جو سنتا ہوں کہوں گا میں ۔ انور شعورؔ کی دو غزلیں


انور شعور ؔ عہدِ حاضر کے اُن  شعراء میں سے ہیں جن کا کلام اُن کو بہت سے دوسرے ہم عصر شعراء  سے ممتاز کرتا ہے۔ انور شعور کے ہاں جو  بے ساختگی اور  بے باکی ہمیں ملتی ہے وہ دیگر  شعراء میں شاذ ہی نظر آتی ہے ۔ بے باکی کو  اشعار  میں برتنا ، وہ بھی ایسے کہ شعر کا فطری حسن  ، نزاکتِ خیال اور  نغمگی  متاثر نہ ہو، آسان ہرگز نہیں ہے لیکن انور شعور کے ہاں ایسے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں اور اُن کی قادر الکلامی پر دلالت کرتے ہیں۔   اُن کی دو خوبصورت غزلیں اہلِ  ذوق کی نذر کی جا رہی ہیں  جو  اپنی مثال آپ ہیں اور انور شعور کی  دل پزیر  شاعری کی  تمثیل بھی ہیں۔


غزل

توفیقِ علم و حلم و شرافت نہیں مجھے
حاصل کسی طرح کی سعادت نہیں مجھے

جب سے سنی ہیں متّقیوں کی کرامتیں
اپنے کیے پہ کوئی ندامت نہیں مجھے

دل چاہتا تو ہے کہ ہَوس کاریاں کروں
لیکن یہ استطاعت و ہمّت نہیں مجھے

خوبانِ شہر بھی نہ ہوئے مجھ پہ ملتفت
میں بھی وہ بد دماغ کہ حسرت نہیں مجھے

تا حشر حاسدوں کو سلامت رکھے خدا
ان کے طفیل کون سی راحت نہیں مجھے

درپے ہُوا ہی کرتے ہیں کج فہم و کم نظر
ان احمقوں سے کوئی شکایت نہیں مجھے

لکھّی گئی ہیں نامہ ء اعمال میں مرے
جن لغزشوں سے دور کی نسبت نہیں مجھے

کیا کیا ہُوئیں نہ حوصلہ افزائیاں کہ اب
زنہار صبر و ضبط کی طاقت نہیں مجھ

چُپ ہوں کہ بارگاہِ حقیقت پناہ سے
اسرار کھولنے کی اجازت نہیں مجھے

انور شعورؔ

*******

جو سنتا ہوں کہوں گا میں، جو کہتا ہوں سنوں گا میں
ہمیشہ مجلسِ نطق و سماعت میں رہوں گا میں

نہیں ہے تلخ گوئی شیوہ ء سنجیدگاں لیکن
مجھے وہ گالیاں دیں گے تو کیا چپ سادھ لوں گا میں

کم از کم گھر تو اپنا ہے، اگر ویران بھی ہوگا
تو دہلیز و در و دیوار سے باتیں کروں گا میں

یہی احساس کافی ہے کہ کیا تھا اور اب کیا ہوں
مجھے بالکل نہیں تشویش آگے کیا بنوں گا میں

مری آنکھوں کا سونا چاہے مٹی میں بکھر جائے
اندھیری رات! تیری مانگ میں افشاں بھروں گا میں

تساہل ایک مشکل لفظ ہے، اس لفظ کا مطلب
کتابوں میں کہاں ڈھونڈوں، کسی سے پوچھ لوں گا میں

حصول آگہی کے وقت کاش اتنی خبر ہوتی
کہ یہ وہ آگ ہے جس آگ میں زندہ جلوں گا میں

اُداسی کی ہوائیں آج پھر چلنے لگیں؟ اچھا
تو بس آج اور پی لوں، کل سے قطعا` چھوڑ دوں گا میں

کوئی اک آدھ تو ہوگا مجھے جو راس آجائے
بساطِ وقت پر ہیں جس قدر مہرے چلوں گا میں

نہ لکھ پایا ترے دل میں اگر تحریرِ غم اپنی
تری ماتھے پہ اک گہری شکن ہی کھینچ دوں گا میں

