ہاتھی کے دانت



کہتے ہیں کسی بھی ملک و ملت کی ترقی اور تنزلی، اُس کی خوشحالی یا بدحالی، اس کی قیادت پر منحصر ہوتی ہے۔ اگر قیادت اچھی ہو تو ملک و قوم ترقی کرتے ہیں نہیں تو وہی ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔

قیادت کیسی ہو اس کے بارے میں دنیا میں بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن علامہ اقبال نے بڑا سادہ سا نسخہ پیش کردیا ہے۔

نگہ بلند، سخن دلنواز، جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

اگر ہم پاکستان کے رہبرانِ ملت کو دیکھیں تو اُن میں یہ تمام اوصافِ جمیلہ بدرجہ اتم موجود ہیں۔ نگاہ ہمارے لیڈر کی بلند ہے۔ بلند بھی اتنی کہ وزارتِ عظمٰی سے نیچے ہی نہیں اُترتی ۔ سخن دلنوازی بھی موجود ہے خاص طور پر اگر خطاب عوام سے ہو اور مخاطب بھی عوام ہی ہوں، مخالفین نہ ہوں ۔ اب رہ جاتی ہے "جاں پر سوز" کی بات تو اس کڑے معیار پر بھی ہمارے قائدین پورے پورے اُترتے ہیں بلکہ گردن گردن غرق ہیں۔ ہمارے لیڈرز کا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اُن کا دل خون کے آنسو نہ روتا ہویا جب عوام کے غم میں اُن کے پیٹ میں مروڑ نہ اُٹھتے ہوں۔

اگر کسی کو ہمارے ان رہبرانِ ملت کے اخلاص میں زرا بھی شبہ ہو تو وہ ناقدین ہمارے ان قائدین کے عوامی خطابات سنیں ضرور افاقہ ہوگا ۔ اُنہیں پتہ چلے گا کہ ہمارے رہبرانِ ملت کو عوام کے دکھ درد کا کتنا زیادہ احساس ہے اور عوام کی فلاح کے لئے اُن کے پاس کتنے بہترین منصوبے ہیں جو مخالفین کی بلاجواز مزاحمت کی وجہ سے پایائے تکمیل کو نہیں پہنچ پاتے ۔ ملکی سلامتی اور خود مختاری اُن کی اولین ترجیح ہے اور وہ ملکی وقار اور سالمیت پر سودے بازی کو گناہ سے بھی بد تر سمجھتے ہیں۔

گو کہ ہمارے تمام رہبرانِ ملت علامہ اقبال کی وضع کردہ کسوٹی پر پورے اُترتے ہیں بلکہ کچھ اس سے بھی سوا ہیں لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں ملک و ملت کی حالت کچھ اور ہی ہے۔ یہ بات ہماری سمجھ نہیں آئی، ہمیں کیا یہ بات تو منیر نیازی کی بھی سمجھ نہیں آئی جس کا اظہار اُنہوں نے یوں کیا ہے۔

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

سمجھ نہیں آتا کہ اتنے مخلص رہبرانِ ملت کی مو جودگی کے باوجود بھی آخر کیوں

پاکستان کا ہر دور تاریخ کا نازک ترین دورہوتا ہے۔
ساری عمر عوام کا رونا رونے والے عوامی مسائل پر تب ہی کیوں زور دیتے جب اُن کی اپنی جماعت پر انگشت نمائی ہوتی ہے۔
حکومت سے علیحدگی کے لئے بھی اُسی وقت کا انتخاب کیوں کیا جاتا ہے جب آپ کے وزراء کو برطرف کردیا جائے یا آپ کی جماعت پر کڑی تنقید کی جائے۔
ملکی سلامتی اور وقار کی باتیں کرنے والے حکومتی اور حزبِ اختلاف کے لیڈرز جس وقت ہنس کے ہنس وائسرائے پاکستان سے باتیں کرتے ہیں تب ملکی سلامتی اور وقار جیسی چیزیں کہاں ہوتی ہیں۔
مہنگائی، بے روزگاری، تعلیمی معیاراور عوامی فلاح کے موضوعات پر اسمبلیوں میں چپ سادھ لینے والے لوگ مائیکروفون ہاتھ آتے ہی غریب آدمی کی کمر ٹوٹنے کا رونا کیوں روتے ہیں۔
تعلیمی اداروں میں سیاست کے نام پر نوجوان نسل کا مستقبل تباہ کرنے والوں کے اپنے بچے ملک سے باہر کیوں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

یہ اور ایسے انگنت سوالات ہیں جن کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہے اور آگے بھی کوئی آثار نہیں، لیکن تحسین ہے ہمارے رہبرانِ ملت کے لئے کہ آج بھی اُن کا ماضی بے داغ ہے اور مستقبل تابناک۔ اور میں اور آپ اُن کے جلسوں میں کھڑے نعر وں پر نعرے لگا رہے ہیں کہ ایسے پُر خلوص لیڈرز قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔

نہ جانے کس خیال کی رو میں اس تحریر کا عنوان "ہاتھی کے دانت" رکھ دیا ورنہ ہم تو صرف ہاتھی کے دانت کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں کہ

"ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور"

حالانکہ ہم اس تحریر کا عنوان "سال کی آخری جلی کٹی تحریر" بھی رکھ سکتے تھے۔



کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا


غزل


کہیں تھا میں، مجھے ہونا کہیں تھا
میں دریا تھا مگر صحرا نشیں تھا

شکست و ریخت کیسی، فتح کیسی
کہ جب کوئی مقابل ہی نہیں تھا

ملے تھے ہم تو موسم ہنس دیئے تھے
جہاں جو بھی ملا، خنداں جبیں تھا

سویرا تھا شبِ تیرہ کے آگے
جہاں دیوار تھی، رستہ وہیں تھا

ملی منزل کسے کارِ وفا میں
مگریہ راستہ کتنا حسیں تھا

جلو میں تشنگی، آنکھوں میں ساحل
کہیں سینے میں صحرا جاگزیں تھا

محمد احمدؔ

تجاہلِ عارفانہ



ایک گدھابہت آرام و اطمینان کے ساتھ ایک سبزہ زار میں گھاس چر رہا تھا۔ اچانک اُسے دور جھاڑیوں میں کسی بھیڑیئے کی موجودگی کا شائبہ گزرا ، لیکن یہ گمان ایک لحظہ بھر کے لئے بھی نہ تھا ، گدھے نے اسے اپنا وہم قیاس کیا اور پھر سے ہری ہری گھاس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اُسے کچھ دور جھاڑیوں میں سرسراہٹ محسوس ہوئی وہ ایک لمحے کے لئے چونکا پھر اپنے وہم پر مسکرا دیا اور اطمینان سے گھاس سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ زرا توقف کے بعد اُسے پھر سے جھاڑیوں میں ہلچل محسوس ہوئی بلکہ اب تو اُسے بھیڑیا نظر بھی آگیا لیکن اُسے اب بھی یقین نہیں آیا اور خود کو وہمی اور شکی ہونے پر ملامت کرنے لگا اور گھاس چرتا رہا۔ گدھا وہم و یقین کی اسی کشمکش میں مبتلا رہا اُس نے کئی بار بھیڑیئے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھا لیکن ہر بار اسے اپنا وہم خیال کیا حتی کہ بھیڑیے نے گدھے پر حملہ کردیا اور چیر پھاڑ کر نے لگا تو گدھا چیخ کر بولا" بھیڑیا ہی ہے ! بھیڑیا ہی ہے"، لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

آپ میں سے بہت سوں نے یہ کہانی ضرور سُنی ہوگی اور جنہوں نے نہیں سُنی وہ بھی اب تک اس سے ملتی جلتی کہانیوں کے عادی ضرور ہو گئے ہوں گے۔ ہمارے اربابِ اختیار کے وہ بیانات اب ہمارے روز مرہ میں شامل ہو گئے ہیں جن میں سامنے کے واقعات پر انجان بن کر تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جاتی ہے، ایسی کمیٹی جس کی رپورٹ طلب کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

