمر بھی کی وفاؤں کے وہ کہاں گئے
کبھی کوئی راز تو کھول بھی
کبھی بول بھی

دلِ نا خدا
کبھی بول بھی
جو تیرے سفینۂ دار و غم کے سوار تھے
جو تیرے وظیفہء چشمِ نم پہ نثار تھے
وہ جو ساحلوں پہ اُ تر گئے تو پھر اُس کے بعد پلٹ کے آئے کبھی نہیں
تیری لہر لہر پہ جن کے نقش و نگار تھے
کسی دن ترازوئے وقت پر
اُنہیں تول بھی
کبھی بول بھی

وہ جو تیرے نغمۂ زیرو بم کے امین تھے
جو ترے طفیل بلندیوں کے مکین تھے
و ہ جو معترف تھے تری نگاہِ نیاز کے
تمھیں جن پہ سو سو یقین تھے
وہ چکا گئے ترا مول بھی
کبھی بول بھی
کبھی بول بھی، دلِ سوختہ، دلِ نا خدا، دلِ بے نوا، کبھی بول بھی

فرحت عباس شاہ

سچ کہا اے صبا! صحنِ گل زار میں دل نہیں لگ رہا

 لیاقت علی عاصم کی خوبصورت غزل

******جا و ید  صبا کی نذر******


سچ کہا اے صبا! صحنِ گل زار میں دل نہیں لگ رہا
سایہٴ سبز میں صحبتِ یار میں دل نہیں لگ رہا

رُوپ کیا شہر کا، شکل کیا گاؤں کی، دھوپ اورچھاؤں کی
ایک تکرار ہے اور تکرار میں دل نہیں لگ  رہا

وہ بدن اب کہاں، پیرَھن اب کہاں، بانکپن اب کہا ں
سب بیاباں  ہُوا، تیرے  بازار میں دل نہیں لگ رہا

میرے  تو رنگ ہی اُڑ گئے جب کہا ایک تصو یر نے
اب مجھے پھینک دو، میرا دیوار میں دل نہیں لگ رہا

صر صرِ وقت آئے  بکھیرے مجھے چار اطراف میں
اب عناصر کے اس ٹھوس انبار میں دل نہیں لگ رہا

اے پرندو  چلو، اے درختو چلو، اے  ہواؤ چلو
گرد  ہی گرد  ہے، کوچہ ٴ یار میں  دل نہیں لگ رہا

کیا کتابیں مری، کیا مری شاعری، رائیگا ں رائیگاں
میر و سودا و غالب کے اشعار میں دل نہیں لگ رہا

بشکریہ : محترم سید انور جاوید ہاشمی

زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے​

غزل​
زخم کا اندِمال ہوتے ہوئے​
میں نے دیکھا کمال ہوتے ہوئے​
ہجر کی دھوپ کیوں نہیں ڈھلتی​
جشنِ شامِ وصال ہوتے ہوئے​
دے گئی مستقل خلش دل کو​
آرزو پائمال ہوتے ہوئے​
لوگ جیتے ہیں جینا چاہتے ہیں​
زندگانی وبال ہوتے ہوئے​
کس قدر اختلاف کرتا ہے​
وہ مرا ہم خیال ہوتے ہوئے​
پئے الزام آ رُکیں مجھ پر​
ساری آنکھیں سوال ہوتے ہوئے​
آج بھی لوگ عشق کرتے ہیں​
سامنے کی مثال ہوتے ہوئے​
خود سے ہنس کر نہ مل سکے احمدؔ​
خوش سخن، خوش خصال ہوتے ہوئے​
محمد احمدؔ​

