آج کل انتہا پسندی کی اصطلاح بہت عام ہے ہونی بھی چاہیے کہ ہم سب ہی اس کا شکار ہیں اور سخت اذیت اور اضطراب میں مبتلا ہیں۔ انتہا پسندی کی اور جو بھی وجوہات ہوں لیکن بنیادی وجہ ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ سب کے لئے عمدہ، اعلیٰ اور یکساں تعلیم ہمارے اربابِ اختیار کی ترجیحات میں کبھی رہی ہی نہیں ( وسائل کا معاملہ ثانوی ہے)۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جو علاقے جتنے زیادہ پسماندہ ہیں اُتنے ہی انتہا پسندی کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اور ہمارا اجتماعی شعور اب بھی اتنا پست ہے کہ ہم صحیح اور غلط کی تمیز نہیں کر پاتے۔
قطعہ نظر ان سب باتوں کے میں آج جس انتہا پسندی کی بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ ہمارے رویّوں کی انتہا پسندی ہے اگر ہم اپنے رویّوں پر غور کریں تو ہم سب ہی کہیں نہ کہیں انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ شاید آپ کو یہ سن کر حیرت بھی ہو کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اُسے انتہا پسندوں کی فہرست میں گنا جائے۔ لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا ہم واقعی ایسا چاہتے ہیں۔
چلئے اس بحث کا آغاز "بحث" ہی سے کرتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو بحث کے آغاز پر یہ سوچتے ہیں کہ زیرِ بحث معاملے میں اُن کا موقف بھی غلط ہو سکتا ہے اور اگر کوئی شخص اُنہیں مناسب اور مستند دلائل دے تو وہ قائل بھی ہو سکتے ہیں۔ شاید ایسے لوگ ایک فیصد بھی نہ ہوں۔ اس کے برعکس جب ہم بحث کا آغاز کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ ہم اپنے دلائل سے سامنے والے کو لاجواب کردیں اور اُسے ہمارا موقف مانتے ہی بنے ۔ شاید ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ ہم تو حق پر ہیں اور سامنے والا غلط تو پھر اُسے ہی ماننا چاہیے ہم کیونکر حق سے روگردانی کے مرتکب ہوں۔ یہی وہ وجہ ہے کہ صحت مند بحث کا آغاز ہو ہی نہیں پاتا اور ہم دلائل سے طعن و دشنام اور پھر کفر و باطل کے فتووں پر اُتر آتے ہیں۔
یہ ہمیں لوگ ہیں جو بحث مذہبی ہو تو اپنے مخالف کو کافر اور زندیق سے کم درجہ دینے پر راضی نہیں ہوتے اور اگر بات سیاسی نوعیت کی ہو تو فریقِ مخالف کو ملک دشمن ، امریکہ کا یار اور یہودیوں اور را کا ایجنٹ بنانے میں دیر نہیں کرتے ۔ سیکولر طبقہ کسی بھی مذہبی سوچ رکھنے والے کو طالبان جیسے سفاک لوگوں سے ملانے سے گریز نہیں کرتا اور مذہبی طبقہ ہر لبرل اور آزاد سوچ رکھنے والے کو سیکولر، سوشلسٹ اور دہریا قرار دینے میں ہی اپنی جیت سمجھتا ہے۔
سیاسی عقیدت مندی میں ہم صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح قرار دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ ہم اپنے ممدوح کی اچھی باتوں کا تو پروپیگنڈا کرتے ہی ہیں بری باتوں کا بھی پوری شد ومد سے دفاع کرتے ہیں۔ رہے ہمارے سیاسی حریف تو اُن کے ہر اقدام کو غلط اور ملک دشمنی قرار دے دینا ہمارے لئے کون سا مشکل ہے۔ مذہبی عقیدت مندی کو تو جانے ہی دیجیے۔
شاعری کو لے لیجے۔ ہمارا شاعر اپنی شاعری میں انوکھا پن اور شدتِ اظہار کے لئے خدا سے جا اُلجھتا ہے اور گستاخی کو گستاخی بھی نہیں سمجھتا ۔ فلمی گیتوں کو تو چھوڑ ہی دیجے کہ اُن کی تو کوئی حد ہی متعین نہیں ہے۔ یہی شاعر جب نعت لکھتا ہے تو نبی کی ذات کو خدا سے جا ملاتا ہے اور اسے اس بات کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔
یہی حد سے بڑھی ہوئی خوش اعتقادی لوگوں کو نام نہاد پیر وں فقیروں کے در کا گدا بنا دیتی ہے اور وہ اپنے جیسے محتاج لوگوں سے ہی حاجت روی اور مشکل کشائی کی اُمید کرنے لگتے ہیں اور اللہ رب العزت کی ذاتِ عظیم کو بھلا بیٹھتے ہیں کہ جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اورجو واقعتا دینے والا اور مشکل کشائی کرنے والا ہے۔
ان چند مثالوں کے علاوہ بھی اس طرح کے بہت سے مظاہر ہمارے ارد گرد ہی نظر آتے ہیں بس شرط آنکھیں کھلی رکھنے کی ہے۔ انتہا پسندی کے سب سے زیادہ نقصانات ہماری ذات ہی کو پہنچتے ہیں کہ ہم اس وجہ سے بہت سے دوستوں کو کھو دیتے ہیں اور بغض اور نفرت جیسے منفی رویوں میں گھر کر اپنا بھی دن رات کا سکون غارت کر بیٹھتے اور دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
ان سب معاملات سے بچنے کا ایک ہی آسان سا نسخہ ہے اور وہ ہے اعتدال اور انصاف کی راہ ۔ اگر ہم صرف اتنا سا خیال رکھیں کہ ہم کسی کی دوستی اور دشمنی میں اتنے آگے نہ نکل جائیں کہ انصاف کا دامن ہی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو بہت سے لا یعنی مباحث جنم ہی نہ لیں اور نہ ہی دوستوں کے درمیان بے جا رنجشیں اور دوریاں پیدا ہوں۔
خیالِ خاطر ِاحباب چاہیے ہردم
انیس ٹھیس نہ لگ جاے آبگینوں کو
انیس ٹھیس نہ لگ جاے آبگینوں کو
کیا حرج ہے اگر ہم اپنے رویّوں پر نظرِ ثانی کرتے رہیں۔