غزل
اپنے مرکز سے اگر دُور نِکل جاؤ گے
خواب ہوجاؤ گے افسانوں میں ڈھل جاؤ گے
اپنے پرچم کا کہیں رنگ بھُلا مت دینا
سُرخ شعلوں سے جو کھیلو گے تو جل جاؤ گے
دے رہے ہیں تمہیں جو لوگ رفاقت کا فریب
اُن کی تاریخ پڑھو گے تو دہل جاؤ گے
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھِسل جاؤ گے
خواب گاہوں سے نِکلتے ہوئے ڈرتے کیوں ہو
دھُوپ اتنی تو نہیں ہے کہ پِگھل جاؤ گے
تیز قدموں سے چلو اور تصادُم سے بچو
بھِیڑ میں سُست چلو گے تو کُچل جاؤ گے
ہمسفر ڈھُونڈو نہ رہبر کا سہارا چاہو
ٹھوکریں کھاؤ گے تو خود ہی سنبھل جاؤ گے
تم ہو ایک زِندہ و جاوید رِوایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سُورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے
صبحِ صادِق مجھے مطلوب ہے میں کس سے کہوں
تم تو بھولے ہو چراغوں سے بہل جاؤ گے
اقبال عظیم
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں