خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا ۔ شاذ تمکنت

غزل

خراب ہوں کہ جنوں کا چلن ہی ایسا تھا
کہ ترا حسن، مرا حسنِ ظن ہی ایسا تھا

ہر ایک ڈوب گیا اپنی اپنی یادوں میں
کہ ترا ذکر سرِ انجمن ہی ایسا تھا

بہانہ چاہیے تھا جوئے شیر و شیریں کا
کوئی سمجھ نہ سکا تیشہ زن ہی ایسا تھا

حدِ ادب سے گریزاں نہ ہو سکا کوئی
کہ سادگی میں، ترا بانکپن ہی ایسا تھا

رفاقتوں میں بھی نکلیں رقابتیں کیا کیا
میں کیا کہوں ترا روئے سخن ہی ایسا تھا

جہاں بھی چھاؤں ملی، دو گھڑی کو بیٹھ رہے
دیارِ غیر کہاں تھا، وطن ہی ایسا تھا

تھی داغ داغ مرے قاتلوں کی خوش پوشی
کہ عمر بھر مرے سر پر کفن ہی ایسا تھا

مجھے تو یوں لگا ترشا ہوا تھا شعلہ کوئی
بدن ہی ایسا تھا  کچھ پیرہن ہی ایسا تھا

حقیقتوں میں بھی تھی شاذؔ  رنگ آمیزی
قصیدۂ لب و عارض کا فن ہی ایسا تھا

شاذ تمکنت

غزل ۔ خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا ۔ رسا چغتائی

غزل

خاک اُڑتی ہے اس جہان میں کیا
پھول کھلتے ہیں آسمان میں کیا

عشق تیرے خیال میں کیا ہے
زندگی ہے ترے گُمان میں کیا

میں جو حیرت زدہ سا رہتا ہوں
بات آتی ہے تیرے دھیان میں کیا

نیند آرام کر رہی ہے ابھی
تیری پلکوں کے سائبان میں کیا

کیا ہوئے وہ شکست خوردہ لوگ
آگئے سب تری امان میں کیا

تجھ سے یہ تیرے حاشیہ بردار
اور کہتے بھی میری شان میں کیا

پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا

ہم ہیں خود آپ رو برو اپنے
اور ہیں خود ہی درمیان میں کیا

وہ جو کھڑکی کھلی سی رہتی ہے
جھانکتی ہے مرے مکان میں کیا

حال اپنا بھی کیا یہی ہو گا
ذکر آئے گا داستان میں کیا

جب کیے دُکھ بیاں اُسی سے کیے
بات ایسی ہے اس چٹان میں کیا

اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا

دل سے جب دل کلام کرتا ہے
لفظ آتے ہیں درمیان میں کیا

کیا ہوئے میرے خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا

جمع کیجے نہ درد و غم تو رساؔ
کیجیے اور اس جہان میں کیا

رساؔ چغتائی

وا میرے وطن ۔۔۔ ترجمہ ۔۔۔۔ از فیض احمد فیض

وا  میرے وطن 

ترجمہ از فیض احمد فیض


او میرے وطن! او میرے وطن! او میرے وطن!
مرے سر پر وہ ٹوپی نہ رہی 
جو تیرے دیس سے لایا تھا
پاؤں میں وہ اب جوتے بھی نہیں
واقف تھے جو تری راہوں سے
مرا آخری کُرتا چاک ہُوا 
ترے شہر میں جو سلوایا تھا
اب تیری جھلک 
بس اُڑتی ہوئی رنگت ہے میرے بالوں کی
یا جُھریّاں مرے ماتھے پر 
یا میرا ٹوٹا ہُوا دل ہے 
وا میرے وطن ! وا میرے وطن ! وا میرے وطن

شامِ شہرِ یاراں سے انتخاب

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا ۔ رسا چغتائی

شہرِ کراچی کے صاحب ِ طرز شاعر رسا چغتائی کی دو غزلیں آپ کے ذوق کی نظر کی جارہی ہیں۔  رسا کے شعری مجموعوں میں"تیرے آنے کا انتظار رہا" سب سے آخر میں شائع ہوئی  ہے جبکہ اس سے پہلے ان کے چار شعری مجموعے ریختہ، زنجیرِ ہمسائیگی، تصنیف اور چشمہ ٹھنڈے پانی کا کے نام سے آ چکے ہیں۔ 

رسا چغتائی کا مختصر سا تعارف محترم  قمر جمیل کی زبانی بھی  نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔  

رسا چغتائی سید ابو العلا ابولعلائی  سلسلے کے ایک بزرگ عارفی سے بیت ہے۔ والد کا نام مرزا محمود علی بیگ  اور خود اُس کا نام مرزا محتشم علی بیگ ہے۔ یگانہ کی طرح یہ بھی چنگیزی ہے۔ مگر لہجہ میں کڑوا پن نہیں ۔ سوائی ۔ مادھوپور کا رہنے والا یہ شخص ۔ چاروں طرف پہاڑ اور بیچ میں اس کا قصبہ تھا۔ آج بھی  اس کے چاروں طرف پہاڑ ہیں اور بیچ میں اس کا قصبہ ہے۔ اس کی شاعری قصبے سے طلوع ہونے والے  غمزدہ چاند کی طرح ہے جس کے سامنے ایک بیکراں رات ہے۔ شاعرانہ علم کی بیکراں رات! جس میں اس کے دکھوں کے داغ چاند کے داغوں کی طرح چمکتے ہیں اور چمکتے ہیں نہیں ، ہمارے آس پاس گھومنے لگتے ہیں! اور اندھیروں میں شاعری کی نئی روشنی جنم لیتی ہے۔ شاعری کی نئی روشنی رسا چغتائی کے چہرے پر بھی پڑ رہی ہے۔ 