جس زمانے میں امریکہ اور اُس کے حواریوں نے پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کئے تھے اُس وقت بھی ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا جاتا تھا جو یقین سے زیادہ گمان پر دلالت کرتی ۔ کبھی امریکی حملوں کو حکومت اپنی کاروائی بتاتی تو کبھی بوکھلاہٹ میں ملکی سالمیت اور خود مختار ی پر بیانات داغے جاتے۔ اس قسم کے بیانات دینے والوں کے نزدیک ملکی سالمیت اور خود مختاری کیا معنی رکھتی ہے اس کا اندازہ اُن کے انداز سے بخوبی ہو ہی جاتا ہے۔ یہاں "بھیڑیئے" کی موجودگی کا علم تو سب کو ہی تھا لیکن
اس سلسلے میں جس "تجاہل ِ عارفانہ "سے کام لیا جاتا رہا اُس کا واقعی کوئی جواب نہیں۔

یہ وہ وقت تھا جب بھیڑیا دور جھاڑیوں میں تھا اور لیکن پھر ایک وقت وہ آیا کہ ڈرون حملے معمول کا حصہ بن گئے ۔ یعنی اب ڈرون حملے ملکی سلامتی اور خود مختاری کے لئے خطرہ نہیں رہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ نیوز چینل کچھ کھلے اور کچھ دبے انداز میں ڈرون حملوں کی رپورٹنگ کرتے رہے لیکن گھسے پٹے بیانات سے جان البتہ چھوٹ گئی۔

اب پھر سے ہمارے صدر اور وزیرِ اعظم نیٹو فورسز کی پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی بلکہ پاکستانی چیک پوسٹ پر حملے پر بھی کچھ ایسی ہی تشویش ظاہر کر رہے ہیں جو گدھے کو بھیڑیئے کی جانب سے رہی۔ تشویش اور تحقیقات کا حکم ! ایسی تحقیقات جن کی رپورٹ طلب کرنے والا کوئی نہیں۔

نہ جانے ایسا کب تک چلتا رہے گا اور نہ جانے ایسے کب تک چل سکے گا، کیونکہ ہمارا حال سب کے سامنے عیاں ہے اور ایسے حال والوں کے انجام کی پیش گوئی اقبال کے اس شعرسے بہتر کون کرسکتا ہے۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اس ضعف اور کمزوری کا سدِ باب کرنے والا تو فی الحال کوئی نظر نہیں آتا لیکن اگر اس کے سدِّ باب کی کوشش نہیں کی گئی تو انجام بھی منطقی ہی ہوگا جس پر کسی کو شکایت نہیں ہوئی چاہیے۔




تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں


غزل


روز، اک نیا سورج ہے تری عطاؤں میں
اعتماد بڑھتا ہے صبح کی فضاؤں میں

شاید ان دیاروں میں خوش دلی بھی دولت ہے
ہم تو مسکراتے ہی گھر گئے گداؤں میں

بھائیوں کے جمگھٹ میں، بے ردا ہوئیں بہنیں
اور سر نہیں چھپتے ماؤں کی دعاؤں میں

بارشیں تو یاروں نے کب کی بیچ ڈالی ہیں
اب تو صرف غیرت کی راکھ ہے ہواؤں میں

سُونی سُونی گلیاں ہیں، اُجڑی اُجڑی چوپالیں
جیسے کوئی آدم خور، پھر گیا ہو گاؤں میں

