اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

غزل

لوگ پہچان نہیں پائیں گے چہرا اپنا
اب نہ بدلے تو بدل جائے گا نقشہ اپنا

برق ایک ایک نشیمن کا پتہ جانتی ہے
اب کے پھر ڈھونڈ نکالے گی ٹھکانا اپنا

طعنہء دربدری دے مگر اتنا رہے دھیان
راستہ بھی تو بدل سکتے ہیں دریا اپنا

بول، اے بے سروسامانیء گلشن، کچھ بول
خلقتِ شہر طلب کرتی ہے حصّہ اپنا

یہ بھی کب تک کہ ہر آفت کا سبب ہے کوئی اور
منزلیں خود بھی تو گُم کرتی ہیں رستہ اپنا

ہم کہاں اپنے سوا اور کو گردانتے ہیں
ہم نے لِکھا بھی تو لکھیں گے قصیدہ اپنا

افتخار عارفؔ

5 تبصرے: