غزل
چراغ دینے لگے گا دھواں نہ چھو لینا
تو میرا جسم کہیں میری جاں نہ چھو لینا
زمیں چُھٹی تو بھٹک جاؤگے خلاؤں میں
تم اُڑتے اُڑتے کہیں آسماں نہ چھو لینا
نہیں تو برف سا پانی تمھیں جلا دے گا
گلاس لیتے ہوئے اُنگلیاں نہ چھو لینا
ہمارے لہجے کی شائستگی کے دھوکے میں
ہماری باتوں کی گہرائیاں نہ چھو لینا
اُڑے تو پھر نہ ملیں گے رفاقتوں کے پرند
شکایتوں سے بھری ٹہنیاں نہ چھو لینا
مروٓتوں کو محبت نہ جاننا، عرفان
تم اپنے سینے سے نوکِ سناں نہ چھو لینا