 پہلی غزل

کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے

نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اُڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے

کیا کہیں وہ زُلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دار ہوائے راہگُزر کیسے ہوئے

حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے

ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے

**** 

دوسری غزل

خواب اُس کے ہیں جو چُرا لے جائے
نیند اُس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زُلف اُس کی ہے جو اُسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اُس کی ہے شاخِ گُل اُس کی
جو اُسے کھینچتا ہوا لے جائے

یوں تو اُس پاس کیا نہیں پھر بھی
ایک درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے
تیر ہو تو کوئی اُٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کردے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے

لَو دیے کی نگاہ میں رکھنا
جانے کس سمت راستہ لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے
ان بُتوں کو کہاں خدا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے
یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدّیار، میرا کیا
موج لے جائے یا ہَوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدّر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے

**** 

اس بار ووٹ کسے دیا جائیے ؟؟؟


کل ملک میں عام انتخابات ہونے جا ر ہے ہیں۔ اور ہر ذہن میں یہ سوال ضرور اُٹھتا ہے کہ اپنا قیمتی ووٹ کسے دیا جائے؟ 

میری رائے صرف یہ کہ ووٹ نظریاتی بنیاد پر دیں، نہ کہ لسانی، علاقائی یا صوبائی بنیاد پر۔ ووٹ اپنے "عزیزوں" کو نہ دیں بلکہ اُنہیں دیں جنہیں پاکستان "عزیز" ہو ۔ 

ووٹ ایسے لوگوں کو نہ دیں جن سے مستقل میں کوئی کام نکلنے کی اُمید ہو بلکہ ووٹ ایسے لوگوں کو دیں جو مستقبل میں ایسا نظام لائیں کہ جس کی مدد سے سب کے سب (جائز ) کام سہل ہو جائیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ووٹ ایسے لوگوں کو دیں جو پاکستانیوں کو آپس میں متحد کریں نہ کہ متنفر کریں۔

ووٹ صرف سچے کھرے اُمیدوار یا جماعت کو دیجے اور تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھ دیجے۔ ملک کے وسیع تر مفاد کے لئے چھوٹی چھوٹی وابستگیوں اور مفاد کو پسِ پشت ڈال دیجے۔ اگر آج آپ نے پاکستان کو صحیح رُخ پر ڈال دیا تو کل ان شاءاللہ آپ کا ہوگا۔  سوچ سمجھ کر ووٹ دیجے کہیں کل پچھتانا پڑے۔ 

انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت


کل ایک انتخابی اشتہار دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ 

کچھ مختلف یوں لگا کہ اشتہار میں صوبائی نشست کا اُمیدوار ایک جماعت سے تھا جبکہ قومی اسمبلی کی نشست کے لئے اُمیدوار دوسری جماعت سے، یعنی یہ اشتہار انتخابی سیاسی اتحاد کا شاخسانہ تھا۔ 

یوں ہی دل میں خیال آیا کہ سیاسی یا انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت کیا ہے؟

فرض کیجے ایک شخص جماعت "الف" کو پسند کرتا ہے اور جماعت "ب" کو نا پسند کرتا ہے۔ اب اگر جماعت "الف" اور "ب" آپس میں انتخابی اتحاد کر لیں تو اس شخص کی کیا کیفیت ہوگی اور اُس کا ووٹ کس کے لئے ہوگا؟  یہی بات ایسے شخص کے لئے بھی ہے جس کی پسندیدگی پہلے شخص کے رجحانات کے برعکس ہو۔ 

پھر کیا جماعت "الف" اور جماعت "ب" کا انتخابی منشور ایک ہی ہے؟ یا جماعت "الف" یہ سمجھتی ہے کہ اُس کی طرح سے جماعت "ب" بھی ایک اچھی جماعت ہے اور اس قابل ہے کہ آئندہ حکومت بنا سکے۔  پھر جماعت "الف" کے وجود کا کیا جواز ہے؟ بہتر تو یہ ہے کہ اُسے جماعت "ب" میں ضم ہو جانا چاہیے۔ 

بظاہر دیکھا جائے تو سیاسی اور انتخابی اتحاد صرف اور صرف اس لئے کیے جاتے ہیں کہ کسی تیسرے مخالف کو زیر کیا جا سکے۔ یعنی ہمارے مخالف کا مخالف، ہمارا اتحادی۔ اور اس طرح کے اتحاد میں نظریات کا عمل دخل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یعنی وہی غلط روایت جو قبائلی معاشروں میں رہی ہے کہ "دشمن کا دشمن، ہمارا دوست"!

اس تمام پس منظر میں دیکھا جائے تو سیاسی اور انتخابی اتحاد کی اخلاقی حیثیت کیا رہ جاتی ہے۔ کیا کسی جماعت کے ووٹر کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ پوچھ سکے کہ تم نے فلاں جماعت سے اتحاد کیوں کیا؟

خواب گاہوں سے نِکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو ۔ اقبال عظیم

غزل

اپنے مرکز سے اگر دُور نِکل جاؤ گے
خواب ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے

اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھُلا مت دینا
سُرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے

دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
اُن کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھِسل جاؤ گے

خواب گاہوں سے نِکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھُوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پِگھل جاؤ گے

تیز قدموں سے چلو اور تصادُم سے بچو
بھِیڑ میں سُست چلو گے تو کُچل جاؤ گے

ہمسفر ڈھُونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے

تم ہو ایک زِندہ و جاوید رِوایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سُورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے

صبحِ صادِق مجھے مطلوب ہے میں کس سے کہوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے

اقبال عظیم