بھائی کی محبت کے عکاس دو نوحے ۔ فیض احمد فیض اور مصطفیٰ زیدی کے قلم سے


کہنے کو تو یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہی ہے کہ لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن ساتھ زندگی بسر کرنے والے  اکثر دلوں میں گھر کر جاتے ہیں  اور اُن کی عارضی یا دائمی جدائی دلوں میں گھاؤ ڈال جاتی ہے۔ پھر اگر ایسے لوگ آپ کے قریبی ہوں۔ آپ کے اہلِ خانہ میں سے ہوں تو یہ زخم اور بھی گہرا ہوتا ہے کہ اپنوں کی جُدائی بھی اپنوں کی محبت کی طرح بے مثال ہوتی ہے۔ 

رفتگاں کی یاد اور دکھ اردو شاعری کا ایک خاص حزنیہ موضوع ہے اور شعراء نے اس  کا حق بھی خوب ادا کیا ہے۔ ذیل میں دو نظمیں پیش ہیں جو دو  بے مثال شعراء نے اپنے بھائی کی وفات پر لکھی۔ پہلی نظم تو فیض کی مشہورِ زمانہ "نوحہ"  ہے جبکہ دوسری نظم مصطفیٰ زیدی کی "اپنے مرحوم بھائی مجتبیٰ زیدی کے نام" ہے۔  دونوں ہی نظمیں ایک سے بڑھ کر ایک ہیں اور محبت اور  غم کی وہ کیفیات رکھتی ہیں کہ جنہیں دل سے ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔  

نوحہ 

مجھ کو شکوہ ہے مرے بھائی کہ تم جاتے ہوئے
لے گئے ساتھ مری عمرِ گزشتہ کی کتاب
اس میں تو میری بہت قیمتی تصویریں تھیں
اس میں بچپن تھا مرا، اور مرا عہدِ شباب
اس کے بدلے مجھے تم دے گئے جاتے جاتے
اپنے غم کا یہ دمکتا ہوا خوں رنگ گلاب
کیا کروں بھائی ، یہ اعزاز میں کیونکر پہنوں
مجھ سے لے لو مری سب چاک قمیضوں کا حساب
آخری بار ہے، لو مان لو اک یہ بھی سوال
آج تک تم سے میں لوٹا نہیں مایوسِ جواب
آ کے لے جاؤ تم اپنا یہ دمکتا ہوا پھول
مجھ کو لوٹا دو مری عمرِ گزشتہ کی کتاب

فیض احمد فیض

۔۔۔۔۔۔

اپنے مرحوم بھائی  مجتبیٰ زیدی کے نام 

تم کہاں رہتے ہو اے ہم سے بچھڑنے والو!
ہم  تمھیں ڈھونڈنے جائیں تو ملو گے کہ نہیں
ماں کی ویران نگاہوں کی طرف دیکھو گے؟
بھائی آواز اگر دے تو سُنو گے کہ نہیں

دشتِ غربت کے بھلے دن سے بھی جی ڈرتا ہے
کہ وہاں کوئی نہ مونس نہ سہارا ہوگا
ہم کہاں جشن میں شامل تھے جو کچھ سُن نہ سکے!
تم نے ان زخموں میں کس کس کو پکارا ہوگا

ہم تو جس وقت بھی، جس دن بھی پریشان ہوئے
تم نے آکر ہمیں محفوظ کیا، راہ دکھائی
اور جب تم پہ بُرا وقت پڑا تب ہم لوگ
جانے کس گھر میں ،کہاں سوئے ہوئے تھے بھائی

ہم تری لاش کو کاندھا بھی نہ دینے آئے
ہم نے غربت میں تجھے زیرِ زمیں چھوڑ دیا
ہم نے اس زیست میں بس ایک نگیں پایا تھا
کسی تربت میں وہی ایک نگیں چھوڑ دیا

(نا مکمل ۔۔۔۔۔     وہ نوحہ جو کبھی مکمل نہیں ہو سکتا)

مصطفیٰ زیدی

رشک بھرے دو سوال

کاسنی رنگ کا 
وہ جو چھوٹا سا پھول اُس کے بالوں میں ہے
کن خیالوں میں ہے؟

اور آویزے جو 
جھلملاتے ہوئے اُس کے کانوں میں ہیں
کن اُڑانوں میں ہیں؟

محمد احمدؔ