جب کسان کھیتوں میں دوپہر میں جلتے ہیں
لوٹتے ہیں سگ زادے کیکروں کی چھاؤں میں

تم ہمارے بھائی ہو، بس زرا سی دوری ہے
ہم فصیل کے باہر ، تم محل سراؤں میں

خون رسنے لگتا ہے اُن کے دامنوں سے بھی
زخم چھپ نہیں سکتے، ریشمی رداؤں میں

دوستی کے پردے میں، دشمنی ہوئی اتنی
رہ گئے فقط دشمن اپنے آشناؤں میں

امن کا خدا حافظ۔ جب کے نخل زیتوں کا

شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں


ایک بے گناہ کا خوں، غم جگا گیا کتنے
بٹ گیا ہے اک بیٹا، بے شمار ماؤں میں

بے وقار آزادی، ہم غریب ملکوں کی
تاج سر پہ رکھا ہے، بیڑیاں ہیں پاؤں میں

خاک سے جدا ہوکر اپنا وزن کھو بیٹھا
آدمی معلق سا رہ گیا خلاؤں میں

اب ندیم منزل کو ریزہ ریزہ چنتا ہے
گھر گیا تھا بےچارہ کتنے رہنماؤں میں

احمد ندیم قاسمی




عالمی یومِ امن



آج دنیا بھر میں عالمی یومِ امن منایا جا رہا ہے ۔ جب جب اس طرح کے دن منائے جاتے ہیں مجھے بڑی ہنسی آتی ہے کس ڈھٹائی سے ہم لوگ یہ سب کارِ منافقت سر انجام دیتے ہیں۔تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔طرح طرح کے بیانات داغے جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہےکہ یا تو یہ بیانات دینے والے کسی اور ہی دُنیا سے آئے ہیں یا پھر اس دنیا کی تمام تر بد امنی اور جنگوں کے ذمہ دار اہلِ زمین نہیں بلکہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے.

آج پاکستان، افغانستان اور عراق سمیت دنیا بھر میں امن کا جو حال ہے ایسے میں عالمی یومِ امن کی رسمی تقریبات منافقت نہیں تو اور کیا ہیں۔

امن کا خدا حافظ۔ جب کے نخل زیتوں کا
شاخ شاخ بٹتا ہے بھوکی فاختاؤں میں

احمد ندیم قاسمی

نہ جانے کب تک یہ دُہرے معیار اس زمین کا مقدر رہیں گے۔






ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

غزل

ڈال دی حُرمتِ وصال پہ خاک
اِس گُناہوں بھرے خیال پہ خاک

روح جیسا بدن بکھیر دیا
اے محبت تری مجال پہ خاک

آئینہ ٹوٹ ہی گیا آخر
ایسے ہاتھ، ایسی دیکھ بھال پہ خاک

ایک لمحے میں پڑ گئی کیسے
سال ہا سال کے کمال پہ خاک

درد آگے نکل گیا ہم سے
اے دلِ خستہ تیری چال پہ خاک

اور بے حال کر لیا خود کو
خاک اس شوقِ عرضِ حال پہ خاک

غیر اپنا ہے اور اپنا غیر
حاصلِ مُمکن و مُحال پہ خاک

زخم، اے وقت! داغ بن بیٹھا
جا ترے نازِ اندمال پہ خاک

لیاقت علی عاصم

امیرالمومنین کی عید

عید کے دن لوگ کاشانہ خدمت پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) دروازہ بند کرکے زار و قطار رو رہے ہیں۔ لوگوں نے حیران ہو کر تعجب سے عرض کیا۔
یا امیر المومنین ! آج تو عید کا دن ہے، مسرت و شادمانی اور خوشی منانے کا دن ۔ یہ خوشی کی جگہ رونا کیسا؟
آنسو پونچھتے ہوئے آپ (رضی اللہ تعالی عنہ) نے فرمایا۔
"اے لوگو! یہ عید کا دن بھی ہے اور وعید کا دن بھی ہے۔ آج جس کے نماز روزے مقبول ہوگئے بلاشبہ آج اس کے لئے عید کا دن ہے لیکن آج جس کی نماز اور روزہ کو اس کے منہ پر مار دیا گیا ہو، اس کے لئے آج وعید کا دن ہے۔ اور میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ میں مقبول ہوں یا رد کردیا گیا ہوں ۔

بشکریہ : کرن ڈائجسٹ