کیا ہے گردشوں سے تنگ آ کر فیصلہ میں نے
کہ محنت کے علاوہ چاپلوسی بھی کروں گا میں

اگر اس مرتبہ بھی آرزو پوری نہیں ہوگی
تو اس کے بعد آخر کس بھروسے پر جیوں گا میں

یہی ہوگا، کسی دن ڈوب جاؤں گا سمندر میں
تمناؤں کی خالی سیپیاں کب تک چنوں گا میں

انور شعورؔ



جانے کیا ہو گیا ہے کچھ دن سے

غزل

جانے کیا ہو گیا ہے کچھ دن سے
وحشتِ دل سوا ہے کچھ دن سے

لاکھ جشنِ طرب مناتے ہیں
روح نوحہ سرا ہے کچھ دن سے

ہے دعاؤں سے بھی گُریزاں دل
ربط ٹوٹا ہوا ہے کچھ دن سے

روح، تتلی ہو جیسے صحرا میں
اور آندھی بپا ہے کچھ دن سے

میں اُسے دیکھ تک نہیں سکتا
وہ مجھے تک رہا ہے کچھ دن سے

میں تو ایسا کبھی نہ تھا احمدؔ
یہ کوئی دوسرا ہے کچھ دن سے

محمد احمدؔ

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

غزل

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے

میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے ، اے صاحبِ دریا میرے

مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے

دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے

احمد فراز

کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

غزل

سخن ہاے دل و جاں مر گئے کیا
کہو کچھ تو کہو ہاں مرگئے کیا

یہ کیا آٹھوں پہر چپ سی لگی ہے
وہ کچھ کہنے کے ارماں مر گئے کیا

جیے جاتے ہیں ہم اک دوسرے بن
ہمارے عہد و پیماں مر گئے کیا

یہ خاموشی تو اب رونے لگی ہے
وہ آنے والے طوفاں مرگئے کیا

یہ دل کیوں سینہ کوبی کر رہا ہے
یہ تم مجھ میں مری جاں مر گئے کیا

اسیرانِ خمِ زلفِ زمانہ
پریشاں تھے پریشاں مر گئے کیا

جو دن دھّمال کرتے آ رہے تھے
وہ رستے ہی میں رقصاں مر گئے کیا

کوئی تو دارسامانی کو آتا
گرانی میں سب ارزاں مر گئے کیا

میں ایسا کون زندہ ہوں کہ پوچھوں
کراچی کی غزل خواں مر گئے کیا

لیاقت علی عاصمؔ

اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

غزل

لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرا اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانا اپنا

طعنہء دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا

بول، اے بے سروسامانیء گلشن، کچھ بول
خلقتِ شہر طلب کرتی ہے حصّہ اپنا

یہ بھی کب تک کہ ہر آفت کا سبب ہے کوئی اور
منزلیں خود بھی تو گُم کرتی ہیں رستہ اپنا

ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں
ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

افتخار عارفؔ

تمھاری پارٹی میں، میں کہاں پر ہوں؟



ہمارے سیاستدانوں میں ایک جاوید ہاشمی کی شخصیت ایسی ہے جسے سب ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہیں بھی قابلِ قدر کیونکہ وہ ان گنے چنے سیاست دانوں میں سے ہیں جو مفاد پرستی کی سیاست میں نظریہ اور استقامت کی علامت ہیں۔ حال ہی میں جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ۔ ن چھوڑ کر تحریکِ انصاف میں شمولیت اخیتار کی ہے۔ جب جاوید ہاشمی سے اس بابت استفسار کیا گیا تو ہمیں توقع تھی کہ اس تبدیلی کے پس منظر میں بھی کوئی نہ کوئی نظریہ یا نظریاتی اختلاف ہی ہوگا لیکن توقع کے برخلاف انہوں نے کہا کہ مجھے نظرانداز کردیا گیا، مجھے پوچھا نہیں گیا، مجھے پس منظر میں دھکیل دیا گیا ۔ یہ بات مایوس کن سہی لیکن اپنے ٹریک ریکارڈ کی وجہ سے جاوید ہاشمی اب بھی بہت سے دوسروں سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔

باوجود یہ کہ تحریکِ انصاف اب تک ایک واضح نظریے کو لے کر چل رہی ہے اور عام لوگ اسے اس کی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر ہی پسند کرنے لگے ہیں لیکن جتنے بھی بڑے رہنما تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے ہیں اُن کے پیشِ نظرعوامل میں نظریہ کہیں بھی موجود نہیں ہے اور یہ ایک انتہائی منفی رجحان ہے جو بعد میں اس جماعت کو بھی دوسری جماعتوں کی طرح نظریہ ضرورت کی تال پر رقص کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔

دراصل ہمارے ہاں نظریاتی سیاست کا بڑا فقدان ہے۔ یہاں رنگ، نسل ، زبان، علاقہ اور ہر طرح کی عصبیت پر سیاست کی جاتی ہے لیکن نظریہ پر نہیں کی جاتی۔ جب کبھی دو گروہ رنگ و نسل اور دیگر ایسی بنیاد وں پر آپس میں لڑتے ہیں تو ایسے میں دونوں ہی اپنی اپنی جگہ حق پر ہوتے ہیں اور دونوں ہی خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ اگر یہی تفرقہ نظریاتی اختلافات کی بنا پر ہو تو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی صحیح اور غلط کی تمیز کر سکتا ہے کیونکہ صرف نظریاتی جنگ ہی ایسی جنگ ہے جس میں حق و باطل کی تفریق کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مخالفتیں مختلف تعصبات کی وجہ سے ہوتی ہیں ان کا تعین ہی نہیں ہو پاتا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔

اب آخر میں ذکر اُن سیاسی جماعتوں کا جن میں بہت ہی معتبر اور تجربہ کار سیاست دان موجود ہیں لیکن یہ جماعتیں ان کے ہوتے ہوئے بھی اپنے ننھے منے بچوں کو لاکر ان کے سر پر بٹھا دیتے ہیں۔ یہی کچھ مسلم لیگ۔ ن میں بھی ہوا اور ہو رہا ہے مسلم لیگ ۔ن جس کا تکیہ کلام ہی میثاقِ جمہوریت ہے اپنی پارٹی میں جمہوریت کو کوئی مقام دینے پر تیار نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی کے ہوتے ہوئے بھی شریف خاندان کے نوجوان آج پارٹی کے کرتا دھرتا ہوگئے ہیں ۔ یعنی وہی موروثی سیاست۔ موروثی پارٹی کے ذکر پر پپلز پارٹی کا نام تو خود بہ خود ہی ذہن میں آجاتا ہے اور پپلز پارٹی آج بھی اسی ڈگر پر ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جماعتِ اسلامی ، جیسی بھی ہے لیکن واقعتاً ایک جمہوری جماعت ہے اور اس میں باقاعدگی سے کارکنان کو رائے کا حق بھی دیا جاتا ہے اور قیادت کی منتقلی بھی اسی اعتبار سے کی جاتی ہے۔

ہماری وہ تمام جماعتیں جو جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں ان کو چاہیے کہ وہ پہلے اندرونِ خانہ جمہوریت کا آغاز کریں اور پھر بعد میں جمہوریت کی بات۔ کیونکہ یہ
بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ

Charity begins at home.